چھت سے محروم مالکان اور ریاستی روش


پاکستان کے مزدور قوانین مزدوروں کے بے شمارحقوق کا تحفظ کرتے ہیں، صنعتی قوانین میں ورکر زویلفیئر فنڈ (WWF 1971 (ء میں قائم کیا گیا جس کا مقصد صنعتی مزدوروں کی معیار زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر بہترین سہولیات کا فراہم کرنا ہے، یہ فنڈ صنعتی منافع میں مزدوروں کے حصے کی تقسیم کے بعد نافذ کردہ رقم کی وصولی سے کام کرتا ہے جس کے ماتحت صوبائی سطح پر ورکر ویلفیئر بورڈتشکیل دیا جاتا ہے جس میں مزدوروں کے حقیقی نمائندوں کو بھی نمائندگی دی جاتی رہی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ آٹھارویں ترمیم کے بعد سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ میں مزدوروں کے حقیقی نمائندوں کے بجائے حکومتی نمائندوں سے بورڈ کو تشکیل دیا جاتا ہے، اس طرح اسٹیک ہولڈرز کا خاتمہ کرنے اور من مانے طریقوں سے مزدوروں کے فلاح و بہبود کے نام پر صنعت کاروں سے جمع کردہ فنڈکو یک طرفہ طور پہ استعمال کرنے کا واحد مقصد وائٹ کالر کرپشن کی بنیاد رکھنا تھی۔ جبکہ سرکاری طور پہ صرف سرکاری لیبر سیکریٹری منتظم کے طور پہ ذمہ دار ہوتا ہے، سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈکے تحت جو مختلف سہولیات مزدوروں کے فنڈ میں سے قانونی طور پر فراہم کی جاتیں ہیں اُن میں مالکانہ حقوق اور آسان اقساط میں رہائشی منصوبے بھی شامل ہیں۔

سندھ کے نجی و پبلک سیکٹر کے مختلف اداروں میں قلیل تنخواہ پانے والے ملازمین کے لئے ورکرز ویلفیئر بورڈکی جانب سے 2008 ء میں غریب مزدوروں کے خاندانوں کی میعار زندگی کو بہتر بنانے کی خاطرگلشن معمار اور نادرن بائی پاس کراچی میں 4008 فلیٹوں پہ مشتمل سستے گھر کے رہائشی منصوبوں نے بلا توقف تکمیل کے تمام مراحل طے کیے جو کہ قابل ستائش عمل تھے۔ نادرن بائی پاس میں تین ہزار فلیٹس اور ایک ہزار آٹھ خوبصورت فلیٹس گلشن معمار میں تیار ہوئے۔

بورڈ کی جانب سے کمپیوٹرائز قرعہ اندازی کی گئی اُس وقت کے خوش نصیبوں کے نام آنے پر اُن سے مقرر کردہ رقم تیس ہزار روپے فی فلیٹ وصول کیے گئے، جس کی مجموعی مالیت بارہ کروڑ روپے بنتی ہے، قرعہ اندازی میں نام آنے والے خوش نصیبوں کو الاٹمنٹ اور پزیشن بھی دے دی گئی۔ لیکن جناب یہاں سے مزدوروں کے رہائشی منصوبے کے الاٹیز کا دور بدنصیبی شروع ہوا احتسابی ادارہ نیب نے انکشاف کیا کہ سندھ و رکرز ویلفیئر بورڈ کی نا اہلیت نے رشوت کے در کھولے اور الاٹیز سے قبضہ دینے کے بہانے رشوت بھی طلب کی گئی لیکن رونا اس بات کا ہے کہ قبضہ تاحال نہیں دیا گیا۔

الاٹیز کے مقدر کی خرابی دیکھیں 2010 میں اندرونِ سندھ سے آنے والے سیلاب متاثرین نے طبقہ اشرافیہ کی ملی بھگت سے ان فلیٹوں پر قبضہ کیا، قابضین نے متوسط و غریب طبقے کے سستے اورخوبصورت گھروں کو مال مفت سمجھا اور دلِ بے رحم کی مانند تباہ وبرباد کردیا۔ بدنصیب الاٹیز کی شکایات پر کئی دفعہ نمائشی آپریشن بھی کیا گیا لیکن سیلاب زدگان چھ سالوں تک قابض رہے، بلاآخر 2016 میں فلیٹوں کو واگزار کرایا گیا ستم بالائے ستم ملاحظہ فرمائیے کہ سیلاب متاثرین نے الوادعی ہاتھ دیکھاتے ہوئے طبقہ اشرافیہ کے ایما ء پر وہ طوفان بدتمیزی دکھائی کہ فلیٹ میں لگے دروازوں، پائپ فٹنگ اور دیگر سازوسامان پر ہاتھ مارا اور توڑ تاڑ کر ساتھ لے گئے اس طرح متوسط و غریب طبقے کے سستے گھروں کے سپنوں کو خود غریبوں نے چکنا چور کردیا۔

بارہ سال گزر گئے بدنصیب الاٹیز اب بھی اپنے آشیانے سنوارنے کے منتظر ہیں لیکن سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی نا اہلی جوں کی توں برقرار ہے۔ مزدور تنظیموں کی جانب سے ارسال کردہ شکایات پر احتسابی ادارہ نیب نے تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا تو انکشافات کے دریچے کھلتے چلے گئے الاٹیز سے الاٹمنٹ کی مد میں نا صرف بارہ کروڑ روپے کی رقم وصول کی گئی بلکہ قبضہ کے نام پر غریب مزدوروں سے پندرہ کروڑ روپے کی رقم رشوت کے طور پہ ہتھیائی گئی، سیکریٹری لیبر کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ فلیٹوں کے معاملے میں محکمے کے ملازمین اور لیبر یونین کے نمائندوں نے مزدوروں سے رشوت لی ہو، جی ہاں یہ وہی نمائندے ہیں جنھیں حکومت حقیقی نمائندوں کو نظر انداز کرکے بورڈ کوتشکیل دیتی ہے۔

اب تباہ حال فلیٹوں کی بحالی کے لئے حکومت سندھ سے سفارش کی گئی جس میں ازسرنو بحالی کا تخمینہ نو کروڑ روپے لگایا گیاہے۔ غریبوں کے گھر سنوارنے اور دُعاؤں کا رُخ اپنی جانب کرنے کے لئے حکومت سندھ کے لئے نو کروڑ روپے کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ آپ کے اخبار کے توسط سے ہم حکومت سند ہ کے علاوہ کنٹینر پر چڑھ کر مظلوموں، مسکینوں اور کمزور طبقوں کو طاقت بخشنے کا وعدہ کرنے والے وزیر اعظم اور کراچی سے تعلق رکھنے والے صدرو گورنرکی توجہ اپنے گھر ہونے کے باوجود در بدرہنے والے بد قسمت الاٹیز کی جانب مبذول کرانا چاہتے ہیں، خدارا اپنے گھر کی دیرینہ خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ان کے مددگار ثابت ہوں اورمستحکم ریاست ہونے کا ثبوت دیں۔

اے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کردے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).