بھٹو، مجیب، اور اندرا کی سیاست۔ دوسرا حصہ


اگست 1975 میں اندرا گاندھی نے تیز رفتار آئینی تبدیلیوں کا عمل شروع کیا اور سب سے پہلے 39 ویں آئینی ترمیم منظور کرائی۔ اس ترمیم کے تحت اب صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور لوک سبھا یا قومی اسمبلی کے اسپیکر کے انتخابات کو عدالت میں نہیں پوچھا جاسکتا تھا چاہے اس انتخاب میں بدعنوانیوں کے الزامات ہوں اورپھر اس ترمیم کا اطلاق بھی ماضی سے کیا گیا۔ دراصل بھارتی سپریم کورٹ سابقہ انتخابات میں اندرا گاندھی کی جیت میں بے قاعدگیوں کی سماعت کرنے والا تھا۔ حزب مخالف کے رہ نما راج نرائن نے اندرا گاندھی کے انتخاب کے خلاف مقدمہ کیا ہوا تھا۔ اور الہ آباد ہائی کورٹ نے اندرا گاندھی کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا اور اندرا گاندھی کو مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔

اب معلوم ہوتا تھا کہ اندرا گاندھی اپنی لوک سبھا کی نشست سے محروم ہوجائیں گی اسی لیے انہوں نے ہنگامی حالات کا نفاذ کرتے ہوئے براہ راست احکام کے ذریعے حکومت کرنا شروع کردی۔ جب 39 ویں ترمیم کے ذریعے اندرا گاندھی نے اپنی حیثیت مستحکم کرلی اور خود کو بھارتی سیاست سے الگ ہونے سے بچالیا تو اگلے چند ماہ میں حکومت نے سات بنیادی آزادیوں پر قدغن لگائی جن کی ضمانت بھارتی آئین نے دے رکھی تھی۔

اندرا گاندھی نے لوک سبھا کی مدت میں ایک سال کا اضافہ کردیا تاکہ وہ خود انتخابات کا سامناکیے بغیر مزید ایک سال اقتدار میں رہ سکیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بنگلا دیش میں مجیب الرحمان نے کیا تھا۔ جب انہوں نے جاتیہ سنگھ سد کی مدت بڑھائی تھی۔

اندرا گاندھی نے تین مزید ترامیم بھی منظور کرائیں جس سے بھارتی آئین و قانون کو نقصان پہنچا۔ اکتالیسویں ترمیم کے تحت صدر، نائب صدر، وزیر اعظم اور تمام گورنروں کے خلاف کوئی بھی فوج داری یا دیوانی مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا تھا نہ صرف ان کے عہدے کی مدت کے دوران بلکہ اس کے بعد بھی ہمیشہ کے لیے۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر کوئی ایک دن کے لیے بھی گورنر بن گیا تو پھر ساری عمر کے لیے تمام قانونی مقدمات سے محفوظ ہوگیا تھا۔

مگر غالباً سب سے تباہ کن اور دور رس نتائج کی حامل بیالیسویں ترمیم تھی جس کے تحت ہنگامی حالات کی ابتدائی مدت چھ ماہ سے بڑھا کر ایک سال کردی گئی اور بھارت کو ایک سوشلسٹ سیکولر ریاست قرار دیا گیا۔ اس میں تو کوئی قباحت نہ تھی مگر اس کے ساتھ ہی پارلیمان کے آئینی ترمیمی اختیارات پر سے تمام حدود مٹادی گئیں۔

یعنی اب کسی بھی ترمیم کو بھارت کی کسی بھی عدالت میں للکارا نہیں جاسکتا تھا۔ بہتر میں اس ترمیم پر فیصلہ دیتے ہوئے بھارتی عدالت عظمیٰ نے 1980 کے مشہور منروا کیس فیصلے میں اسے بے دست وپا کردیا۔ عدالت نے 1973 کے کیشوا نندا بھارتی مقدمے کے فیصلے میں استعمال کیے جانے والے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے تصور کو استعمال کیا اور کہا کہ کوئی بھی ترمیم اگر آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہوگی تو اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔

جب اندرا گاندھی ہنگامی حالات کے دوران میں بھارتی آئین کے پرخچے اڑا رہی تھیں اور پچاس ہزار سے زیادہ افراد گرفتار کرلیے گئے تھے تو چیف جسٹس اجیت ناتھ رے اندرا گاندھی کے دست راست بنے رہے۔

بالکل اسی طرح جیسے بنگلا دیش میں چیف جسٹس ابو صائم اور پاکستان میں چیف جسٹس حمود الرحمان اور پھر چیف جسٹس یعقوب علی خاموش رہے تھے۔ بھارت میں جسٹس اجیت ناتھ رے کو 1973 میں مقرر کرتے ہوئے اندرا گاندھی نے تین سینئر ججوں کی حق تلفی کی تھی۔ ان کے اس تقرر کو عدلیہ پر حملہ تصور کیا گیا تھا۔ اس تقرر سے بھارتی عدلیہ میں بھی چاپلوسی کا آغاز ہوا جہاں وزیر اعظم کوخوش رکھنے کی کوششیں کی جانی لگیں اور چیف جسٹس اجیت ناتھ رے نے خود کو وزیر اعظم اندرا گاندھی کے زیر اثر کرلیا۔

