حکومت ملک ریاض کی وکالت کرنے پر کیوں مجبور ہے؟


وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کی بات مان لی جائے تو رنگے ہاتھوں پکڑا جانے والا ملک ریاض نیک اور جس شہباز شریف کے خلاف حکومت اور احتساب بیورو ابھی تک کوئی مقدمہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے، انہیں چور ماننا پڑتا ہے۔

اسلام آباد میں وفاقی وزیر مراد سعید کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزاد اکبر کی گفتگو کا فوکس یہ نکتہ رہا کہ اگرچہ برطانوی حکام نے ملک ریاض سے19 کروڑ پاؤنڈ کی وصولی کے عوض ان کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کا مقدمہ قائم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن اہل پاکستان اسے صرف سول معاملہ سمجھیں جس میں کوئی قانون شکنی نہیں ہوئی۔ یعنی ملک ریاض جو کثیر رقم حکومت برطانیہ کو ادا کریں گے، اس پر مجرمانہ سرگرمی کے حوالے سے کوئی سوال نہ اٹھایا جائے۔ ملک ریاض کے ساتھ حکومت کی شفقت کم از کم یہ بات تو واضح کرتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بدعنوانی اور منی لانڈرنگ کے خلاف الزامات کو دراصل سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ اس پارٹی کی حکومت اور قیادت کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ پاکستان میں بدعنوانی کی ثقافت کیسے فروغ پاتی رہی ہے اور سیاسی لیڈروں کے علاوہ سماج کے کون سے دوسرے طبقات اس گھناؤنے کام میں ملوث رہے ہیں۔

ملک ریاض کو اپنی دولت کی طاقت پر اس حد تک گمان رہا ہے کہ وہ ماضی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں فخر سے یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ سرکاری دفاتر میں فائل کو آگے بڑھانے کے لئے اسے ’پہیے‘ لگانا پڑتے ہیں۔ سیاست دانوں، میڈیا مالکان اور بااثر صحافیوں کے ساتھ براہ راست تعلقات کی وجہ سے کبھی ان بے قاعدگیوں اور غیر قانونی سرگرمیوں پر بات نہیں کی گئی جو ملک ریاض کے زیر انتظام چلنے والے متعدد منصوبوں میں سامنے آتی رہی ہیں۔ تین سال قبل انگریزی روزنامہ ڈان نے کراچی بحریہ ٹاؤن کے لئے حاصل کی گئی زمین کے حوالے سے غیر قانونی سرگرمیوں کا پردہ فاش کیا تھا لیکن اس وقت بھی اس رپورٹ پر میڈیا میں چرچا کرنے کی بجائے ملک ریاض کے اس وضاحتی بیان کو زیادہ توجہ کا مستحق سمجھا گیا تھا کہ ڈان گروپ نے ان سے گراں قدر اشتہار مانگے تھے۔ یہ اشتہار نہ ملنے کی صورت میں بحریہ ٹاؤن کے بارے میں منفی رپورٹنگ کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ میں یہی معاملہ پیش ہونے کے بعد ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن نے 460 ارب روپے ادا کرنے کے عوض نیب سے مقدمات خارج کروانے اور کسی قسم کی قانونی سزا سے بچنے کا اہتمام کیا تھا۔ بحریہ ٹاؤن کے ایک منصوبہ کے خلاف شروع ہونے والی کارروائیوں کو رکوانے کے لئے اس قدر خطیر رقم ادا کرنے پر رضا مندی دراصل یہ واضح کرتی ہے کہ اس ’عظیم شخصیت‘ کی زیر نگرانی دیگر منصوبوں میں کیا گل کھلائے گئے ہوں گے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کو عوام نے صرف اس لئے خوش دلی سے قبول کیا تھا کہ انہیں لگا کہ اس طرح قوم کو کثیر وسائل حاصل ہوجائیں گے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کے نزدیک بھی اس معاملہ میں رقم کے عوض قانون شکنی کو نظر انداز کرنے کے فیصلہ کی ایک بنیاد یہ بھی رہی ہوگی کہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں ہزاروں شہریوں کا سرمایہ پھنسا ہؤا تھا۔ اس لئے ملک ریاض یا ان کے ساتھیوں کے خلاف عدالتی کارروائی کے نتیجہ میں ان بے گناہ لوگوں کو ہی اصل نقصان برداشت کرنا پڑتا۔ اس کے علاوہ ملک میں روزگار فراہم کرنے والے سب سے بڑے سرمایہ دار گروپ کے خلاف کارروائی سے طویل المدت معاشی بحران اور بے یقینی پیدا ہوتی۔

