سلطان محمد فاتح


جنگیں، محاصرے، ہزاروں لاکھوں لوگوں کی ہلاکتیں، قتل وغارت، شہروں کونذرآتش کر دینا، قیدوبندکی مشکلات، باندیاں ا ورغلام بنا دینا، تہذیبوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا، بارود کی بو، ڈرٹی (Dirty) بم کے دھماکے کی گونج، بادشاہوں کی اسیری، اوراسیروں کے بادشاہ بننے کے واقعات، مفتوحین کا عبرت ناک انجام، فاتحین کی جلالت وعظمت اور جنگی مہارتوں کی امثال ہماری تاریخ کا سب سے واضح اوراہم باب ہے۔ قدیم اورعظیم شہروں کے درمیان ایک بہت بڑی مماثلت پائی جاتی ہے۔ کہ یہ تمام شہر اپنی تاریخ میں کئی کئی بار فتح ہوئے، جلائے گئے، تباہ ہوئے اورپھردوبارہ تعمیر کئے گئے۔ قسطنطنیہ موجودہ استنبول دنیا کا وہ واحد قدیم عظیم شہرہے جسے خالصتاًجنگی بنیادوں پر 2300 سالوں میں ایک مرتبہ فتح کیا جا سکا۔

مسلمانوں کی خلافتوں اوربادشاہتوں میں قسطنطنیہ کی فتح کاہدف خلافت راشدہ، اموی اورعباسی خلافتیں اورعثمانی خلافت میں بہت اہمیت کاحامل رہا اور بے شمارجنگی مہمات ترتیب دی گئیں مگریہ خواب شرمندہ تعبیرنہ ہوسکا یہاں تک کہ اصحاب ؓ رسول ان مہمات میں شرکت کرتے رہے مگریہ اعزاز ایک 23 سالہ عثمانی بادشاہ کوحاصل ہوا جس نے بازنطینی سلطنت کے تابوت میں آخری کیل گاڑھی اورسلطنت رومہ کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔

نوجوان سلطان اپنے عظیم ترین خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے بے تاب تھا۔ اس سلسلے میں اس نے دنیا کے سب سے ماہر توپ بنانے والے انجینئرکی خدمات حاصل کیں جو سب سے بڑی توپ جواس زمانے کے بھاری، مضبوط اوربڑا گولہ داغنے کی صلاحیت رکھتی تھی، کے علاوہ بحری اوربری افواج جس کی تعداد تقریباً 80 ہزار کے قریب اور بحری بیڑے جس میں شامل چھوٹے بڑے جنگی جہازوں کی تعداد 200 کے قریب تھی قسطنطنیہ کی طرف کوچ کیا دو ماہ جاری رہنے والا محاصرہ اور زبردست گولہ باری کے باوجود قسطنطنیہ کی فتح ہرگزرتے دن کے ساتھ دور سے بہت دور ہوتی چلی جا رہی تھی۔ عثمانی افواج کے حوصلے دن بدن پست ہوتے جارہے تھے یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ قسطنطنیہ کی فتح ناممکنات میں سے ہے اورجوقلعہ 1700 سال میں فتح نہ ہوا اس کی چوڑی اوراونچی دیواروں کو پار کرنا دیوانے کاخواب ہے جو حقیقت نہیں بن سکتا۔

جدوجہدکاجذبہ سردپڑناشروع ہوگیا، تلوارپرگرفت ڈھیلی پڑتی جارہی تھی کوئی تدبیر کارگرنہیں ہورہی تھی، جرنیل اورسپہ سالاروں کی جنگی حکمت عملیاں ناکامیوں کامنہ دیکھتی رہیں، خصوصی طورپرتیارکی گئیں توپیں طویل عرصہ تک اورمسلسل گولہ باری سے ہانپنے لگیں یہ تمام منظرسلطان محمد کے لئے کسی بہت بڑی اذیت سے بھی زیادہ تھا۔ سالوں کی جنگی تیاریاں، ہزاروں کی افواج، عظیم بحری بیڑہ، جدیدترین اسلحہ، اعلیٰ تربیتی فوج، بے دریغ پیسہ اورپھر سب سے بڑھ کر فوج میں مایوسی، بے چینی اورحملے کوغلط قرار دینا سلطان کے لئے اس کے خواب اوراس فیصلے کو بیچ چوراہے میں ذبح کردینے کے مترادف تھا۔

