کرتارپور: ایک قدیم مذموم منصوبہ اور شورش کاشمیری کی پیش گوئی


ویسے بھی یہ بات سامنے آ چکی ہے کہ اس وقت قادیانی ربوہ سے براستہ امرتسر قادیان جاتے ہیں اور یہ تمام راستہ بہترین سڑکوں پر مشتمل ہے جبکہ لاہور سے نارووال تک سڑک جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ربوہ سے لاہور 170 کلومیٹر اور لاہور سے قادیان کا فاصلہ براستہ امرتسر تقریباً 102 کلومیٹر ہے جبکہ براستہ نارروال جانے کے لیے پہلے لاہور سے نارووال جانے پڑے گا یعنی 145 کلومیٹر نارووال اور 44 کلومیٹر نارووال سے قادیان یعنی 185 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔

اب بھلا کوئی 102 کلومیٹر کا فاصلہ چھوڑ کر 185 کلومیٹر والا راستہ کیوں اختیار کرے گا؟ ویسے بھی اب تک یہ راہداری پاکستان نے کھولی ہے، بھارت نے نہیں۔ قادیانی اگر ویزا لے کر بھی نارووال پہنچ جاتے ہیں تو بھی انہیں کرتارپور بارڈر سے بھارت میں داخلہ نہیں ملے گا۔ اس وقت صرف واہگہ۔ اٹاری بارڈر کراسنگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کھوکھرا پار۔ مناباؤ بارڈر ٹرین کی گزرگاہ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، پاک بھارت تعلقات چونکہ چہار موسم کشیدہ رہتے ہیں اس لیے راہداریاں یا کراسنگ بارڈر جو بنائے بھی گئے، کچھ عرصہ بعد بند کر دیے گئے۔

اب جبکہ فروری 2019 ء سے پاک بھارت تجارت بھی معطل ہے، کسی نئے کراسنگ پوائنٹ کا تو خیال بھی محال ہے۔ اگر دربار کرتارپور صاحب کی بات کی جائے تو یہاں نارووال کی طرف سے تو کوئی بھی پاکستانی اپنا شناختی کارڈ دکھا کر جا سکتا ہے مگر بھارت سے صرف سکھ داخل ہوں گے اور وہ بھی محض گوردوارے کی حد تک۔ وہ گوردوارے سے نکل کر پاکستانی حدود میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ دونوں جانب بائیو میٹرک ویری فیکیشن کاؤنٹرز ہیں۔

جب آپ گوردوارے کی پارکنگ میں داخل ہوں گے تو وہاں شناختی کارڈ کی تصدیق اور بائیو میٹرک ویری فیکیشن کے بعد آپ کو آر ایف آئی ڈی کارڈ ایشو کیا جائے گا جسے ہمہ وقت پہنے رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر گوردوارے میں داخلہ ممکن نہیں۔ جس طرح بھارتی شہری گوردوارے سے پاکستان میں داخل نہیں ہو سکیں گے، اس طرح پاکستانی بھی بھارت میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے اس راہداری سے قادیانیوں کو قطعاً کوئی فائدہ نہ ہو سکے گا۔ یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ یہاں سے ”بھارتی ایجنٹ“ بنا ویزے پاکستان میں داخل ہو جائیں گے، محض لاعلمی کا شاخسانہ ہے۔

پھر یہ سوال بڑی شدت سے اٹھایا جاتا ہے کہ بھارت کے ساتھ کشیدہ حالات کے باوجود کرتارپور کیوں کھولا گیا تو اس کا درست علم تو حکومت کو ہو گا مگر گمانِ غالب یہی ہے کہ یہ بھارت کے سینے پر مونگ دلنے کی ایک کوشش ہے کیونکہ آئندہ سال سکھوں کا (بھارتی) پنجاب کے حوالے سے ٹونٹی ٹونٹی ریفرنڈم منعقد ہو رہا ہے جس میں سکھ بھارت کے ساتھ اپنے مستقبل پر نظر ثانی کریں گے۔ اس کے لیے اگست 2020 ء میں پوری دنیا میں سکھوں کی ووٹ رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوگا جبکہ نومبر میں ریفرنڈم ہوگا۔

اگرچہ اس ریفرنڈم سے فوری طور پر تو کچھ نہیں ہونے والا مگر بھارت کے لیے سبکی کا ایک نیا میدان ضرور کھلنے والا ہے کیونکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ سکھ آزاد خالصتان کے حق میں ووٹ دیں گے اور 1947 ء میں بھارت (ہندوؤں ) کا ساتھ دینے پر تاسف کا اظہار کریں گے۔ اس موقع پر سکھوں کو کرتارپور کا تحفہ دینا جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کی جانب سے سکھوں کو مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔

پہلے کرتارپور کے افتتاح کے موقع پر بھارت کے پاسپورٹ کے نام پر سکھوں کو تنگ کرنا شروع کیا، جس پر انہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو خط لکھا اور عمران خان نے ایک سال کے لیے پاسپورٹ کی شرط کو موقوف کر دیا۔ مگر سکھوں کی مشکلات اب بھی ختم نہیں ہوئیں اور انہیں بھارت سرکار کی جانب سے تنگ کیا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت سے کرتارپور آنے والے سکھوں کی تعداد چند سو تک محدود ہے۔ تاہم اس بارڈر سے بھارت کی رات کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔

خالصتان موومنٹ کے روح رواں سردار پتونت سنگھ نے کچھ عرصہ قبل کینیڈا میں ایک پریس کانفرنس میں بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کی ایک رپورٹ کا ذکر کیا تھا جس کے مطابق بھارتی آرمی کے تمام اہم مراکز کو خبردار کیا گیا کہ وہ سکھ فوجیوں پر کڑی نظر رکھیں اور اس کا ثبوت اس کے کچھ ہفتوں بعد بھارتی فوج کے اسپیشل سروسز گروپ کے سکھ کمانڈو دھرمندر سنگھ اور ایک سکھ پولیس افسر کی گرفتاری اور ان سے خالصتان تحریک کے پوسٹرز اور اسلحہ ملنے کی خبریں سامنے آنے سے مل گیا۔

علاوہ ازیں سکھ مذہبی رہنماؤں نے بھارتی فوج میں موجود سکھوں کو اکال تخت سے یہ ہدایت بھی جاری کر رکھی ہے کہ اگر وہ پاکستان پہ فائرنگ کریں گے تو ان کے سکھ دھرم سے خارج ہونے کا خطرہ ہے۔ کیونکہ پاکستان کا شہر ان کے پہلے گورو اور سکھ دھرم کے بانی گورو نانک کا جنم اور مرن استھان ہے اور سکھ مذہب اجازت نہیں دیتا کہ کوئی سکھ اپنے مقدس استھان کی طرف گولی چلائے۔ گزشتہ دنوں سامنے آنے والی بھارتی ملٹری انٹیلی جنس کی رپورٹ کہ بھارتی فوج میں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر افسران اور جوان ایک دوسرے کے قریب آنے سے کترانے لگے ہیں جبکہ سپاہیوں کے ساتھ افسران ذاتی غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں جس کے باعث بھارتی سپاہی ذہنی طور پر غلام بن کر رہ گئے ہیں، کو خالصتان تحریک کی تیزی اور کرتارپور راہداری کے افتتاح کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو یہ سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ کرتارپور کے حوالے سے ابہام پھیلانے میں کس کا فائدہ ہے اور یہ کہ اس وقت خطرہ پاکستانی پنجاب کو لاحق ہے یا بھارتی پنجاب کو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2