اس حد تک تو یہ بات قابل فہم ہے۔ لیکن یہ سوال بدستور اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ کیا کسی شخص اور گروپ کو اس عذر پر چوری کرنے، زمینوں پر ناجائز قبضہ یا رشوت ستانی کے ذریعے اونے پونے خریدنے کا استحقاق دیا جاسکتا ہے کہ بصورت دیگر ملک کو مالی نقصان ہوگا یا کئی ہزار لوگوں کا روزگار متاثر ہوگا۔ اگر یہی رویہ ریاست پاکستان کی پالیسی کی بنیاد رہے گا تو اس ملک سے کرپشن ختم کرنے کی باتوں کی جھوٹے دعوؤں سے زیادہ حیثیت نہیں ہو گی۔ جب تک جرم کرنے والے شخص یا کمپنی کو مالی جرائم میں ملوث ہونے کی باقاعدہ سزا دینے اور قانون شکنی پر جواب دہ کرنے کی روایت کا آغاز نہیں کیا جاتا، اس وقت تک پاکستان سے کرپشن کے خاتمے کا خواب پورا ہونا محال ہے۔

مئی میں بحریہ ٹاؤن کراچی کے معاملہ میں 460 ارب روپے کے عوض مقدمات ختم کرتے ہوئے نہ تو سپریم کورٹ نے معاملہ کے اس پہلو پر روشنی ڈالی اور نہ ہی بعد میں حکومت نے قانون کے اس نقص کو دور کرنے کے لئے کوئی اقدام کرنے کی ضرورت محسوس کی۔ حالانکہ کرپشن فری نیا پاکستان بنانے کے دعوے داروں کو قوم و ملک کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کرنے والے شخص اور گروپ کے خلاف کارروائی کے لئے قانون سازی کرنے میں سرگرمی دکھانے کی ضرورت تھی۔ اسی طرح سپریم کورٹ کو بھی یہ واضح کرنا چاہئے تھا کہ رقم کی ادائیگی کے عوض مقدمات کا خاتمہ عملیت پسندی تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے ملک میں قانون کے احترام کا اصول راسخ نہیں ہوتا۔ بلکہ لوگوں کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ وہ اطمینان سے غیر قانونی دھندے میں مشغول رہ سکتے ہیں، کیوں کہ پکڑے جانے پر، اس لوٹ کا کچھ حصہ ادا کرکے وہ نیب یا عدالت کے توسط سے دوبارہ ملک کے قانون پسند شہری بن سکتے ہیں جن کے دامن پر کسی قسم کی قانون شکنی کا کوئی داغ نہیں ہوگا۔ نیب کا پلی بارگین کا قانون ہو یا ملک ریاض کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ، یہ دونوں عمران خان کی مدینہ ریاست اور نیا پاکستان ’ویژن‘ کے برعکس ہیں۔ تحریک انصاف اس طرز عمل اور طریقہ کار کا نوٹس لئے بغیر اپنے کسی دعوے کو درست ثابت نہیں کرسکتی۔

بدقسمتی سے احتساب کی بیخ کنی کے لئے مقرر کئے گئے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے برطانیہ میں طے پانے والے معاہدہ کے بعد جو رویہ اختیار کیا ہے، وہ نہ صرف حقائق کے برعکس، تحریک انصاف کے منشور کے خلاف اور اصول قانون سے متصادم ہے بلکہ اس سے یہ تاثر بھی قوی ہوتا ہے کہ حکومت دراصل ملک ریاض کو تحفظ فراہم کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے کبھی ایک غیر ملک میں ہونے والی کارروائی کی حساسیت کا حوالہ دیا جاتا ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ اس معاملہ میں کوئی غیر قانونی کام نہیں ہؤا بلکہ یہ ایک سول معاملہ تھا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان کو پہلی بار ایک خطیر رقم منتقل ہورہی ہے۔ اس لئے اہل پاکستان کو اس پر خوش ہونا چاہئے۔ یہی سوال شہزاد اکبر اور تحریک انصاف کی حکومت سے کرنے کی ضرورت ہے کہ اس اہم کامیابی پر حکومت گرمجوشی اور خوشی کا اظہار کرنے میں کیوں ناکام رہی ہے؟

شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یہ افسوسناک اشارہ دیا ہے کہ برطانیہ ملک ریاض سے جو رقم وصول کرکے پاکستان کے حوالے کرے گا، اسے سپریم کورٹ کے حوالے کیا جائے گا۔ بعد میں یہ رقم سپریم کورٹ سے سرکاری خزانہ میں جمع ہوجائے گی۔ یعنی ملک ریاض نے برطانیہ میں جرم کا اعتراف کرکے رقم ادا کرنے کا جو معاہدہ کیا ہے، حکومت اب اس پر ملک ریاض کی وضاحت کو تسلیم کر رہی ہے۔ ملک ریاض کا کہنا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ کو ادا کی جانے والی رقم جمع کرنے کے لئے برطانیہ میں اپنی املاک پیچ کر یہ رقم برطانوی حکومت کے حوالے کی ہے۔ یعنی 19 کروڑ پاؤنڈ یا 38 ارب روپے کے لگ بھگ رقم اب ان 460 ارب روپے میں سے منہا کرلی جائے گی جو ملک ریاض سپریم کورٹ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت ادا کرنے کے پابند ہیں۔

حقیقت مگر یہ ہے کہ یہ دونوں مختلف معاملات ہیں۔ سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لئے ناجائز طور سے حاصل کی گئی زمینوں کو ریگولر کرنے کے لئے 460 ارب روپے کا معاوضہ قبول کیا تھا۔ جبکہ برطانیہ میں 19 کروڑ پاؤنڈ کا معاہدہ، ان وسائل کے ذریعہ آمدنی کو ثابت کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ ملک ریاض کی یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ پاکستان کے معاہدہ کی رقم ادا کرنے کے لئے برطانیہ کی املاک فروخت کی ہیں۔ برطانیہ کی حکومت جو رقم وصول کررہی ہے ان میں سے 12 کروڑ پاؤنڈ تو ان آٹھ اکاؤنٹس میں موجود تھے جنہیں ناجائز دولت کا سراغ لگانے والے قانون کے تحت اگست میں منجمد کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 5 کروڑ مالیت کی ایک جائیداد حکومت برطانیہ کے حوالے کی گئی ہے۔ اب حکومت اسے فروخت کرکے یہ رقم پاکستان منتقل کرے گی۔

ملک ریاض اور شہزاد اکبر کی طرف سے سپریم کورٹ کے ساتھ ہونے والے معاہدے اور برطانیہ میں طے کئے گئے معاملہ کو ملانا دو لحاظ سے غلط اور چونکا دینے والا ہے۔

 1)برطانیہ سے وصول ہونے والی رقم کو اگر سپریم کورٹ کے ساتھ طے پانے والے معاہد ہ کی مد میں ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا اور حکومت نے اسے مان لیا تو یہ دراصل اہل پاکستان کو 38 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کے مترادف ہوگا۔

 2) ملک ریاض پاکستان میں اپنے کاروبار کے ذریعے وسائل برطانیہ لے کر گئے تھے۔ اسی لئے برطانیہ یہ رقم حکومت پاکستان کے حوالے کررہا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ یہ رقم وہاں کیسے پہنچائی گئی۔ کیوں کہ اسی طریقہ کو منی لانڈرنگ کہا جاتا ہے۔ یہ طریقہ کار جدید معیشت میں سنگین جرم سمجھاجاتا ہے۔

حکومت اگر برطانیہ کے ذریعے وصول ہونے والے 19 کروڑ پاؤنڈ (تقریباً 38 ارب روپے) کو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کروانے کا اعلان کررہی ہے تو یہ ایک جرم پر پردہ ڈالنے کی سرکاری کوشش اور قومی خزانے کو براہ راست نقصان پہنچانےکے مترادف ہوگا۔ شہزاد اکبر کو پریس کانفرنس میں شہباز شریف کے مافیا ہتھکنڈے واضح اور ثابت کرنے پر وقت برباد کرنے کی بجائے، یہ بتانا چاہئے کہ حکومت ملک ریاض کے معاملہ میں کیا پالیسی اختیار کر رہی ہے؟ اسی طرح حکومت کا اصل چہرہ دیکھا جا سکے گا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali