اویغور باشندے اور دو کشتی کے سوار لوگ


چند دن پہلے نیویارک ٹائمز میں اویغور باشندوں کے حوالے سے لِیک شُدہ دستاویزات کے شائع ہونے سے چینی حکومت کا اُن سے روا رکھّے جانے والا سلوک ایک مرتبہ پھر زیرِ بحث ہے۔ ان دستاویزات سے یہ بات سامنے آئی کہ تقریباً ایک ملین کے قریب اویغور اور دیگر مسلم اقلیتی گروہ نام نہاد تربیتی کیمپس میں مقیّد ہیں۔ ان کیمپس میں چینی حکومت کی طرف سے اویغور مسلمانوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ اِس جبری حراست کا دائرہ کار صرف قیدیوں کے سیاسی اور مذہبی نظریات کو چینی حکومت سے مطابقت پیدا کرنے تک محدود نہیں بلکہ اس کو اویغور باشندوں کی نسل کُشی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

علاوہ ازیں، رواں سال جُون کے ماہ میں چائنا ٹرائیبونل نامی گروپ نے یو۔ این ہیومن رائٹس کاؤنسل کے سامنے اس حوالے سے اپنی حتمی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اِن تربیتی کیمپس میں دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر انسانی اعضاء کی جبری کٹائی (آرگن ہارویسٹنگ) جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کیے جانا بھی اب معمول بن چکا ہے۔

ان تمام انکشافات سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ معاملہ نہایت سنگین نوعیت کا حامل ہے اور اب چینی حکومت کا اس حوالے سے اُٹھنے والے سوالات سے پہلو تہی کرنا بظاہر آسان نظر نہیں آتا۔ تاہم، چین کی موجودہ مضبوط اقتصادی و سیاسی حیثیت اس مسئلہ کو ”اندرونی معاملہ“ کے بیانیہ والی مٹی تلے دبانے میں اہم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا، اس معاملے میں انسانیت اور مذہب کے ساتھ ساتھ، چین سے باہمی تعلقات کا پہلو بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔

قابلِ غور سوال اب یہ ہے کہ دنیا اس معاملے کو کس زاویے سے دیکھ رہی ہے اور خود ہم کہاں کھڑے ہیں؟

حقوقِ انسانی کی پامالی کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں دو رائے نہیں کہ کسی ریاست کو ماورائے قانون اپنے کسی شہری کو جبری حراست میں رکھنے کا اختیار نہیں۔ بالخصوص، شہریوں کی ذہن سازی کے لیے جسمانی و ذہنی تشدّد ہر لحاظ سے قابلِ مذمّت ہے۔ امریکہ اور دیگر بڑے ممالک کا اس معاملے پر واضح موقف سامنے آچکا ہے۔ لیکن یہ بات توجّہ طلب ہے کہ وہ ممالک جو خود کسی نہ کسی سطح پر حقوقِ انسانی کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہوں، اُن کی رائے کی اخلاقی حیثیت کیا ہوگی؟

مشرقِ وسطیٰ میں من پسند نتائج کے حصول کے لیے اپنائی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں لاکھوں انسانی جانوں کے زِیاں سے لے کر حالیہ طور پر میکسیکو سے تعلق رکھنے والے امریکہ میں غیر قانونی رہائش پذیر والدین کے ایک لاکھ سے زائد بچوں کا حراست میں موجود ہونا، حقوقِ انسانی کی خلاف ورزی کی واضح مثالیں ہیں۔ لہٰذا، بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ ان ممالک کی طرف سے اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق کی بات کرنے کا سبب انسانی ہمدردی کے بجائے محض چین سے مخاصمت اور تجارتی چپقلش ہے۔

مذہب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس معاملہ پر آواز اُٹھانے میں اسلامی ممالک کو پیش پیش ہونا چاہیے تھا۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ امّت مسلمہ کے نام نہاد سربراہان اپنے ضمیروں کو اقتصادی افاقے کی گولیاں کِھلا کر سُلائے ہوئے ہیں۔ جن کا معاشی طور پر چین پر انحصار نہیں وہ، اور وہ بھی جو دیگر خطّوں میں مسلمانوں کی زبوں حالی پر آواز اُٹھاتے نہیں تھکتے، اس معاملے میں مہر بہ لب نظر آتے ہیں۔ چاہے وہ سعودی عرب و ایران ہوں یا ترکی اور پاکستان۔

