محبت کی خاطر


میں نے اس کے سرخ و سفید جاذب نظر چہرے پر چوڑی پیشانی اور دونوں خوبصورت ذہین آنکھوں کے درمیان گولی ماری تھی۔ اس کا خوفزدہ اور پیلا ہوتا ہوا چہرا اب تک میرے سامنے ہے۔ پہلے اس کے چہرے پہ حیرت ہی حیرت نظر آئی اس نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ میں وہاں آؤں گا اور یہ تو اس کے تصور اور خواب و خیال میں بھی نہیں ہوگا کہ میرے پاس پستول ہوگا اور میں اسے نکال کر چلا بھی دوں گا۔ پستول کے دھماکے میں اس کی چیخ دب گئی تھی۔ خون کا فوارہ اس کے ماتھے سے ابلا اور وہ دھڑام سے زمین پر گرگیا تھا۔

یہ میرا پہلا اور آخری قتل تھا۔ میں نے زندگی میں کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میرے پاس اسلحہ ہوگا کوئی پستول، ٹی ٹی، ماؤزر اور میں کسی کو قتل بھی کروں گا مگر اس دن میرے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ میں اسے قتل نہ کرتا۔ اگر میں اسے قتل نہیں کرتا تو شاید سکون کی وہ نیند نہیں سوپاتا جو اب میرا مقدر ہے۔ میں جیل کی ایک کوٹھری میں روزانہ بہت اطمینان سے سوتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جلد ہی مجھے پھانسی مل جائے گی۔ مجھے خطرہ، خدشہ اور خوف صرف یہ ہے کہ بیوقوف جج مجھے سزائے موت کے بجائے عمر قید کی سزا نہ دے دے۔ اگر ایسا ہوا تو زندگی مشکل ہوجائے گی۔ بہت مشکل۔

وہ صرف دو سال کی تھی جب ایک گلاس گرکر ٹوٹ گیا۔ چھوٹا سا گلاس۔ کہتے ہیں ان چھوٹے گلاسوں میں اندر سے ہوا اور گیس بھری ہوتی ہے اول تو یہ ٹوٹتے نہیں اور اگر ٹوٹتے ہیں تو کِرچی کِرچی ہوجاتے ہیں۔ وہ گلاس بھی ٹوٹ کر زمین پر بکھر گیا۔ گلاس ٹوٹنے کی آواز سن کر وہ چونکی اور اپنے ننھے ننھے پیروں پہ دوڑتی ہوئی کمرے میں آگئی تھی۔ کمرے کے دروازے پہ کانچ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس کے سیدھے پیر کی ایڑی میں گھس گیا۔ مجھے لگا جیسے یہ کانچ کا ٹکرا میرے دل میں اندر تک گھستا چلا گیا ہے۔

وہ مسلسل رو رہی تھی۔ بڑی مشکل سے ہم نے اس کے سیدھے پیر کی ایڑی میں گھپا ہوا شیشے کا ٹکرا نکالا۔ وہ سُوسُو کرکے ہر آتے جاتے کو اپنی ایڑیاں دکھاتی رہی۔ شروع میں یقیناً اس کے پیروں میں درد رہا ہوگا اور جتنی تکلیف اسے ہورہی تھی اتنا ہی درد مجھے ہورہا تھا۔ پورے ہفتے ہم پریشان رہے۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں اپنی گڑیا کے تلوے میں پڑے ہوئے زخم کو کس طرح سے جلد از جلد اچھا کردوں تاکہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔

تین بیٹوں کے بعد وہ پیدا ہوئی تھی جس کے بعد ہم دونوں میاں بیوی کی زندگی بدل کر رہ گئی تھی۔ ایسا نہیں کہ ہمیں بیٹوں سے پیار نہیں تھا۔ یا کم تھا۔ وہ بھی ہمیں اتنے ہی عزیز تھے مگر شمع کی بات کچھ اور تھی۔ وہ ہمارے گھر میں روشنی کی طرح پھیل گئی تھی ہماری زندگیوں میں اس نے رنگین رنگ بھر دیے پورے گھر میں جیسے کوئی نور کی بارش شروع ہوگئی تھی، جس نے شمع کے دل میں ہر اچھی بات کے لئے شوق کا جذبہ پیدا کیا اسی لئے ہم نے اس کا نام بھی شمع رکھا تھا۔

