نجی تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے؟


ایک سال قبل مجھے ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانے کا موقع ملا، میرا مضمون انگریزی ادب تھا، ابتدائی دنوں میں مجھے کالج کی ایڈمیشن کی ٹیم کا حصہ بنایا گیا اور مجھے کوئی کلاس پڑھانے کے لئے نہ دی گئی۔ اب میری ذمہ داری یہ تھی کہ نئے آنے والے سٹوڈنٹس کی رہنمائی کرنا، ان کے داخلہ فارم فل کروانا، مختلف سکولوں کا ڈیٹا لے کر ان سکولوں کے دسویں جماعت سے فارغ ہونے والے سٹوڈنٹس کے گھروں میں کال کر کے ان کی کالج میں داخلہ لینے کے لئے رہنمائی کرنا۔

چار ماہ تک یہی سب چلتا رہا کالج پہنچنے کا وقت صبح 8 بجے تھا مگر واپسی کا کوئی وقت مقرر نا تھا۔ اکثر رات 10 کالج میں ہی ہو جایا کرتے تھے۔ اکثر ہمیں ٹارگٹ دیا جاتا روز کے 20 ایڈمیشن کرنے کا، ایڈمیشن ٹیم میں ہم 5 لوگ تھے اور روزانہ 100 ایڈمیشنز کا ٹارگٹ دیا جاتا، جس کے لئے ہم صبح سے رات تک کال کر کر کے لوگوں کو کچھ جھوٹی کچھ سچی کہانیاں سنایا کرتے تھے اور اسی ٹارگٹ کے چکر میں اکثر ہم آپسی سیاست کا بھی شکار ہو جایا کرتے تھے۔

مہینے کے شروع میں جب تنخواہ کا وقت آتا تو کالج والے ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے، کبھی آدھی تنخواہ دی جاتی تو کبھی پوری تتخواہ 20 یا 22 تاریخ کو دی جاتی اور اکثر دو ماہ کی تنخواہ اکٹھی دینے کا بہانا لگایا جاتا۔ کیونکہ مجھے وہاں گئے ہوئے کچھ عرصہ ہوا تھا تو میں سب معملات گہرائی سے سمجھنا چاہتا تھا۔ کالج میں ائی کام، آئی سی ایس، ایف ایس سی پری میڈیکل اور پری انجنیرنگ کے علاوہ شام میں بی۔ ایس انگلش، ایم اے انگلش، بی۔ایس کمپیوٹر سائنس، ایم ایس سی کمپیوٹر سائنس، بی۔ ایس میتھس اور بی۔ کام کی کلاسس ہوا کرتی تھیں۔ چار ماہ کی ایڈمیشن کی جدوجہد کے بعد آخر کار مجھے بی۔ ایس انگلش ٹرم V میں ’ڈسکورس اینالسس‘ پڑھانے کا موقع دیا گیا۔ اس کی بھی وجہ کچھ یہ تھی کہ جس استاد کو پہلے یہ کورس پڑھانے کے لئے کہا گیا تھا اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ اس کو یہ کورس پڑھانا نہیں آتا۔ خیر کلاس میرے حوالے کرنے سے پہلے مجھے پرنسپل اور ڈیپارٹمنٹ کے ایچ۔اؤ۔ ڈی کے ساتھ میٹنگ کرنے کے لئے بلایا گیا۔ اور میٹنگ میں مجھے انتہائی خوشی سے یہ بتایا گیا کہ جن بچوں اور بچیوں کو آپ پڑھانے جا رہے ہیں، یہ وہ بچے ہیں جن کا پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ہوتا اور یہ ڈگری کرنے کے لئے پرائیویٹ کالجز کا رخ کرتے ہیں۔ یہ بات انتہائی عجیب لگی لیکن مجھے خوشی بھی ہوئی کیونکہ میرے مطابق ایک لائق سٹوڈنٹ کو پڑھانے سے زیادہ مہارت کا کام ہے ایک ایسے سٹوڈنٹ کو قابل بنانا جسے لٹریچر کا ”ایل“ بھی نہ پتا ہو۔

