ریاست مدینہ اورکاشانہ کے باسی


عید کا دن تھا، ہر چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا۔ گلیوں میں بچے نئے کپڑے پہن کر کھیل رہے تھے۔ آقا دوجہاں ؐ عید کی نماز پڑھنے کے لئے گھر سے مسجد کی طرف تشریف لانے لگے تو ایک بچے کو دیگر سے یکسر مختلف پایا۔ آپؐ اس کے قریب پہنچے اور استفسار کیاکہ تمہیں کیا ہوا؟ کیا وجہ ہے کہ تم اداس اور پریشان نظر آ رہے ہو؟ اس نے روتے ہوئے جواب دیا کہ میں یتیم مدینہ ہوں، میرے سر پر باپ کا سایہ نہیں ہے، جو میرے کپڑے لا دیتا، اس لیے میں یہاں اداس بیٹھا ہوں، آپؐ نے اسے اپنے ساتھ لیا اور واپس گھر تشریف لائے اور سیدہ عائشہؓ سے فرمایا، تم اس بچے کو نہلا دو، چنانچہ اسے نہلا دیاگیا، نبی کریمؐ نے اپنی چادر کے دو ٹکڑے کر دیے، کپڑے کا ایک ٹکڑا اسے تہبند کی طرح باندھ دیا گیا اور دوسرا اس کے بدن پر لپیٹ دیا گیا۔ اس کے سر پر تیل لگا کر کنگھی کی گئی، بچہ تیار ہو گیا تو نبی اکرمؐ نیچے بیٹھ گئے اور فرمایا: آج تو پیدل چل کر مسجد نہیں جائے گا بلکہ میرے کندھوں پر سوار ہو کر جائے گا۔

آپؐ نے اس یتیم بچے کو اپنے کندھوں پر سوار کر لیا اور اسی حالت میں مسجد پہنچے۔ نبی کریمؐ جب مسجد میں منبر پر تشریف فرما ہوئے تو وہ بچہ نیچے بیٹھنے لگا، آپؐ نے اسے اشارہ کرکے فرمایا، کہ تم آج زمین پر نہیں بیٹھو گے بلکہ میرے ساتھ منبر پر بیٹھو گے۔ چنانچہ آپؐ نے اس بچے کو اپنے ساتھ منبر پر بٹھایا اور پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا کہ جو شخص یتیم کی کفالت کرے گا اور محبت و شفقت کی وجہ سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرے گا اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بھی بال آئیں گے اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں اتنی نیکیاں لکھ دے گا۔

نبی اکرم ؐ کی زندگی یتیموں سے حسن سلوک کے ان گنت واقعات سے بھری پڑی ہے جو کہ معاشرے میں فرد واحد سے لے کر حکمران طبقے کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ریاست مدینہ سید کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی فکری، ایمانی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی اصلاح سے وجود میں آنے والی وہ فلاحی ریاست تھی، جس کی بنیادیں اخلاقی اور روحانی اقدار پر قائم تھیں۔ یہ مثالی ریاست کسی بھی اسلامی فلاحی ریاست کے لئے نمونہ کمال کی حیثیت رکھتی ہے۔ 1 سال قبل پاکستان میں ریاست مدینہ کے ماڈل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی اسلامی اور فلاحی ریاست کے قیام کا اعلان ہوا جو کہ بظاہر بہت خوش آئند بات ہے لیکن اس سے جڑے حقائق کافی تلخ ہیں۔

کسی بھی فلاحی ریاست پر ذمہ داری ہوتی ہے کہ یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کرے، خواہ اس کے لیے جوبھی مناسب شکل اختیار کرنی پڑے۔ پاکستا ن میں یتیم اور لاوارث افراد خصوصاً بچیوں کو خوراک سے لے کر دیگر ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے یتیم خانے اور دارلاما ن بنائے گئے ہیں۔ موجودہ حکومت، جو کہ فلاحی اسلامی ریاست کے قیام کے لئے شب و روز کوششوں میں مصروف ہے، کے حوالے سے کاشانہ لاہور کی برطرف انچارج افشاں لطیف نے انکشاف کیا ہے کہ اعلیٰ عہدیداران کی جانب سے بچیوں کی شادیاں کروانے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، جن کی عمر 16 سے 18 سال کے درمیان ہے، کمر عمر بچیوں کی شادی کا مقصد کچھ اعلیٰ حکام اور صوبائی وزیر کو خوش کرنا تھا، شکایت پر سی ایم آئی ٹی نے 5 اگست کو اپنی انکوائری کا آغاز کیا جس کے آغاز میں مجھے معطل کر دیا گیا۔