شمع کی زندگی کا ایک ایک پل مجھے یاد ہے۔ ہم ماں باپ اور اس کے تین بھائی ہروقت اس کے آگے پیچھے گھومتے رہتے تھے۔ اس کی شرارتیں درگزر کرتے، اس کی بدتمیزی کو بھول جاتے، اس کی ضد کو ٹالتے نہیں اس کی فرمائش ضرور پوری ہوتی، اس کی پسند سب کی پسند بن جاتی، اس کی ناپسندیدگی کا ہر ایک کو خیال ہوتا۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم سب اس کے لئے کام کررہے ہیں۔ ایسی تھی ہماری بیٹی شمع۔

شمع بہت ذہین تھی۔ اسکول میں خوب پڑھتی اور عجیب بات ہوئی کہ ہم سب کے بے جا لاڈ پیار کے باوجود شمع بگڑی نہیں تھی۔ اس بات کے لئے میں اپنی بیوی کا شکر گزار ہوں جس نے شمع کے دل میں اچھی بات کے لئے شوق کا جذبہ پیدا کیا۔ شمع کے اپنی ماں سے بڑے خصوصی تعلقات تھے، دونوں ماں بیٹی گھنٹوں نہ جانے کیا کیا باتیں کرتی رہتی تھیں۔

مجھے یاد ہے جب وہ صرف دو تین سال کی تھی اور ابھی اس نے صحیح طریقے سے بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ مگر اس کی ماں اس سے باتیں کرتی رہتی تھی۔ اکیلے میں اس کا جواب سنے بغیر وہ کچھ نہ کچھ بولتی رہتی تھی۔ مجھے عجیب سا لگتا مگر ان دونوں کے لئے عجیب نہیں تھا۔

ہم دونوں کی محبت مختلف تھی مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں شمع کی کسی بات سے انکار کروں۔ اسے کہیں جانا ہے، لان میں گھاس پہ دوڑنا ہے، باہر سائیکل پہ گھومنا ہے، جنک کھانا ہے، کوک پینا ہے، میں انکار نہیں کرتا مگر میری بیوی کا طریقہ کار مختلف تھا۔ وہ اس پہ پابندیاں لگاتی۔ اچھا و برا کھانا کیا ہے، کیا کھانا ہے کیا نہیں کھانا، کیا پینا ہے کیا نہیں پینا، کہاں جانا ہے کہاں نہیں جانا۔ میرے خیال میں میری بیوی نے شمع کے اندر ایک ایسی شخصیت کو پروان چڑھایا جو اچھے برے میں تمیز کرسکتی تھی۔ یہ صرف مائیں کرسکتی ہیں۔ اچھی ماؤں کے اچھے بچے ہوتے ہیں اور بری ماؤں کے برے بچے۔

شمع ہمارے پورے خاندان میں خوبصورت ترین لڑکی تھی۔ وہ دسویں کلاس میں ہی تھی کہ خاندان اور خاندان کے باہر سے اس کے رشتے آنے شروع ہوگئے۔ ہم نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کی شادی اتنی جلدی کریں گے۔ میرا خیال تھا کہ اسے پڑھائیں گے، لکھائیں گے اور ڈاکٹر بنائیں گے اور درحقیقت شمع خود بھی یہی چاہتی تھی۔ شمع کے تینوں بھائی بھی اچھا پڑھ رہے تھے مگر کسی نے بھی ڈاکٹر بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا ایک الیکٹرونکس پڑھ رہا تھا، ایک کی دلچسپی کمپیوٹر میں تھی اور ایک نے کراچی کے آئی بی اے میں داخلہ لے لیا تھا۔

شمع کو آسانی سے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ شمع کے میڈیکل کالج میں آخری سال کے پہنچنے تک دونوں بڑے بیٹے امریکہ جاچکے تھے اور ہم نے ان کی شادیاں بھی کردی تھیں۔ چھوٹا بیٹا یاسر ایم بی اے کے بعد کراچی میں ہی کام کررہا تھا مگر ساتھ ساتھ وہ بھی امریکہ جانے کی تیاریوں میں لگا ہوا تھا۔

ملک کے حالات ایسے نہیں تھے کہ ہم انہیں منع کرتے۔ نہ چاہنے کے باوجود ہم نے انہیں جانے دیا تھا اور یہ بھی پتہ تھا کہ یاسر بھی چلاجائے گا۔ ہم دونوں میاں بیوی کو ان کا مستقبل عزیز تھا۔ کراچی تو ایک ایسا شہر ہوگیا تھا جہاں کبھی بھی کسی وقت کوئی بھی انہیں مار جاتا۔ اگر انہیں مواقع تھے کہ وہ امریکہ جاکر محفوظ زندگی گزار سکیں ترقی کریں، پھل پھول سکیں، آگے بڑھیں اور دنیا میں نام کمائیں تو ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ آخر اباجان بھی تو دادا، خاندان کے بہت سارے لوگوں اور پشتی جائیداد چھوڑ کر پاکستان آگئے تھے۔ اچھے مستقبل کے لئے تو یہ کرنا ہی پڑتا ہے۔

