18 ویں آئینی ترمیم اور چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب


جس طرح امریکہ سے متعلق کہا جاتا ہے کہ 9 / 11 سے قبل اور بعد کا امریکا ایک جیسا نہیں رہا بہت کچھ بدل گیا ہے اسی طرح وطن عزیزپاکستان میں بھی 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد بہت کچھ بدل گیا اگر یہ کہا جائے کہ 18 ویں آئینی ترمیم سے قبل اور بعد کے بعد پاکستان میں طاقت، اختیارات اور فیصلوں کا اختیار تبدیل ہوگیا تو مناسب ہوگا۔ اس وقت بھی پاکستان میں ایک بحران پھر سے جنم لے رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ بحران میں شدت آنا شروع ہوگئی ہے تو زیادہ بہتر ہے اور وہ ہے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا بحران۔

18 ویں آئینی ترمیم سے قبل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا اختیار صد ر مملکت کے پاس ہوتا تھا اور اس میں صدر عدلیہ میں سے کسی بھی جج کو بطور چیف الیکشن کمشنر تعینات سکتے تھے تاہم 18 ویں ترمیم میں اس اختیار کو تبدیل کیا گیا اور طے کیا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کی باہمی مشاورت سے ہوگی۔ اس ترمیم کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ کم سے کم چیف الیکشن کمشنر کو غیر متنازعہ ہونا چاہیے اور ایک ایسا شخص اس اہم عہدے پر تعینات ہو جس کی تعیناتی میں حکومت اور اپوزیشن اتفاق رائے سے ہو اور کوئی انتخابی نتائج کو اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں پر اختلاف نا کر سکے۔

5دسمبر کو چیف الیکشن کمشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوگئے ہیں اور اب 6 دسمبر سے یہ آئینی عہدہ خالی ہوگا یعنی الیکشن کمیشن ہی غیر فعال ہوجائے گا۔ اس ضمن میں کچھ دن قبل قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف نے وزیراعظم کو اس ضمن میں خط لکھا اور اس میں چیف الیکشن کمشنر کے لئے تین نام تجویز کیے ان میں جلیل عباس جیلانی، اخلاق احمد تارڑ اور ناصر محمود کھوسہ شامل ہیں۔

اس کے جواب میں وزیرا عظم نے جو تین نام دیے ہیں اُن میں عارف احمد خان، سابق سیکرٹری فضل عباس میکن اور سیکرٹری الیکشن کمیشن بابر یعقوب شامل ہیں۔ چیف الیکشن کمیشن کی تعیناتی کے حوالے سے ایک آئیڈیل صورتحال تو یہی ہے کہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف کو مل بیٹھ کر کسی ایک نام پر اتفاق کرتے ہوئے ان کو چیف الیکشن کمشنر تعینات کردینا چاہیے تھا مگر موجود سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگ یہی رہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے نام پر شاید اتفاق نا ہوسکے اور یہ معاملہ عدالت کو ہی حل کرنا پڑے۔

اگر اتفاق ہوا بھی تو اس پر کافی وقت لگ جائے گا۔ اتفاق رائے نا ہونے کا خدشہ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر تعیناتی کے لئے حکومتی اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے مابین اتفاق رائے نا ہوسکا تو یہ بڑی بدقسمتی کی بات ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اتفاق رائے کے لئے آئین میں گنجائش موجود ہے کہ 45 روز میں کوئی متفقہ فیصلہ کرلیا جائے۔ تو کیا یہ ممکن ہے موجودہ سیاسی حالات میں کوئی فیصلہ اتفاق رائے سے ہو جائے؟ میرا خیال ہے کہ اس کے لیے شاید 45 روز کم ہوں گے ہاں اگر اس دوران کچھ لے دے کی پالیسی اپنائی گئی تو شاید اس پر اتفاق رائے ہوئے۔

چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان کے اراکین کی تعیناتی کا معاملہ بھی حل طلب ہے۔ ان اراکین کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم اور قائد حزب اختلا ف میں مشاورت نہیں ہوئی تھی اور ناہی پارلیمانی کمیٹی میں ان ناموں پر اتفاق ہوسکا تھا۔ اب یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے اور عدالت نے ان دو صوبوں کے اراکین کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کررکھا ہے۔ اس ضمن میں عدالت کی طرف سے معاملہ کو حل کرنے کے لئے دس روز کی مہلت ملی ہے۔ مطلب یہ کہ الیکشن کمیشن کے اراکین ہی پورے نہیں ہیں اور یہ معاملہ عدالت میں ہے تو پھر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا فیصلہ کیسے ہوگا؟

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 90 کی دہائی میں ہونے والی سیاست میں وہ پختگی نہیں تھی جو مشرف دور کے بعد ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں پیدا ہوئی۔ بہت سے معاملات کو بہتر کرنے کے لئے کھلے دل کے ساتھ ترامیم کی گئیں تاکہ جمہوری عمل ماضی کے مقابلے میں زیادہ صاف شفاف اور پائیدار طریقے سے چل سکے اور اسی خاطر 18 ویں آئینی ترمیم آئی جوکہ بلاشبہ جمہوری طرز فکر کی ایک طرف بڑھتا ہوا قدم تھا ایک مثبت جمہوری سوچ تھی۔ اختیارات کی تقسیم کا یہ فارمولا متوازن تھا اور قابل عمل بھی۔ مگر ان قوانین کا کیا جائے جب ہماری سیاسی جماعتوں کے رویے ہی سیاسی نہیں بلکہ غیر سیاسی ہوں گے۔

مہذب دنیا میں سیاسی مسائل کے حل کے لیے بات چیت کا راستہ اپنایا جاتا ہے اور پھر اتفاق رائے سے مسائل کو حل کیا جاتا ہے مگر یہاں پر کسی قسم کا مکالمہ تو درکنار کوئی مل بیٹھنے کو ہی تیار نہیں ہے۔ تو پھر مسائل کیسے حل ہوں گے؟ یہ اپوزیشن اور حکومت کے اراکین کو سوچنا ہوگا۔ 22 کروڑ عوام خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے کہ ان کے منتخب نمائندے اتنی اہلیت نہیں رکھتے کہ کسی مسئلے کو بات چیت کے ذریعے باہمی اتفاق رائے سے حل کرسکیں۔

ایک اودھم ہے ایک شور اور ایک طوفان بدتمیزی ہے اور کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ اگر 2019 میں بھی کم وبیش 30 سال قبل کے سیاسی رویے اپنائے گئے تو ہم نے بطور قوم کیا حاصل کیا؟ کیا ہم نے آگے کا سفر طے کیا ہے یا پیچھے کی طر ف گئے ہیں؟ موجودہ دستیاب سیاسی قیادت کی حالت زار دیکھتے ہوئے یہی لگ رہا ہے کہ شاید یہ سفر رائیگاں گیا ہے۔ رہی بات چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کی تو شاید یہ معاملہ عدالت کے ذریعہ حل ہو وگرنہ ایک بحران ہے جو فی الحال موجود ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).