برطرف عہدیدار نے الزام عائد کیا کہ صوبائی وزیر پنجاب اجمل چیمہ چاہتے تھے کہ ان کے رشتے داروں کو کاشانہ میں ملازمتیں اور رہائش کے لئے کمرے دیے جائیں جب کہ چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم بھی صوبائی وزیر کے ساتھ ان گھناؤنے کاموں میں ملوث ہیں۔ اعلیٰ سطح پر ایسے واقعات منظر عام پر آنے والا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن اس سے قبل ان غیر اخلاقی واقعات کو محض الزامات قرار دے کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا۔

ان انکشافات کے بعد پورے ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے، سماجی کارکنان نے اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ کاشانہ کی انچارج کے انتظامی عہدیداران سے اختلافات ہونے کے باعث یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے لیکن ملک میں ریاست اور این جی اوز کے زیر انتظام چلنے والے دارالامان میں حالات جو ں کہ توں موجود ہیں۔ دارالامان میں رہائش پذیر بچیوں کی ناصرف جبری شادیاں کی جاتی ہیں بلکہ انہیں بیرون ملک سپلائی بھی کیا جاتا ہے۔ اگر حکومتی وزراء اور صاحب اقتدار طبقہ بھی اخلاقی اقدار کھودیں تو پھر معاشرہ کیسے بچے گا۔

ہم بحیثیت پاکستانی قوم ایک جانب تو محمد بن قاسم کی مثالیں دیتے ہیں لیکن دوسری جانب بچوں سے بد فعلی جیسے گھناونے واقعات میں ناصرف ملوث ہوتے ہیں بلکہ جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں عورت کی عزت و تکریم کے درجنوں واقعات موجود ہیں جو کہ ہر خواص و عام کو ذہن نشین ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان پر عمل کرنے سے قاصر ہیں، شاید ہمارے میں معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ محض واقعات ہیں جن پر سبحان اللہ کہہ کر فرض پورا ہو جاتا ہے۔

ہم بڑے فخر سے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرتے پھرتے ہیں لیکن سنت نبوی پر عمل پیرا ہونا ہی دین اسلام ہے۔ نبی اکرم ؐ کایتیم بچوں کے ساتھ حسن سلوک اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اسلامی ریاست پربے سہارا اور نادار بچوں کی کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جنسی درندگی کے واقعات آئے روز خبروں کی زینت بنتے ہیں لیکن ان واقعات میں ناصرف ان پڑھ طبقہ ملوث ہے بلکہ معاشرے کی پڑھی لکھی کمیونٹی بھی برابر کی شریک ہے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے خصوصی نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا ہے لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس سے قبل کتنی انکوائریوں کے نتائج عوام کے سامنے لائے گئے ہیں؟ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے وسیم اکرم کو حکومت کی مثبت کارکردگی کو منظر عام پر لانے کی ہدایات کی ہیں لیکن ریاست مدینہ کے ماڈل کو لاگو کرنے سے پہلے کاشانہ جیسے واقعات میں ملوث کالی بھیڑوں کی چشم پوشی کے بجائے میرٹ پر کارروائیاں عمل میں لائی جانی چاہیے۔ حکومتی عہدیداران اور بالخصوص امیر ریاست کی جانب سے ریاست کی زیر کفالت یتیم بچیوں کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ کے واقعات پر سختی نمٹنا چاہیے اورسنگین الزامات و انکشافات کی شفاف تحقیقات کروائی جانی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).