پاکستان میں نہ تو قابلیت کی قدر تھی نہ علمیت کو کوئی پوچھتا اور نہ ہی پیشہ وارانہ مہارت کی وجہ سے ترقی ہوتی ہے۔ یہاں تو سفارش اور سیاسی تعلقات پر کام ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں اچھا ہی تھا کہ میرے بیٹے ملک چھوڑ گئے تھے۔ ہمارا کیا تھا ہم تو مرجائیں گے۔ ہماری وجہ سے ہمارے بچے کیوں ترقی نہ کریں۔

میڈیکل کالج کے آخری سال میں شمع کے لئے آئے ہوئے کئی رشتوں میں سے ایک رشتہ ہم سب کو پسند آیا تھا۔ پرویز اچھے خاندان کا پڑھا لکھا فرد تھا۔ خاندان کا بڑا کاروبار تھا جس کی وہ دیکھ بھال کررہا تھا۔

رشتہ پکا کرنے سے پہلے میں بھی اس سے ملا، دیر تک اس سے باتیں کی تھیں۔ اسے بتایا تھا کہ میں نے کہ شمع بہت ذہین لڑکی ہے، ڈاکٹر بننے کے بعد وہ آگے بھی پڑھے گی۔ وہ کام بھی کرے گی۔ بیٹی کا باپ ہونا بھی کتنا مشکل کام ہے، ایک ایک لمحے پہ دل دھڑکتا ہے خاص طور پہ شادی کے موقع پہ کہیں کچھ ایسا نہ ہوجائے ویسا نہ ہوجائے۔ کسی ایسے بندے سے شادی نہ ہوجائے جو جگر کے ٹکڑے اور دل میں بسی چھپی بیٹی کے ساتھ کچھ ایسا کربیٹھے کہ باپ زندگی بھر کفِ افسوس ملتا رہے۔

پرویز سے میں متاثر ہوا۔ اس کی شخصیت دلکش تھی۔ وہ پڑھا لکھا تھا اور اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ سمجھدار آدمی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ اس کی ہونے والی بیوی مزید پڑھے، کام بھی کرے اور جو کرنا چاہے کرے۔

”آج کل زمانہ بدل گیا ہے انکل۔ کسی پڑھی لکھی لڑکی کو گھر کیسے بٹھایا جاسکتا ہے کام تو کرنا چاہیے، میری طرف سے تو شمع کی مرضی ہے کام کرے یا نہ کرے جس میں اس کی خوشی اس میں خوش ہوں۔ “

میری خوشی اپنی جگہ بجا تھی ا س سے بڑھ کر کیا بات ہوسکتی ہے کہ ایک پڑھا لکھا خوبصورت جاذب نظر برسر روزگار نوجوان میری بیٹی کا طالب تھا اور میری بیٹی کی خواہشات کا احترام بھی کررہا تھا۔

شمع کو بھی پرویز بہت پسند آیا۔ ویسے اس نے کبھی بھی کسی خاص پسند کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہم لوگ جو بھی فیصلہ کریں گے اس کے لئے اچھا ہی کریں گے وہ اتنا اعتبار اور اس قدر محبت کرتی تھی وہ ہم سے اور کتنی بڑی ذمہ داری تھی ہماری کہ ہم اس کے لئے کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جس کے بعد لوٹنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔

شمع کے ڈاکٹر بننے کے آٹھ ماہ بعد ہم نے اپنی پیاری بیٹی کی شادی پرویز سے کردی تھی۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر اسے جہیز دیا اور پرویز کے خاندان کے فرمائش پر دھوم دھام سے شیرٹن ہوٹل سے بیٹی کو رخصت کیا تھا ہم لوگوں نے۔

شادی کے کچھ ہی دنوں بعد ہمیں پتہ چلا کہ پرویز کی ماں کو شکایت تھی کہ ہم نے اپنی بیٹی کو مناسب جہیز نہیں دیا، میں پریشان سا ہوگیا۔ یہ کیسی بات تھی اپنی بیٹی کو خون جگر سے پالا تھا ہم نے۔ بہترین تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا تھا اسے۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر جہیز دیا تھا اسے پھر یہ شکایت، مجھ پہ بڑا اثر ہوا تھا مگر میری بیوی نے سمجھایا کہ یہ عورتوں کی باتیں ہیں، ساس وغیرہ تو اس طرح کی باتیں کردیتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ پرویز کو شمع سے کوئی شکایت نہیں ہے اور دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ یہ اہم ہے، باقی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔

کاش یہ بات درست ہوتی۔ کاش ہم نے اپنی بیٹی کو یہ بھی سکھایا ہوتا کہ اپنے سسرال اپنے شوہر، اپنی ساس اور سسر کی شکایتیں باتیں ہمیں بتاتی، کاش ہم نے اپنی بیٹی کو تعلیم کے ساتھ لڑنا بھی سکھایا ہوتا۔ ہمارے لاڈ پیار اور بے جا محبت کے باوجود وہ ایک ایسی لڑکی تھی جو اپنے ماں باپ کو دکھ نہیں پہنچانا چاہتی تھی اس نے ہمیں نہیں بتایا کہ سسرال میں اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ ہمارے دیس میں ہماری ثقافت، ہمارے گھروں میں یہی ہوتا ہے۔ لڑکیاں، بچیاں محض اپنے ماں باپ کے بھرم کی خاطر سب کچھ برداشت کرتی ہیں۔ انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ زبانی طعن و تشنع کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مارا پیٹا جاتا ہے۔ ان پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے، انہیں جلادیا جاتا ہے، انہیں مار دیا جاتا ہے۔ اور ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری اقدار ہیں، روایت ہے ثقافت ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے، کیوں ہماری پڑھی لکھی لڑکیاں محض اپنے ماں باپ کو دکھ پہنچانے کے ڈر سے دکھ سہتی رہتی ہیں۔ اندر اندر بار بار مرتی ہیں جیتی ہیں، وہ سب کچھ سہتی ہیں جو ناقابل برداشت ہوتا ہے۔

شمع کے ساتھ یہی کچھ ہورہا تھا جس کی ہمیں خبر نہیں تھی۔ پرویز کی ماں نے جو سلوک اس سے روا رکھا اس کے بعد اس کی نندوں، دیوروں اور یہاں تک کے پرویز کا رویہ بھی خراب ہوگیا تھا۔

پرویز کو اعتراض تھا کہ وہ اسپتال میں غیر مردوں سے بات کرتی ہے۔ شادی کے تھوڑے دنوں بعد ایک بار وہ اسپتال اسے لینے گیا تھا تو اسے یہ بھی پسند نہیں آیا کہ اس کے پروفیسر شمع سے بہت بے تکلفی سے باتیں کررہے تھے۔ اسے شکایت تھی کہ شمع کے ساتھ کام کرنے والے مرد ڈاکٹر اس سے بہت بے تکلف ہیں۔ یہ باتیں تو ہم لوگوں کو بہت بعد میں پتہ چلیں۔ اس عرصے میں شمع کو حمل ٹھہرگیا۔ جس کی ابتدائی خوشی تو دھوم دھام سے منائی گئی مگر حمل کے درمیان ہی پرویز اور اس کی ماں نے کہہ دیا کہ یہ بچہ پرویز کا نہیں ہے۔ ایک دن وہ اسے ہمارے گھر چھوڑ کر چلا گیا۔

ہم لوگوں کو تقریباً دو ماہ کے بعد پتہ لگا جب پرویز اس عرصے میں ایک دن بھی ملنے نہیں آیا۔ نہ جانے کیوں شمع ہم لوگوں سے الٹے سیدھے بہانے بناتی رہی۔ شاید اس امید میں کہ وہ ایک دن اسے لینے آجائے گا۔ ساری باتوں کو بھول جائے گا اور اپنے کیے پر معافی مانگ لے گا۔

ایک دن اپنی ماں کے سامنے نہ جانے کیسے وہ پھوٹ پڑی اور وہ سب کچھ بتادیا جو گزشتہ سترہ ماہ میں اس کے ساتھ ہوچکا تھا۔ وہ جہنم میں رہ رہی تھی، ایک ایسا جہنم جو ہم نے اس کے لئے خریدا تھا، اسے تحفے میں دیا تھا۔ نا جانتے ہوئے اپنے دل کے ٹکڑے کو جس کے حوالے کیا تھا وہی اسے پامال کررہا تھا۔ جس بٹیا کے پیروں میں چبھے ہوئے کانچ کے ٹکڑے نے میری نیند اُڑادی تھی۔ اس بٹیا کے جسم کے ہر حصے کو پامال کردیا تھا ان لوگوں نے۔ ہم سب حیران رہ گئے تھے۔ میں سو نہیں سکا تھا ایک پل بھی۔ کسی سے اتنی نفرت مجھے ہوجائے گی میں نے سوچا تک نہیں تھا۔ تین دن کے اندر اندر میری بیوی ایک ایسی بوڑھی عورت بن گئی جیسے دنیا میں اس کے لئے کچھ نہیں تھا۔