خیر میں پہلی کلاس لینے کے لئے گیا اور اپنا نام بتا کے تمام سٹوڈنٹس کا تعارف لیا، نام کیا ہے؟ کہاں سے تعلق ہے؟ انگریزی ادب پڑھنے کی وجہ؟ وغیرہ۔ تعارف کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اس کلاس میں اکثر وہ بچے تھے جو مجبور ہو کے کالج آئے تھے، جن کے گھر والے ان کو کسی بھی یونیورسٹی یا اس شہر سے باہر بھیجنے کے حق میں نہیں تھے۔ کتاب محل سے اردو میں ان کو سمریاں پڑھا کر ان سے پیپر پاس کروائے جاتے تھے۔ پانچ سمیسٹرز میں انہوں نے ایک ناول یا ڈرامہ بھی نہیں پڑھا تھا، کیونکہ ان کے روحانی والدین کو یہ لگتا تھا کہ یہ اس قابل نہیں، کالج کا قانون تھا کہ ہر بچے کو شیشنل نمبر پورے 20 دیے جائیں گے اور باقی نمبر تو یونیورسٹی کے ہاتھ میں تھے، کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح یونیورسٹی سے 30 نمبر حاصل کر کے پاس کروانا ہے۔

مجھے نا انصافی لگی ان سٹوڈنٹس کے ساتھ تو میں نے اپنے انداز میں کالج کے بہت سارے قوانین کو توڑ کر پڑھانا شروع کر دیا۔ میں نے ڈسکورس کی مد میں بہت سی اضافی چیزیں پڑھانا شروع کر دیں۔ نیوز پیپر ڈسکورس میں مختلف انگریزی اخباروں کے ٹکرے اکٹھا کرنا شروع کر دیے، مختلف اصناف کا اینالسس کروانا شروع کر دیا، مختلف تھیوریز پڑھانا شروع کر دیا۔ بچوں کو سمری کی بجائے متن پڑھنے پر مجبور کرنا شروع کر دیا۔ انگریزی ادب کی ساتھ اردو ادب خصوصی طور پر منٹو پڑھنے کی تلقیں کی ظاہر ہے کچھ سٹوڈنٹس نے میرے شکایات کرنا شروع کر دیں، لیکن وقت گزرتا گیا اور خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ وہ سٹوڈنٹس بہت دلچسپی لینے لگے اور سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

اور بچوں نے میرے ساتھ مختلف مضامین کے حوالے سے گفتگو کرنا شروع کر دی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے انٹرمیڈیٹ کی کلاسس بھی مل گئیں اور میرا اچانک لوڈ اس قدر بڑھ گیا کہ روزانہ مجھے چھ کلاسس پڑھانے کو دی گئیں۔ بی۔ ایس انگلش کے امتحانات شروع ہو گئے تو امتحانات کے دنوں میں نے کلاس کے سی۔ آر اور کلاس کی جی۔ آر کو آڈیو رکاڈنگز بھیجنا شروع کر دی۔ امتحانات کے بعد مجھے دوبارہ بی۔ ایس انگلش ٹرم VI کے ساتھ ٹرم IV کی بھی کلاس دے دی گئی اور ساتھ ساتھ بی۔کام اور انٹر کی کلاسس بھی دی گئیں اس کے ساتھ ہی میرا لوڈ 8 کلاسز تک پہنچ گیا۔ تنخواہ کی تو اب فکر کرنا ہی چھوڑ دی کیونکہ میرے لئے اب سب کچھ بچوں کا مستقبل تھا۔ کالج میں میری مخالفت بڑھتی گئی اور مجھ پر ذمہ داریاں زیادہ ہوتی گئیں۔ مجھے آئی۔ کام اور بی۔ ایس انگلش ٹرم IV کا کلاس انچارج بنا دیا گیا اور اب پڑھانے کے ساتھ ساتھ روزانہ بچوں کی رپورٹس بنانا اور غیر حاضر بچوں کے گھروں میں کال کرنا بھی میری ذمہ داری بن چکی تھی۔

