شاہین بچوں کی ذہانت پر منافقت کے سائے


\"farrah-ahmad\"ناچیز کو درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوئے لگ بھگ دس برس کا عرصہ بیت گیا اور یہ عرصہ ہمیشہ نوجوانوں سے بات چیت ، ان کی آرا ،ان کی خواہش، ان کی روکاوٹوں ، ان کی تعلیم کیلئے چاہت، نوکریوں کیلئے کوششوں جیسے حالات کو دیکھتے ہوئے گزرا۔ نوجوانوں کیلئے لکھنے کیلئے ہمیشہ سے موضوعات کی کمی نہیں رہی ہے مگر وہ موضوع جس نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا وہ ہے نوجوانوں کی آزادی رائے کی خواہش اور ہماری پابندیاں، ناچیز کو اتفاق سے ایک ایسی جامعہ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا جہاں طالبات کی ایک کثیر تعداد صرف اس لیے پڑھنے آتی ہے کہ یہاں مخلوط تعلیم نہیں ہے۔ ان طالبات سے پوچھا کہ کیوں اسی درسگاہ کا انتخاب کیا تو 80%کا جواب آیا والدین چاہتے تھے کہ ہم ایسی جگہ تعلیم حاصل کریں جہاں لڑکے نہ ہوں اور جہاں ماحول اچھا ہو۔ میں نے پوچھا آپ کیا چاہتے تھے۔ جواب ندارد، بس والدین نے کہا ۔

سوال یہ اٹھتا ہے اگر آپ نے ایسے طالب علم کو جو آپکے معاشرے کی اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے آیا ہے اتنا بھی بااختیار نہیں بنایا کہ وہ فیصلہ کرسکے کہ اس کو کسی طرح کے نظام تعلیم میں پڑھناہے۔ یا آپ نے اس کی کردار سازی ایسی نہیں کی کہ وہ اپنے اردگرد کا ماحول خود بناسکے۔ تو ایسی Youthسے کل آپ ملک کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کیلئے کہ فیصلہ سازی کی کونسی رائے کی امید کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ کے لڑکے کو سکالرشپ مل جائے اور وہ ملک سے باہر تعلیم کرنا چاہے ، ہم فخر سے لوگوں کو بتاتے۔ لڑکی کیلئے ہم ہمیشہ سوچتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے ۔ باہر کا معاشرہ خراب ہے۔ کیا کسی نے سوچا کہ اپنی بیٹی کو کہے کہ بچی جاﺅ جہاں تک دل ہے تعلیم حاصل کرو جہاں سے مرضی حاصل کرو۔ ہم تمہارا Support System ہیں ہم نے تمہاری کردار سازی ایسی کردی ہے کہ دنیا کے جس کونے بھی جاﺅ تم معاشروں سے اپنے حقوق کی جنگ لڑسکتی ہو۔ یہ کیسا نظام ہے کہ آپ کے ملک میں بس سٹاپوں پر ہسپتالوں میں شاپنگ سنٹرز میں پارکوں میں حتیٰ کہ ہر جگہ آپ مخلوط پھرتے ہیں مگر تعلیمی درس گاہ میں نہیں جہاں ان کی تربیت ہوتی تھی کہ کس طرح ایک کمرے میں ایک دوسرے کا احترام سمجھو گے تو معاشرے میں ایک دوسرے کا احترام کروگے ۔

ایسے بچوں سے کبھی پوچھ کر دیکھیں ان کی رائے ہے کیا۔ ایک وہ یک جنسی اداروں میں آکر واقعی جنس مخالف سے دور ہیں ۔ کیا وہ واقعی ان سے راوبط میں نہیں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نہ صرف روابط میں ہیں بلکہ ان روابط کی نوعیت منفی ہے۔ نوجوان آپ کو کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں والدین نہیں مانتے سو ہمیں چھپ کر کرنا پڑتا ہے۔ چھپے ہوئے رویے آپکو تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ میں نے اپنے ایک استاد سے سیکھا کہ اب تو ہمیں نوجوانوں کو سمجھنے کیلئے شاید ان کی زبان بھی سیکھنی پڑے کیونکہ وہ آپ سے کہیں آگے نکل چکے اور آپ اپنے آپ کو بدلنے کو تیار نہیں ۔ خدارا اعتماد دیجئے اپنے نوجوانوں کو، اگر کوئی برا کرتا ہے تو وہ آپ کی تربیت کا فقدان ہے۔

منافق پیدا نہ کریں۔ اپنے نوجوانوں کو سن کر دیکھیں ان کے عزائم آپ کے عزائم سے کہیں اعلیٰ اور ان کا ٹیلنٹ آسمانوں کو چھولینے والا ہے مگر آپ نے اُ سے بند کردیا ان ڈبوں میں کہ ایک دوسرے سے بات نہ کریں تو پھر وہ ٹیلنٹ جس کو آسمانوں کو چھونا تھا وہ ایسے طریقے ڈھونڈتے میں گزرتا ہے کہ جہاں والدین سے چھپ کر اپنی ذات کا اظہار کیا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments