تحریک انصاف محض وعدوں سے کام نہیں چلا سکتی


اللہ کی کتاب کہتی ہے کہ جب گمراہ ہو جاؤ تو اہل علم سے رجوع کرو، جب کہ ہم اہل علم سے رابط کرتے ہیں جو جھوٹے علم اٹھاتے ہیں، الزامات کے، جھوٹے وعدوں کے، جو جھوٹے خواب دیکھتاتے نظر آتے ہیں۔ حسن نثار نے ایک جگہ کیا خوب کہا کہ موجودہ سیاستدان پارٹ ٹائم لیڈر ہیں چالیس یا پچاس رٹے رٹائے جملوں کے علاوہ کچھ بول نہیں سکتے۔ انسان پر منحصر ہوتا ہے یا تو ایک جامع اور وسیع تصویر دیکھے یا عجلت میں آکر ایسے فیصلے کرے کہ نتائج جلد برپا ہوں۔

امت کو فتنوں سے بچانے کے لیے جناب سیدنا علی ابنِ طالب نے قصاص کا معاملہ ایک مصلحت کے تحت ملتوی کر دیا تھا۔ ہم ان سے بڑھ کر تو انصاف کے داعی نہیں اور نہ ہی بہتر ترجیحات مرتب کرنے والے۔ عصر حاضر میں نیلسن منڈیلا سے بڑا لیڈر دور دور تک کوئی دکھائی نہیں دیتا، ستائیس سال جیل کاٹنے کے بعد جب باہر نکلے تو انتقام، نفرتوں، الزامات، مخالفین کی تذلیل سب کچھ اسی جیل میں دفن کردیا، اپنی حفاظت کے لیے ان ہی لوگوں کو محافظ بنایا جن کے خلاف ستائیس برس نظریاتی جنگ لڑتے رہے۔

30 اکتوبر 2011 کا جلسہ تحریک انصاف کی سیاسی زندگی کا نیا دور ثابت ہوا، کیا عظیم الشان جلسہ تھا، رنگ نسل، ذات پات سے بالاتر ہو کر ہر مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے، نئے خواب، نئی امید، نئے جذبے سے سر شار، ہم جیسے نوجوان جو پاکستان کی تیسری نسل میں سے ہیں ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھنے لگے۔ یہ عمر ہوتی ہی کچھ ایسی ہے۔

خرد کو غلامی سے آزاد کر

جوانوں کو پیروں کا استاد کر

وقت گزرتا گیا اور آنے والے ہر نئے دن کے ساتھ امیدوں کے چراغ مزید روشن ہوتے گئے۔ آزاد عدلیہ، مفت تعلیم، پٹواری کو لگام، جدید اسپتال، مناسب روزگار کے مواقع، سب سے بڑھ کر سیاسی لبادہ اوڑھے آمریت سے نجات۔ 2013 کے الیکشن کے بعد ایک عام سادہ سیاسی دانشور بھی یہ اندازہ لگا سکتا تھا کہ اگلی معرض وجود میں آنے والی حکومت تحریک انصاف کی ہوگی۔ اور ہوا بھی توقعات کے عین مطابق بالکل ویسا ہی، تحریک انصاف اقتدار کے منصب تک پہنچ گئی۔

اور پھر یہاں سے شروع ہوا ان سب وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کا سفر، وہ سب تبدیلیاں کرنے کا جن کا نوحہ پڑھتے تحریک انصاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی تھی۔ عمران خان اپنی کامیابی کی کنجی ٹیم سلیکشن کو قرار دیتے تھے، ورلڈ کپ جیتا تو ٹیم نے جیتا، شوکت خانم جیسا ادارہ ایک مضبوط ٹیم کے سہارے ہی قائم ؤ دائم ہے، افسوس صد افسوس جب زندگی کی سب سے اہم ٹیم بنانے گئے تو عثمان بزدار جیسے لوگ؟ 22 سال کی سیاسی جدو جہد میں 22 ایسے لوگ نہ تیار کر پائے جن کو ملک کے 22 اہم اداروں پر تعینات کیا جا سکتا ہو۔

سیاست سو فیصد دیانت داری کا کھیل نھیں ہے، اس میں کئی ایک لوازمات ہیں اور فرد شناسی ان سب میں اہم، یہ بات سمجھنا کتنا مشکل کام ہے کہ خالص سونے سے زیور نہیں بنتا۔ آپ کی سیاست کا طرزِ عمل اور دائرہ کار جو حزب اختلاف میں تھا وہی حزب اقتدار میں بھی جاری وساری ہے۔ احتساب بالکل اقوام کی ترقی کا سب سے اہم جزو ہے لیکن غیر جانبدار اور موثر احتساب۔ پر ترجیحات بھی تو کسی شے کا نام ہے۔ حکومتیں نہیں ادارے احتساب کیا کرتے ہیں، جب مسلسل حکمران احتساب کا راگ الاپتے نظر آئیں تو وہاں احتساب نہیں انتقام کا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے۔

کس خاکسار نے کہا کہ 70 سال کا گند اپ 70 دنوں میں صاف کردیں، لیکن شروعات تو دکھائی دیں۔ انصاف کا دوہرا معیار اور ریاست مدینہ؟ تعلیم کا طبقاتی نظام اور ریاست مدینہ؟ صحت کے شعبے کی روز بروز بگڑتی حالت اور ریاست مدینہ؟ پولیس ریفارمز، پٹواری نظام، معیشت کے پہیے کی یہ رفتار اور اپکی ریاست مدینہ؟

ایک عام آدمی، ریڑھی لگانے والا، یومیہ مزدور، درزی، موچی، برگر بچنے والا، چھوٹا دکاندار ”ان سب کو ہرگز غرض نہیں کہ آپ یا آپ کے رفیق احتساب کی بات کرتے ہوئے کتنے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں یا مخالفین کی کتنی تکذیب کرتے ہیں، غرض ہے تو محض اپنی ضروریات زندگی پوری کرنے سے، اسکولوں کی فیسوں سے، بجلی کے بلوں سے، روزگار کے زریعوں سے لے کر اپنی سفید پوشی قائم رہنے، تک۔ کوئی سروکار نہیں کہ میاں صاحب کے پلیٹلیٹس کم ہیں یا زیادہ، وہ چل کر جہاز پر گئے یا کسی سہارے  کے ساتھ ۔

خدارا رحم کیجیے آپ تحریک انصاف کے نہیں پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ ٹیم سلیکشن بہتر کیجئے، لوگوں کی امیدوں کا گلہ مت گھونٹئے۔ بنی گالا سے باہر نکل کر پاکستان کا سوچیں۔ اس سے پہلے کہ وقت کی بے رحم سوئی اپکے اقتدار کی کرسی بہت دور لے جائے، وعدوں سے کام نہیں چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).