”I have sinned“”میں نے گناہ کرلیا“


اٹھارویں صدی میں سندھ پر بلوچ حکمرانی کرتے تھے۔ وہ ”سندھ کے امیر“ کہلاتے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے سندھ کی ساحلی اہمیت کو سمجھتے ہوئے 1775 ء میں سندھ کے کلوہارا پرنس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا اور ٹھٹھہ میں تجارتی مرکز بنایا۔ یہ شہر اُن دنوں سندھ کے امیر اور بارونق شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ انگریزوں کے اس تجارتی مرکز کا خسارہ بڑھتا گیا جس کے باعث اسے 1792 ء میں بند کردیا گیا۔ 1799 ء میں لارڈ ویلسلے نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس تجارتی مرکز کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ٹیپو سلطان کے اثرورسوخ، مخالف تاجروں اور پرنس تالپور کے اقتدار میں آجانے کے بعد ایسا نہ ہوسکا۔

سندھ کے مسلمان حکمرانوں کی طرف سے تجارتی مرکز کے سپرنٹنڈنٹ ”مسٹر کرو“ (Mr۔ Crowe) کو 1800 ء میں ملک چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا۔ انگریزوں نے اپنی اس توہین کا بظاہر برا نہیں منایا۔ انہوں نے اسے چالاکی کے ساتھ ہضم کرلیا۔ نپولین کی پالیسیوں کے خوف کی وجہ سے 1809 ء میں برطانوی راج نے کابل، سندھ اور فارس میں اپنے مشن بھیجے۔ اسی دوران سندھ میں تالپور پرنس کی جگہ دوسرے امیر اقتدار میں آچکے تھے۔ وہ شروع شروع میں انگریزوں کے ساتھ بہت مغرور رہے لیکن انگریزوں کی چرب زبانی کی حکمت عملی نے انہیں رام کرلیا جس کے نتیجے میں انگریزوں اور سندھ کے بلوچ امیروں کے درمیان 1809 ء میں باہمی دوستی کا معاہدہ ہوا۔

اس کی شرائط بہت مختصر اور پوری طرح انگریزوں کے حق میں تھیں۔ یہ معاہدہ رائج کاروباری معاہدوں سے مختلف تھا۔ معاہدے کے مطابق انگریز سندھ میں کاروبار کرسکتے تھے لیکن فرانسیسی ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ انگریزوں کے دوست بن جانے کے بعد بلوچ امیروں نے فرانسیسی لوگوں کو سندھ کا ساحل استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔ انگریز 1820 ء میں سندھ کے بلوچ حکمرانوں پر اتنا اثرورسوخ قائم کرچکے تھے کہ انہوں نے اس معاہدے کو دوبارہ ترتیب دیا جس کے تحت امریکیوں کو بھی سندھ سے نکال دیا گیا۔

انگریزوں کے سندھ کو فتح کرنے کی کہانی جنرل چارلس جیمز نیپئر کو سندھ بھیجنے سے شروع ہوتی ہے۔ ”بوڑھا شیر“ کہلانے والے 60 برس کے چارلس جیمز نیپئر کو بمبئی پریزیڈنسی کی فوجی کمان میں میجر جنرل مقرر کیا گیا۔ انگریز سندھ پر مکمل فتح چاہتے تھے لیکن 1809 ء اور 1820 ء کے معاہدے کے تحت ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ انگریز میجر جنرل چارلس جیمز نیپئر نے ایسی منصوبہ بندی کی کہ مسلمان بغاوت پر مجبور ہوگئے۔ اُس کی چال کامیاب رہی اور سندھ کے مسلمانوں کی بغاوت کچلنے کا بہانہ کرکے میجر جنرل چارلس جیمز نیپئر نے 1843 ء میں سندھ پر حملہ کر دیا اور دو مشہور جنگیں ”جنگ میانی“ اور ”جنگ دوبو“ لڑیں جس میں تقریباً 3 ہزار انگریز سپاہیوں نے تقریباً 12 ہزار بلوچ فوجیوں کو شکست فاش دی۔

میجر جنرل چارلس جیمز نیپئر لکھتا ہے کہ ”میں نے جو سازش سندھ کو فتح کرنے کے لئے تیار کی تھی اُس پر مجھے یہ احساس تھا کہ معاہدے ہو جانے کے بعد یہ بے حد غیرمہذب اور ناپسندیدہ امر ہوگا کہ ہم سندھ کے بلوچ امیروں کو جنگ کے لئے اکسائیں لیکن میں نے وعدہ خلافی کے اس احساس کو کچل کر ہرقیمت پر سندھ فتح کرنے کی ٹھانی“۔ انگریزوں کے جنگ جیت جانے کے بعد سندھ کے بلوچ امیروں اور اُن کے رشتے داروں کو قیدی بنالیا گیا۔

پھر انہیں جلاوطن کرکے برما بھیج دیا گیا۔ اس طرح پورا سندھ 1843 ء میں برطانوی راج میں آگیا۔ اتنی تاریخ ساز کامیابی کی اطلاع میجر جنرل چارلس جیمز نیپئر نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے برطانوی حکومت کو بھیجی۔ اس نے اس ٹیلی گرام میں لاطینی زبان کا صرف ایک لفظ پیکاوی (Peccavi) لکھا جس کا انگریزی میں ترجمہ تھا ”I have sinned“ یعنی ”میں نے گناہ کرلیا“۔ میجر جنرل چارلس جیمز نیپئر نے اُس زمانے میں سندھ کے انگریزی ہجے sindh کی بجائے ازراہِ مذاق sinned کیے تھے جس کے معنی گناہ کے ہوتے ہیں۔

اس کی اس ٹیلی گرام کو انگریز حکام نے بہت انجوائے کیا۔ سندھ کے شہری علاقے اور اندرونِ سندھ کی موجودہ حالتِ زار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ سندھ کے موجودہ حکمران سچ مچ سندھ میں Sin یعنی گناہ کررہے ہیں۔ سندھ میں بھوک افلاس ہو، ڈینگی سے اموات ہوں یا آوارہ کتوں کے کاٹنے سے انسانوں کی ہلاکت کا المیہ ہو، تھرپارکر ہویا اندرونِ سندھ کے اکثر دوسرے علاقے، سندھ کے حکمرانوں کے گناہوں کی داستان ہیں۔ میجر جنرل چارلس جیمز نیپئر کی طرح سندھ کے موجودہ حکمرانوں نے بھی سندھ کی عوام کی فلاح و بہبود کی وعدہ خلافی کے احساس کو کچل دیا ہے اور سندھ فتح کرنے کے بعد فخر سے کہتے پھر رہے ہیں کہ ”I have sinned“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).