کیا جنوبی پنجاب کے لوگ یونہی بے گھر ہوتے رہیں گے


\"khizar-klasra-2\"لیہ کے دریائے سندھ کے کچا کے علاقہ میں کٹاؤ کے ساتھ اجڑتے گھروں کی دکھ بھری کہانی، حقیقی معنوں میں تو وہی سمجھ سکتاہے، جو اس صورتحال سے کبھی دوچار ہوا ہو۔ اس کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ لمحوں میں دریا برد ہوتے گھروں کے علاوہ عورتوں، بچوں اور بزرگوں کو نامعلوم منزل کی طرف لے کر جانا کتنا مشکل اور دردناک ہوتاہے، اور پھر نہ ختم ہونے والا انتظار شروع ہوتا ہے، کہ کبھی تو دریا کا پانی واپس جائے گا، اور ہم زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے؛ لیکن ا س وقت تک کئی نسلیں ختم ہوجاتی ہیں۔ دریا کا کٹاؤ زلزلے سے بھی زیادہ یوں خطرناک ہوتا ہے، کہ سب کچھ ہی چلا جاتا ہے۔ ملبہ تک اٹھانے کی مہلت نہیں ہوتی۔ پھر جہاں تک نظر جاتی ہے پانی ہی کا راج ہوتا ہے اور انسانی زندگی میں نہ ختم ہونے والے اندھیرے ہوتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر تسلیاں اور وعدے تو اور بھی چڑچڑا کر دیتے ہیں۔ اجڑے لوگوں کا دھاڑیں مار کر رونے کو دل کرتا ہے، اور پھر اذیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے، جب حکومت کہیں نظرہی نہ آئے، اور زندگی کا نشان ہی مٹتا چلا جائے۔

ایسے ہی کچھ مناظر تھے جو کہ لیہ شہر سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ سے جڑے موضع لوہانچ اور دیگر موضع جات اور بستیوں میں مل رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ دریائے سندھ نے اب تہیہ کرلیا ہے، کہ زندگی کا نشان ہی ختم کرنا ہے۔ صورتحال اس وقت بدل گئی، جب دریا سندھ کے کٹاؤ کے شکار ایک اسی سالہ بزرگ کی چیخ بلند ہوئی اور وہ ڈاکٹر جاوید کنجال صاحب کے گلے لگ کر بچوں کی طرح زار قطار رونے لگ گیا ۔ (ڈاکٹر صاحب ساڈا کجھ وی نی رہیا ہے ، سارا کجھ دریا اچ لڑھ گئے ، اساں کتھاں ویسوں) ڈاکٹر صاحب ہمارا کچھ بھی نہیں بچا ہے، سارا کچھ دریا میں چلا گیا ہے، ہم کہاں جائیں گے۔ ہماری عورتوں، بچوں کی روزی اور چھت تک دریا نے نگل لیا ہے۔ پھر خاموشی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کوشش کرکے بزرگ کو تسلی دی لیکن محسوس یوں ہورہا تھا کہ اندر سے ڈاکڑ کنجال بھی دریائے سندھ کے جاری کٹاؤ کے بعد کی صورتحال کو دیکھ کر ٹوٹ چکے تھے۔ دریا کے مارے اس بزرگ جیسے سینکڑوں بزرگ، بچے، عورتیں اور جوان زندگی کی جمع پونجی کو دریا سندھ کے کٹاؤ کے ساتھ گرتا دیکھ کر آنسووں کے سیلاب کے ساتھ ہمیشہ کے لیے بے گھر اور غربت کی چکی میں چلے گئے تھے۔ ان کے پاس اب آنسو بہانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔

\"indus02\"