اس خود غرضانہ خاموشی کی مثال کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، دو ماہ پہلے 24 ستمبر کو اقوامِ متحدہ کے سجنے والے ایوان پر نظر ڈالیے۔ موجودہ دورکے سب سے زیادہ فعّال اور منظرِ عام پر رہنے والے مسلم رہنما، طیب اردوگان تقریر کے لئے تشریف لائے۔ رُومی کے محبت کے پیغام سے شروع ہونے والی تقریر میں ساری امّت کے تفصیلی درد کی دل پگھلا دینے والی داستان تھی۔ جمال خشگی کا قتل، مُرسی کی مشکوک موت، فلسطین و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی اور میانمار میں مسلمانوں کی بدحالی۔

ذکر گر نہیں تھا تو ترکی سے مشترکہ نسلی و ثقافتی تاریخ کے حامل اویغور مسلمانوں کا۔ ہوتا بھی کیونکرکہ چین کی جانب سے آنی والی اقتصادی شاہراہوں پر جو بازار سجتے ہیں اُن میں کچھ لو اور کچھ دو والے سودے طے پاتے ہیں۔ وہاں مذہب اور مسلم بھائی چارہ کی دُکانیں مِصر اور پاکستان کی طرح اُونچی نہیں سمجھی جاتیں۔ حرم کی پاسبانی کے خواہاں نِیل کے ساحل سے جوش میں نکل تو پڑتے ہیں لیکن کاشغر تک آتے آتے تن ڈھانپنے کو کپڑا اور پیٹ بھرنے کے لئے روٹی سے آگے کچھ سوچ نہیں پاتے۔

پھر ہم اپنے ایسے حکمرانوں کا کیا ذکر کریں کہ جن کی بصیرت معاشی مسائل کے حل کے لئے مرغیاں پالنے سے شروع ہوکر لنگر کی تقسیم تک محدود ہو۔ وہ اقوامِ متحدہ کی تقریر ہو، ترکی کے دورے کے دوران انٹرویو یا امریکہ کی حالیہ یاتراؤں کے دوارن پریس کانفرنسز، دیکھا یہی گیا ہے کہ خان صاحب اویغور مسلمانوں کے حوالے سے سوالات پر ہر مرتبہ کمالِ معصومیت سے لاعلمی کا اظہار کرتے پائے گئے۔ شاید قراقرم کے راستے ہم تک پہنچنے والی ہوائیں، نوٹوں کی مہک اور خوف زدہ چیخوں کو بیک وقت ساتھ نہیں لاسکتیں۔ یا پھر اویغور باشندے، کشمیر و فلسطین کے مسلمانوں کی طرح سگے نہیں گردانے جاسکتے۔

مان لینا چاہیے کہ سگے اور سوتیلے کا یہ فرق ہم جس کسوٹی پر کرتے ہیں وہ جبر کے خانہ میں ڈالا جائے یا قدر میں شمار کیا جائے، ہم اُسے اپنے لیے جائز قرار دیتے ہیں۔ شاید ٹھیک بھی ہو کہ کمزوروں کے فیصلے اکثر نظریہ ضرورت سے نَتھی ہوتے ہیں۔ جب بغیر سہارے خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونا ممکن نہ ہو تو فیصلوں کا معیار کوئی اور ہونا ممکن نہیں۔ لیکن اس معیار میں دوہرا پن نہیں ہونا چاہیے۔

پھر ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اقتصادی فوائد کی بنیاد پر اپنی رائے سازی کا ہمارا یہ طریقہ آنے والے وقتوں میں ہمیں بیک فائر تو نہیں کرجائے گا؟ ہماری روز بروز کمزور ہوتی معیشیت، خارجہ پالیسی کا تزلزل اور نتیجتاً بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی اور معاشی مسائل کے حل کے لئے چین پر ممکنہ کلّی طور پر انحصار، مستقبل میں وہ وقت لاسکتے ہیں جب ہمارے داخلی معاملات بھی مکمل طور پر چین کی مرضی کے تابع ہوں۔ اُس وقت اگر چین نے ہم پر بھی اویغور مسلمانوں والا فارمولا لاگو کیا اور ایسی صورت اگر ہم اپنی داد رسی کے لیے برادر اسلامی ممالک کی طرف دیکھیں اور وہ اپنی جیبوں اور گھروں کی طرف، تو ہمیں شکوہ کرنے کا حق نہیں ہوگا۔

کوئی مجبور ہے کیوں اور کیوں مختار ہے کوئی

جہاں والوں کو یہ رازِ مشیّت کون سمجھائے

مجبوریاں سب کے ساتھ ہیں، گہرے پانیوں کے سفر میں ہوسکتا ہے کوئی اور بھی ہماری طرح دو کشتی کا سوار ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).