اس کی ذات میں جاری جنگ نے نوجوان بادشاہ کونفسیاتی طورپر ادھیڑ کررکھ دیاوہ تین دن تک اپنے خیمے سے باہرنہ نکلا، وہ کسی سے بات نہ کرتا، اسے کوئی مل نہ سکتادرحقیقت یہی وہ اصل جنگ تھی جوسلطان محمد نے خود اپنے آپ سے اوردل ودماغ میں صورت گر ہوتی ناکامیوں کی تصاویرکی انتہائی طاقتورفوج سے لڑی اورکامیاب ہوا۔

پھردنیاکی تاریخ میں وہ منظردیکھاگیاجونہ اس سے پہلے اورنہ اس کے بعد چشم انسانی مشاہدہ کرسکی قسطنطنیہ کاجغرافیائی محل وقوع جسے تین اطراف سے سمندرنے گھیررکھا تھا مضبوط ترین دیواریں سینہ تان کر کسی بھی فوجی طاقت کو مات دینے کے لئے کافی تھیں لیکن ”گولڈن ہارن“ میں داخل ہوکر دوطرفہ حملہ ہونے کی صورت میں فتح کے امکانات روشن تھے لیکن اس حصے میں داخل ہونا تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس کے داخلے کے مقام پر ایک بہت بڑی اورمضبوط لوہے کی زنجیرسمندرکے اندرلگی ہوئی تھی جہاں سے جہازکاگزرنا ناممکن تھا ایک کہاوت مشہورتھی ”اگر قسطنطنیہ فتح کرناہے تویہ اس وقت ممکن ہے جب بحری جہازاڑ کر شہرمیں داخل ہوں“۔

عثمانی لشکرنے تقریباً ڈیڑھ میل کے پہاڑی راستوں پر لکڑی کے تختوں کی ایک سڑک بنائی اور ہزاروں جانوروں کی چربی اسے چکنا کیا گیا اورپھرایک کے بعدایک جہازجن کو سینکڑوں فوجی کھینچ کر سمندرکے اس حصہ تک لے گئے جہاں سے دوسرا حملہ کیاجاناتھا۔ قسطنطنیہ کے لوگ جب صبح بیدارہوئے تویہ منظردیکھ کر دہل گئے حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ عثمانیوں کی دہشت سے پہلی مرتبہ انہیں اپنالہوجمتاہوا محسوس ہوا۔ عثمانیوں نے بازنطینیوں پر زبردست پے درپے حملے شروع کردیئے اور چند روزمیں ہی دنیا کا ناقابل تسخیر قلعہ سلطان محمد کے قدموں میں تھا۔

قارئین کرام غورفرمائیں خلاف راشدہ، خلافت بنوامیہ، خلافت عباسیہ، خلاف عثمانیہ، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی کوششیں، دوماہ تک جاری رہنے والے عثمانی حملے، اعلیٰ تربیتی بری اوربحری افواج، بے تحاشا اخراجات، جدیدترین اسلحہ، سپہ سالاروں اورجرنیلوں کی تدبیروں کی ناکامیاں، سپاہیوں کے پست ہوتے حوصلے، بے چینی، مایوسی اوریہاں تک کہ حملے کوغلط فیصلہ قراردینے کی رائے کافوج میں پھیلتے چلے جانا۔ یہ تمام واقعات کسی پہاڑکوریزہ ریزہ، دماغ کو تحلیل اورجسم کومٹی کردینے کے لئے کافی ہے۔ لیکن 23 سالہ سلطان محمد کے ارادوں کی مضبوطی دیکھئے کہ ناممکنات کو ممکنات کا نام دیا اور تاریخ کی اہم ترین فتح کاتاج اپنے سر رکھا اور آقاﷺ کی کی گئی تعریف کامستحق ٹھہرا۔ ”عظیم الشان وہ سپہ سالار ہو گا اور کیا عظیم الشان اس کا لشکر ہو گا۔ “۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).