اردو کا جنازہ ہے، ذرا دھوم سے نکلے


 اردو جیسی مہذب زبان کا جب اپنوں کے ہاتھوں ہوا حشر دیکھتا ہوں تو میں 8 جولائی 1972 والے فسادات بھول جاتا ہوں۔ اردو جس نے بڑے بڑے نام پیدا کیے ہیں۔ مرزا غالب لے کر انشاء تک اردو ادباء کی ایک نا ختم ہونے والی تاریخ ہے۔ لکھنوی ادب تو اپنی مثل آپ تھا۔ لکھنوی انداز میں اگر کوئی سر مانگے تو بندہ راء ڈیاچ (بادشاہ راء ڈیاچ، جو فن کا قدردان تھا اور بیجل کے سازوں پر فدا ہوکر اپنا سر دے دیا۔ سورٹھ راء ڈیاچ) کی طرح اپنی گردن بھی حاضر کردے۔ جب فرزندانِ اردو کے ہاتھوں، اردو کو مجروح ہوتے دیکھتا ہوں تو میرا کلیجہ پھٹنے کو آتا ہے۔ اردو کی وہ چاشنی وہ تہذیب وہ شائستگی وہ ادب و احترام اب عنقا ہو چکے ہیں۔ #میرپور۔ خاص ثانوی و اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ میں داخل ہوتے ہوئے مجھے ایسے لگا کہ میں مستقبل کے معماروں کو ڈگریاں دینے والے ادارے میں نہیں لالو کھیت یا لیاری میں داخل ہوا ہوں۔ کلرک سے لے کر کنٹرولر کے آفس تک کا سفر کرتے آپ کے کان درجنوں جدید گالیوں سے پھٹنے لگیں گے، جگہ جگہ پان کی پیک سے زیادہ آپ کو وہاں کام کرنے والوں کی زبان کی غلاظت سے گھن آنے لگے گی۔

اوئے، ابے، بہن۔ یہ تو ان کے سامنے بالکل مہذب الفاظ لگیں گے۔ مجھے یاد آتا ہے ایک میجر صاحب نے اپنے بچوں کو رینجرز کالج جانے سے اس لئے روک لیا تھا کہ ایک استاد نے تُم سے بات کی (استاد سندھی اسپیکنگ تھا تم اور آپ کے فرق سے نا آشنا تھا، لاعلمی میں اس سے یہ عمل ہوا تھا) ۔ اگر وہ میجر صاحب تعلیمی بورڈ کا یہ حال دیکھتے تو شاید اپنے بچوں کو ان احمقوں کے ہاتھوں ڈگری دلانے پر فیل ہونے کو ترجیح دیتے۔ خیر بات چل رہی اردو ادب کے ساتھ اپنوں کی زیادتی کی۔

حضور والا اگر بھٹو کی حکومت کو اردو دشمن قرار دینے احباب والے اپنی اس نئی نسل سے اردو سنیں تو وہ شاید بھٹو کو اردو کا محسن سمجھیں۔ بھٹو مرحوم نے تو صرف سندھی زبان کو سندھ کی قومی زبان قرار دیا تھا ”“ اردو پر کوئی قد غن نہیں لگایا تھا۔ 1972 کے بل پر آسمان سر پر اٹھانے والے اگر آج کی اردو کو سنیں تو اپنے اردو بولنے والے ہونے پر شرم محسوس کریں۔ بھٹو فیملی کی یہ تیسری جنریشن ہے جو سندھی ہو کر اردو بولنے کو ترجیح دیتے رہے اور اپنی قومی زبان کا شان بلند کیے آ رہے ہیں لیکن ایسے نقب زنوں کا کیا کرنا جنہوں نے اردو کی فصیل میں جگہ جگہ شگاف ڈال دیے ہیں۔

آج اردو پر نوحہ لکھنے والا نہ کوئی انیس ہے اور نہ ہی امروہی۔ اس کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے نہ تو میر ہے نہ مصحفی۔ نہ تو ماتم کرنے کو شبلی، شرر، نذیر و حالی ہیں۔ اور نہ قبر میں اتارنے کے لیے انشاء اور آزاد۔ نہ تو قم باذن اللہ کہنے کے لیے کوئی عبد الحق ہے نہ سر سید اور نہ اقبال ہے۔ اس سے پہلے کہ اردو اپنی ہیئت ہی بدل لے آئیں اردو کو بچائیں۔ رئیس امروہی کا اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے کے نام سے لکھا گیا نظم قارئین کی نذر۔

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

کیوں جان حزیں خطرہ موہوم سے نکلے

کیوں نالہ حسرت دل مغموم سے نکلے

آنسو نہ کسی دیدہ مظلوم سے نکلے

کہہ دو کہ نہ شکوہ لب مغموم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اردو کا غم مرگ سبک بھی ہے گراں بھی ہے

شامل ارباب عزا شاہ جہاں بھی

مٹنے کو ہے اسلاف کی عظمت کا نشاں بھی

یہ میت غم دہلی مرحوم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

اے تاج محل نقش بدیوار ہو غم سے اے قلعہ شاہی!

یہ الم پوچھ نہ ہم سے اے خاک اودھ!

فائدہ کیا شرح ستم سے تحریک یہ

مصر و عرب و روم سے نکلے

اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

سایہ ہو اردو کے جنازے پہ ولی کا

ہوں میر تقی ساتھ تو ہمراہ ہوں سودا دفنائیں اسے مصحفی و ناسخ و انشاء یہ فال ہر اک دفتر منظوم سے نکلے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے بدذوق احباب سے گو ذوق ہیں رنجور اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور فریاد دل غالب مرحوم سے نکلے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ہیں مرثیہ خواں قوم ہیں اردو کے بہت کم کہہ دوکہ انیس اس کا لکھیں مرثیہ غم جنت سے دبیر آ کے پڑھیں نوحہ ماتم یہ چیخ اٹھے دل سے نہ حلقوم سے نکلے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے اس لاش کو چپکے سے کوئی دفن نہ کر دے پہلے کوئی سر سیداعظم کو خبر دے وہ مرد خدا ہم میں نئی روح تو بھر دے وہ روح کہ موجود نہ معدوم سے نکلے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے اردو کے جنازے کی یہ سج دھج ہو نرالی صف بستہ ہوں مرحومہ کے سب وارث و والی آزاد و نذیر و شرر و شبلی و حالی فریاد یہ سب کے دل مغموم سے نکلے اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم                               سے نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).