ڈاکٹرجاوید کنجال نے بتایا کہ دریائے سندھ کا کٹاؤ، تین چار ماہ سے جاری ہے، اور اب اس کا کٹاؤ شمال جنوب سے 70 کلومیٹر دریا کے کنارے کے ساتھ پھیل چکا ہے اور مشرق سے مغرب اس کا پھیلاؤ، تین کلومیٹر سے زائد ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے متعدد بستیاں دریا برد ہوچکی ہیں۔ جن میں وستی ڈلو، وستی سہویہ، وستی چندرڑ ھ اور وستی گشکوری شامل ہیں۔ اس کے ساتھ دریائے سندھ کے جاری کٹاؤ میں موضع وارڑں سہیڑاں، موضع رکھ واں، موضع نورآلے، موضع سمرا نشیب، موضع ڈلو نشیب، موضع لوہانچ، موضع کھوکھر آلہ، موضع شاہ آلہ اور بکھری احمد تک کے علاقے زد پر ہیں۔ اب ان موضع جات میں پانی کا راج ہے۔

ادھر قابل افسوس امر یہ ہے کہ دریائے سندھ کے کٹاؤ کو روکنے کے لئے کوئی کام شروع نہیں ہوا ہے۔ جو بھی آتا ہے، وہ تسلی دیتا اور گلے لگاتا ہے، اور پھر غائب ہوجاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ کوآرڈنیشن آفیسر سے لے کر اراکین اسمبلی تک چکر لگا کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ عملی طورپر کوئی قدم نہیں اٹھا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک دو سے پچیس ہزار ایکڑ تک گنا اور دیگر فصلیں دریا برد ہوچکی ہیں۔ ادھر یہاں کے مکین نفسیاتی مریض یوں ہوچکے، کہ ان کی زندگی کا سارا کچھ دریا لے گیا، اور وہ خالی ہاتھ پاگلو ں کی طر ح کبھی اس جگہ، کبھی اس جگہ بیٹھتے ہیں۔ دریائے سندھ کے جاری کٹاؤ کا یہ سلسلہ نہ رکا، تو پھر بعید نہیں ہے کہ دریائے سندھ لیہ شہر کو بھی نکل جائے گا کیوں کہ حکومت وقت خواب غفلت میں ہے اور ضلعی انتظامیہ کی سب اچھا کی رپورٹ جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کررہی ہے۔ ادھر تخت لہور کے حکمران بے نیاز ہیں، کہ ان کو اس بات غرض ہی نہیں ہے کہ لیہ میں دریائے سندھ کے کٹاؤ کے بعد لوگ کتنی جان لیوا صورتحال کا شکار ہوچکے ہیں۔

\"indus-1\"

جولوگ لیہ کے رہائشی ہیں، یا پھر اس کو قریب سے جانتے ہیں، اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ضلع لیہ کا سب سے بڑا ایشو دریائے سندھ کا سیلاب اور کٹاؤ ہے لیکن اگر نہیں جانتا تو یہاں کے ارکان اسمبلی نہیں جانتے کیوں کہ ان کی طرف سے کبھی اس اہم ترین معاملے کو اسمبلی میں نہیں اٹھایا گیا۔ یوں یہ لوگ خاموشی کے ساتھ پچھلی نشتوں پر وقت گزار کر نکل جاتے ہیں جب کہ دوسری طرف بے چارے غریب لوگ سیلاب، کٹاؤ اور دیگر مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ شہبازشریف کی پنجاب حکومت کی بھی نااہلی کی انتہا ہے کہ لیہ میں اتنے بڑے پیمانے پر دریائے سندھ نے کٹاؤ کے ساتھ تباہی مچائی ہوئی ہے، اورابھی تک ایسے اقدامات شروع نہیں ہوئے ہیں جوکہ اس کے کٹاؤ کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتے۔ رہے نام اﷲ کاـ جن خاندانوں کا سب کچھ دریا میں چلا گیا ہے ،ان کی فوری آباد کاری کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا ہے۔ ہماری رائے میں سرائیکی دھرتی کے پرامن لوگ اس طرح کے سلوک کے حق دار نہیں ہیں، جوکہ تخت لہور کی طرف سے روا رکھا جارہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments