پاکستان کے طلسماتی راہبروں کے کرشمے


محمد علی جناح اور قائد ملت لیاقت علی خان کے بعد سے ہم مسلسل طلسمات رہبری کے دور سے گُزر رہے ہیں۔ اپنے تئیں بنے فلیڈ مارشل ایوب خان سے لے جنرل مشرف، زرداری سے نواز شریف اور پھر عمران خان ہر قائد نے اپنے ماننے والوں کو الگ الگ سمت دکھائی، مسائل کے حل کے لیے علیحدہ علیحدہ طریقے بتا کر قوم کے ذہنوں کو الجھا دیا۔

ایک طرف اسلام نافذ ہونے کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف دف پر طلباء جب لال لال لہرائے گا کے نعرے لگا رہے ہیں، نئے انتخابات کی بات بھی ہو رہی ہے اور کڑے احتساب کے ساتھ ساتھ کسی کو این ار او نہیں دوں گا کا بھی ذکر ہو رہا ہے تو کہیں سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سارے قضیے سے رہبروں نے قوم کو اتنا الجھا دیا ہے کہ وہ جھوٹ اور سچ میں تفریق نہیں کر پا رہی یوں تو اسلام کے نفاذ کا نعرہ ہر حکمران لگاتا رہا مگر اس میں شدت جنرل ضیاءالحق کے اقتدار میں آنے کے بعد دیکھنے کو ملی۔ جنرل نے جب اقتدار سنبھالا تو شروع میں انھوں نے قوم سے نوے دن کے اندر اندر پرامن انتخابات کروا کے واپس بیرکوں میں جانے کا قوم سے وعدہ کیا۔

جیسا کہ الطاف حسن قریشی اپنی کتاب ”ملاقاتیں کیا کیا“ میں لکھتے ہیں کہ میں نے جنرل ضیاءالحق سے پوچھا کہ آپ فوجی طاقت کے ذریعے اسلام نافذ کرنا چاہتے ہیں تو جنرل نے جواب دیا ”نہیں ہر گز نہیں میں تو جمہوریت پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں فوجی حکومت ایک طرح کا انتہائی ناگزیر مرحلہ ہے اسے زندگی کا معمول نہیں بنایا جا سکتا ہم اقتدار پر قابض رہنے کے لیے نہیں بلکہ اقتدار منتقل کرنے کے لیے آئے ہیں عام انتخابات 18 اکتوبر کو ہوں خدا اور پوری قوم سے عہد کیا ہوا ہے اور اسے پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بصیرت اور قوت عطا فرمائے اور ہر قدم میری رہنمائی کرتا رہے“

پھر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی بصیرت و قوت سے وہ گیارہ سال تک اس قوم کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔

ایک اور طلسم رہبر میاں نواز شریف کو جب اقتدار سے نکال باہر کیا گیا تو انھوں نے ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ پوری شدومد سے لگایا نعرے کو پذیرائی ملی میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی کو پس زنداں میں ڈال دیا گیا رہبر نے کہا کہ جان دے دوں گا مگر وطن نہیں چھوڑوں گا اور نہ ووٹ کی عزت پامال کرنے والوں کے ساتھ کوئی معاہدہ کر کے جیل سے باہر آؤں گا۔

واقفان حال یہ کہہ رہے ہیں کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ دینے والا طلسماتی رہبر انقلاب مقتدر قوتوں کے ساتھ معاملات یکسو کر کے بغرض علاج لندن گئے ہیں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل کی دامے درمے سخنے حمایت کرے گی۔

ایک اور نہ صرف طلسماتی بلکہ کرشماتی رہبر عمران خان جب انقلابی تھے تو ببانگ دہل اپنے ہر دوسرے بیان میں کہتے کہ میرٹ کی بالادستی سے معاشرے پھلتے پھولتے ہیں، عین حالت جنگ میں بھی سپہ سالار کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی جا سکتی اس سے دوسروں کی حق تلفی ہوتی ہے کرپٹ لوگوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے چاہیے اقتدار کلی طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں ہونا چاہیے پھر تاریخ عالم نے دیکھا کہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے انھی لوگوں سے ہاتھ ملایا جنھیں وہ اپنی تقریروں میں لتاڑتے تھے، میرٹ کی بالادستی کا جنازہ سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع اور سابق آمر مشرف کی سزا رکوانے کی صورت میں پڑھا گیا۔ طلسماتی رہبر کے مشیر دن رات مشرف کو مسیحا بنانے پر رطب اللسان ہیں۔

ملک ریاض کی صورت میں بھی اس قوم کو طلسماتی رہبر ملا ہے جس نے ریٹائرڈ جرنیلوں، ریٹائرڈ ججوں اور صحافیوں کو زرخرید ملازم رکھا ہوا ہے۔ حکومت نے سرکاری زمین پر بنے جب بحریہ انکلیو کو سیل کیا تو نجی ٹی وی کا رپورٹر ڈی سی اسلام آباد کی گاڑی میں بیٹھ کر جائے وقوعہ پر پہنچتا ہے پندرہ سے بیس منٹ کی ڈاکو منٹری بناتا ہے اس ڈاکو منٹری میں سرکاری افسر ان کا موقف بھی لیتا ہے جب یہ ڈاکو منٹری نجی ٹی وی کے ہیڈ آفس پہنچتی ہے طلسماتی راہزن، معاف کرنا رہبر، کو جب معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہو گیا تو ہوا کے دوش پر نجی ٹی وی کے مالک کو پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ اگلے پانچ سال کا خرچہ ہمارے ذمہ یہ خوش کُن الفاظ سنتے ہی ڈاکو منٹری ریکارڈ سے ہی ڈیلیٹ کر دی جاتی ہے۔

راہبروں کی بہتات مسیحائی کی طرح ایک وبا کی صورت اختیار کر گئی قوم کا پریشان ہونا ایک منطقی نتیجہ ہے بات کہنے کی نہیں لیکن پھر بھی یہ حقائق ہیں کہ سادہ لوح پاکستانیوں کو نبی اکرم صلعم کے علاوہ کسی اور رہبر کا خواہ وہ قائد اعظم ہی کیوں نہ ہوں پیغام سنا دیا جائے وہ بے چارہ سمجھ نہیں سکتا کہ اسے کس کے حکم کی بجاآوری لانی ہے۔
آج قوم کو راہبروں کی بظاہر کثرت کے باوجود کسی مرد حق آگاہ قیادت کا انتظار ہے رہبر وہ جو دیدہ ور بھی ہو راز پنہاں سے باخبر بھی ہو۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui