زمانہ قدیم میں لین دین اور کاغذی کرنسی


جب انسان نے تہذیب کی دنیا میں قدم رکھا تو اس کو لین دین کی ضرورت پیش آئی، اس نے لین دین کے لیے پہلے پہل اشیاء کے تبادلے کو استعمال کیا مگر جلد ہی اسے احساس ہوا کہ اس طرح لین دین آسان نہیں ہے۔ مخصوص پتھروں کے ذریعے لین دین کرتے رہے اس سے بہتر اور تبادلے کو آسان بنانے کے لیے سوچنا شروع کردیا، صدیوں کے تجربات کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کے لیے سونا سب سے بہتر ہے۔ سونا چونکہ اپنی چمک دمک کے باوجود دنیا میں محدود مقدار میں ہے اس لیے اسے رفتہ رفتہ زر کی حیثیت حاصل ہو گی جلد ہی اس کے سکے وجود میں آگئے اور یہ ہر طرح کے لین دین میں مستحکم طور پر تسلیم کیا جانے لگا۔

اس سے لین دین بھی آسان ہوا اور کاروبار میں بھی تیزی آگئی۔ سونا دنیا میں محدود مقدار میں تھا اس لیے عام طور پر اس کی قدر مستحکم رہتی تھی اگرچہ کبھی کبھار کسی قوم یا ملک میں فتوحات یا کسی کان کی دریافت کی بدولت اس محدود خطے میں محدود وقت کے لیے سونے کی افراط ہو جاتی تھی۔ لیکن اشیاء کی خریدار ی کی وجہ سے سونے کی کثیر مقدار اس خطے سے نکل کر تجارت پیشہ لوگوں کے پاس چلی جاتی تھی۔ عام لوگوں کے پاس سونے کی محدود مقدار رہ جاتی تھی اس لیے وہ صرف اشیاء ضرورت ہی خریدتے تھے اس کے نتیجے میں تجارت اور دوسرے پیشوں کو زوال آجاتا تھا اس لیے دنیا صدیوں کے سفر میں بنیادی طور پر زر کی کمی کا شکار رہی۔

کاغذ شروع شروع میں مختلف ساہو کاروں نے جاری کیے تھے۔ یہ دراصل سونے کی رسیدیں تھیں جو ان کے پاس بطور امانت رکھا جاتا تھا۔ ان رسیدوں کے مطابق ساہو کار حامل ہذا کو درج شدہ مقدار ادا کرنے کا پابند تھا۔ جلد ہی ان زری رسیدوں نے بڑی مقبولیت حاصل کر لی کیونکہ یہ استعمال میں آسان اور محفوظ تھی۔ اس سے لین دین میں بڑی سہولت ہو گی تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھ گیں۔ اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بینک آف انگلینڈ نے انہیں جاری کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔

یہ کرنسی نوٹ سونے کے بدلے جاری ہوئے تھے اور بینک آف انگلینڈ ان کے بدلے حامل ہذا کو سونے کی درج شدہ مقدار سکوں کی صورت میں ادا کرنے کا پابند تھا۔ یہ نظام اگرچہ مستحکم تھا لیکن غیر لچک دار تھا اس لیے اب کسی ملک میں رائج نہیں ہے۔ 1944 میں برٹن وڈ کانفرنس میں یہ طے پایا کہ کرنسی کے نظام کو سونے سے علیحدہ کر دیا جائے لہذا سونے کو کرنسی سے علیحدہ کرنے کا عمل 1968 ء میں شروع کیا گیا اور 1971 ء تک کرنسی نوٹوں سے مکمل طور پر علیحدہ کر دیا گیا۔

سونے کا سکہ تو ہر ملک میں چل جاتا تھا سونے کے سکے کے بدلے آسانی سے ضرورت کی چیزیں خریدی جا سکتی تھیں۔ سونے کے سکے کی جگہ جب کرنسی نوٹوں نے لی تو کرنسی نوٹ ہر ملک میں نہیں چل سکتا تھا۔ اگر کوئی پاکستانی کسی دوسرے ملک سے چیزیں خریدرہا ہے تو وہ بیوپاری کو پاکستانی کرنسی دینا چاہ رہا ہے تو بیوپاری اس سے اپنی کرنسی میں رقم مانگے گا تاکہ وہ اپنے ملک میں خریداری کر سکے۔ اگر وہ پاکستانی سے کرنسی لے بھی لیتا ہے تو آگے اس نے سعودی عرب سے چیزیں خریدنی ہیں تو وہ وہاں پاکستانی روپیہ تو نہیں دے سکتا۔

اس طرح تو عالمی تجارت کرنا بہت مشکل تھا ہر وقت یہی مسئلہ رہے گا کہ ادائیگی کیسے ہو گی۔ پھر یہ ضرورت محسوس کی گی کہ عالمی تجارت میں کسی ایسی کرنسی میں لین دین کیا جائے جس کی حکومت پر لوگوں کو اعتماد ہو۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی معیشتیں تباہ ہو گئیں تھیں دوسری جانب امریکہ مغرب میں عالمی طاقت بن کر ابھرا۔ کسی پاکستانی کو چین، سعودی عرب، دبئی، انڈیا سے اگر چاول، تیل یا کچھ بھی خریدنا ہو تو عالمی منڈی میں ڈالر کے عوض ہر کوئی بیچنے کو تیار ہوتا ہے۔

اس وجہ سے ڈالر کو مارکیٹ کا بدمعاش کھا جاتا ہے جب چاہے وہ اپنا روپ بدل لیتا ہے۔ لیکن دنیا میں ایسا کوئی قانون بھی نہیں جس کے تحت دو ممالک کے درمیان لین دین میں ڈالر کا ہونا ضروری ہے۔ اگر پاکستان اور چین طے کر لیں کہ وہ تجارت اپنی ملکی کرنسی میں کریں گے تو ان دو خودمختار ریاستوں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ ماضی میں کئی مرتبہ اس طرح کی کوششیں کی گئی ہیں لین دین اور تجارت کرنے کے لیے ڈالر کا استعمال ترک کر دیا جائے۔

2005 میں سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ وہ چین کو اپنا تیل یوآن کے عوض دینے پر غور کر رہا ہے۔ ترکی نے کہا تھا کہ وہ ایران، چین اور یوکرائن کے ساتھ ڈالر کی بجائے مقامی کرنسیوں میں تجارت کرنے کا نظام بنا رہا ہے۔ اگر مقامی کرنسیوں میں تجارت کا نظام بن جاتا ہے تو ڈالر کی اجارا داری ختم ہو جائے گی جس نے آئی ایم ایف کے ذریعے سے مسلم ممالک سمیت سب کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف کا ہمیشہ سے ہدف رہا ہے کہ سرکاری اخراجات میں کمی کے ذریعے ادائیگیوں کا توازن بحال کیا جائے۔

اس چکر میں آئی ایم ایف حکومتوں کو خرچ کرنے میں اتنی زیادہ احتیاط برتنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس کی وجہ سے مالیاتی نظام پر جمود طاری ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا ہمیشہ یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ سبسڈیز کو ختم کیا جائے جب حکومت سبسڈی ختم کرتی ہے تو چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں۔ آئی ایم ایف کو مسئلہ پاکستانی روپے کی قدر کے ساتھ بھی ہے آئی ایم ایف کا ہمیشہ یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستانی کرنسی اپنی فطری سطح سے زیادہ مہنگی ہے لہذا اسے کم کیا جائے۔ حکومت وقت کو چاہیے کسی نا کسی طرح ڈالر اور آئی ایم ایف کے چنگل سے اپنی جان چھڑائے، اپنے دوست ممالک کے ساتھ مقامی کرنسی میں تجارت کریں اور عوام چاہیے کہ اپنی ملکی سطح پر بننے والی اشیاء کی خرید و فروخت کریں نا غیر ملکی پروڈکٹ کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).