میری نظر کے سامنے دیکھتے دیکھتے میں اپنی بیوی کو ہار گیا مجھے اندازہ نہیں کہ وہ میری بیٹی سے اتنا پیار کرتی ہوگی۔ بچی کی پیدائش ہوئی۔ میں نے خود پرویز کے والد کو ان کے پوتی ہونے کی خوشخبری دی۔ انہوں نے کسی گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا۔ کوئی مٹھائی کھانے کی فرمائش نہیں کی اور نہ ہی کوئی مٹھائی لے کر آیا۔ تین دن کے بعد پرویز کی جانب سے ٹی سی ایس کے ذریعے طلاق نامہ مل گیا۔ میری بیٹی جس کے تلوؤں میں لگے ہوئے شیشے کے ٹکڑے کو نکالنے میں میں خون کے آنسو رویا تھا اس کے دل میں پرویز نے چھرا گھونپ دیا تھا اور میں اس چھرے کو نکال نہیں سکتا تھا۔

تین دن کے بعد میری بیوی کو یکایک دل کا دورہ پڑا اور دیکھتے دیکھتے اسپتال جاتے ہوئے وہ مجھے چھوڑ گئی۔ مجھے پتہ تھا کہ اسے شمع کا غم کھاگیا۔ وہ شمع کے آنسو، اس کا بکھرا ہوا چہرا، ٹوٹا ہوا دل، لٹا ہوا وجود اور ویران آنکھوں کا کرب برداشت نہیں کرسکی۔ مجھے ہی سب برداشت کرنا پڑا، میں ہی سب برداشت کرتا رہا۔ میں نے اپنے ہاتھوں اسے دفن کیا۔ اپنی بیٹی کے آنسو پونچھے۔ اپنی نواسی کا عقیقہ کیا۔ اپنی بیٹی کو دوبارہ اسپتال میں نوکری کے لئے راضی کیا۔ اسے آمادہ کیا کہ وہ زندگی کی جنگ میں شامل ہو۔ جنگ تو لڑنی پڑتی ہے اور یہ جنگ تو لڑنی ہی پڑے گی۔

میری بہادر شمع یہ جنگ لڑنے کو آمادہ ہوگئی، اس نے اسپتال میں کام بھی شروع کردیا، پاکستان اور باہر کے امتحان کی تیاری بھی شروع کردی۔

وقت بڑا مرہم ہوتا ہے، زندگی ایک مسلسل تبدیلی کا نام ہے جو کبھی کبھی حیران کردیتی ہے۔ وہ پرویز کی زندگی سے نکل کر خوش تھی اس کے چہرے کی رونق بحال ہوگئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن جائے گی، اس کی خوشیوں کے باوجود اس کے شیشے جیسے ٹوٹے ہوئے دل کی کرچیاں میرے سینے کے اندر میرے دل کو لہولہان کرتی رہیں۔

ایک دن میرے بچپن کا دوست وسیم اپنے بیٹے کی شادی کا پیغام لے کر آگیا۔ وہ لندن میں ڈاکٹر تھا اور شمع سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

سب کچھ جلدی جلدی ہوگیا، میرے سمجھانے پر وہ راضی ہوگئی اور وسیم کے بیٹے نیاز سے ملاقات کے بعد اس کا نکاح ہوا اور وہ بچی کے ساتھ لندن چلی گئی۔ اب مجھے پتہ تھا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ انتظار، اس وقت کا انتظار جب میری محبت کا حساب ہوگا۔ میرے درد کا شمار ہوگا۔ ان کرب ناک راتوں کا مداوا ہوگا جو میں نے اور میری بیوی نے نہ جانے کیسی گزاریں تھیں۔

شمع کے جانے کے دس دن کے بعد مجھے پتہ لگا کہ پرویز کی دوسری شادی ہورہی ہے۔ وہ ایک اور لڑکی کی زندگی برباد کرنے جارہا ہے۔ میں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میں نے ایک انسان پر گولی چلائی اور اسے ختم کردیا۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ لوگ قتل کیوں کرتے ہیں۔ وہ قتل مقتول سے نفرت کی بنا پر نہیں کرتے، وہ قتل محبت کے لئے کرتے ہیں، ایسی ہی محبت جیسی مجھے اپنی شمع سے تھی۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).