انٹرمیڈیٹ کے بچوں کے لئے مجھے ایک کی۔ بک لگوانے کی تلقیں کی گئی مگر اس کی۔ بک کو پڑھنے کے بعد مجھے لگا کہ سٹوڈنٹس کے ساتھ زیادتی ہو گی اگر ان کو یہ کی۔ بک لگوا دی گئی تو، کیونکہ اس کتاب میں کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہ تھا جس میں گرائمر کی غلطیاں نہ ہوں، یہاں بھی مجبور ہو کر مجھے کالج کا قانون توڑ کر ہر سوال کا جواب خود بورڈ پر لکھوانا پڑا۔ ہر ماہ پیپر ہوا کرتے تھے صبح آٹھ سے شام چھ، سات بجے تک کالج میں وقت گزارنے کے بعد اور آٹھ بجے گھر پہنچنے کے بعد اتنی ہمت کہاں ہوتی تھی کہ کچھ اور کام کیا جائے اس کے باوجود بھی کالج کے ہر ماہ کہ دو سو ستر بچوں کے پیپر چیک کرنا، اب کچھ اساتذہ کی طرح صرف ٹک لگا کر یا استاد کا رعب جھاڑ کر بی۔ ایس کی بچیوں سے پیپر چیک کروانے کے تو میں حق میں تھا نہیں، اسی لئے سب کچھ خود ہی کرنا پڑتا تھا۔

کالج کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہر موڑ پر ایک ڈرون کیمرا بیٹھا ہوتا تھا جو پل پل کی خبر مرچ مصالحے لگا کر پرنسپل تک پہنچایا کرتا تھا، اکثر ناسمجھ بچے اور بچیاں بھی کچی محبتوں میں مبتلا ہو کر کلاس کی ہر بات کسی نا کسی استاد یا ایڈمن سٹاف کو بتایا کرتی تھی، میری بھی کلاس میں کی گئی بہت سی باتیں ایڈمن تک پہنچیں جیسا کہ میں کلاس میں فلموں کے ریفرنس دیتا ہوں، میں نواز الدین صدیقی کی فلموں کے ریفرنس دیتا ہوں، میں منٹو کو کوٹ کرتا ہوں اور میں اسلام کے بارے میں من گھڑت روایات پر یقین نہیں کرتا وغیرہ۔

بہت دفعہ مجھے کلاس کے بارے میں جھوٹی داستانیں بنا کر پرنسپل اور وائس پرنسپل آفس میں بلایا گیا۔ انہی دنوں میں ٹرم V کا رزلٹ بھی آ گیا اور میرے سبجکٹ میں سب سے زیادہ نمبر آئے اور ایک بچی کے علاوہ سب نے ’اے‘ اور بی (پلس) گریڈز لئے۔ اب کالج کی جانب سے مجھے بہت مجبور کیا جانے لگا، بچوں کو بس اپنا ٹاپک پڑھایا کریں، اپنا سلیبس کور کر کے بچوں کو کالج سے فری کریں وغیرہ، کالج اپنے سارے کام ٹائم پر کروانے کے حق میں تھا مگر تنخواہ کے معاملے میں ہمیشہ خود جا کر دس دفعہ یاد دلوانی پڑتی تھی کہ ہم آپ کے ہاں ملازمت کرتے ہیں کینٹین والے کو پیسے دینے ہوتے ہیں برائے مہربانی ہمیں تنخواہ دی جائے۔

اور اگر کوئی استاد چھوڑ کر چلا جاتا تو اس کے پیچھے الزامات لگائے جاتے کہ اسے پڑھانا نہیں آتا تھا، یا اس کے بچوں کے تعلقات خراب تھے وغیرہ۔ اب کہ جیسے ٹرم ختم ہوئی تو میں نے بھی چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ چھوڑتے ہوئے دل سے بس یہ دعا نکلی کہ بچوں کہ ساتھ ان کے مستقبل کے ساتھ جو زیادتی کی جا رہی ہے اللہ ان کو ہدایت دے اور اس ملک کے مستقبل کے نوجوان اور ان کے والدین کو بھی اللہ راہ راست پر چلنے کی توفیق دے۔

کتاب محل کو پڑھنے والے ان بچوں کا خدا حافظ اور یہ سب ہمارے تعلیمی نظام پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہی بچے جب مارکیٹ میں آتے ہیں جن کے ساتھ ان کے تعلیمی ادارے اور ان کے والدین نے زیادتی کی ہوتی ہے پھر یہی بچے سسٹم کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں اور بے روزگاری عام ہو جاتی ہے اور کئی نسلوں کا مستقبل سیاہ ہو جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).