اس طرز عمل کو مرار جی ڈیسائی کی حکومت کے دوران بدلا گیا۔ اجیت ناتھ رے کے دور میں جبل پور اور شکلا کا مقدمہ بڑا مشہور ہوا۔ جو اپریل 1976 چلا۔ اس فیصلے میں اجیت نارتھ رے اور چار دیگر ججوں نے بھارتی آئین میں دی گئی شخصی آزادیوں پر کڑی ضرب لگائی اس فیصلے میں کہا گیا کہ کوئی بھی شخص ہائی کورٹ میں شخصی حاضری Habeas Corpus کے لیے درخواست نہیں دے سکتا۔ شخصی حاضری کے قانون کے تحت کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کرنا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن اب بھارتی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ایسا کرنا ضروری نہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے بھارت کے (۔ ) ہائی کورٹ شخصی آزادی کے اس حق کا دفاع کرچکے تھے مگر سپریم کورٹ نے ایسا نہیں کیا۔ کمال یہ ہے کہ جن چار ججوں نے حکومت کی حمایت میں فیصلہ دیا وہ سب یکے بعد دیگرے چیف جسٹس بنے۔ جبکہ اختلاف کرنے والے ایک جج ایچ آر کھنہ کو چیف جسٹس بننے سے روک دیا گیا۔

جسٹس کھنہ اجیت ناتھ رے کے بعد سب سے سینئر تھے اور چیف جسٹس بننا ان کا حق تھا مگر اندرا گاندھی نے انہیں نظر انداز کرتے ہوئے جونیئر ججوں کو چیف جسٹس بنایا۔ جب ان سے جونیئر جسٹس مرزا حمید اللہ بیگ کو بھارتی سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا تو جسٹس کھنہ نے استعفیٰ دے دیا۔ جسٹس مرزا ریٹائرڈ ہونے سے قبل صرف ایک سال چیف جسٹس رہے۔

اجیت ناتھ رے کے اس فیصلے سے بھارتی سپریم کورٹ نے تمام ہائی کورٹس کو حکم دیا کہ وہ شخصی حاضری Habeas corpus پر زیر حراست شخص کے حق میں فیصلے نہ دیں۔

بالآخر جب 1977 ءمیں اگلے انتخابات ہوئے تو ہنگامی حالات اٹھالیے گئے۔ اندرا گاندھی بری طرح ہار گئیں اور انہیں اقتدار اپنے مخالف مرارجی ڈیسائی کو دینا پڑا جن کی جنتا پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ نئی حکومت نے چوالیسویں ترمیم پیش کی جسے 1978 ءمیں متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

دوسری طرف پاکستان میں بھی مارچ 1977 میں انتخابات ہوئے اور پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے جیت گئی مگر حزب مخالف کے پاکستان قومی اتحاد نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کا الزام عائد کیا۔

ایک احتجاجی تحریک کے بعد بھٹو نئے انتخابات پر راضی ہوگئے تھے مگر پانچ جولائی 1977 ءکو فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے مارشل لاءلگاکر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ انہوں نے بھی تین ماہ میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا مگر بنگلا دیش کے جنرل ضیا الرحمان کی طرح ایسا نہیں کیا۔

جس طرح بنگلا دیش میں جنرل ضیا الرحمان نے ایک سویلین جسٹس ابو صائم کوصدر کے طور پر برقرار رکھا اسی طرح پاکستان میں ضیاءالحق نے سویلین صدر فضل الٰہی چوہدری کو صدر کے عہدے پر قائم رکھا۔ بنگلا دیش میں سترہ ماہ صدر رہنے کے بعد ابو صائم کی جگہ جنرل ضیا الرحمان صدر بن گئے تھے اسی طرح جنرل ضیا الحق نے پاکستان میں چودہ ماہ اقتدار پربحیثیت چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر حکومت کرنے کے بعد ستمبر 1978 ءمیں خود کو صدر مقرر کرلیا۔

صدر فضل الٰہی چوہدری اگست 1978 ءمیں اپنی پانچ سالہ مدت صدارت مکمل کرچکے تھے۔ بنگلا دیش میں جنرل ضیاءالرحمان نے ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعے خود کو صدر مقرر کرکے سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی اور مجیب الرحمان کی سوشلسٹ پالیسی ختم کرکے دوبارہ منڈی کی معیشت شروع کردی۔ اس طرح پاکستان، بنگلا دیش اور بھارت تینوں ممالک اپنے چھوٹے موٹے سوشلزم کے راستے سے ہٹ گئے یا ہٹا دیے گئے۔

اس طرح 1970 کے عشرے کے نصف آخر میں تینوں ممالک میں دائیں بازو کے حکم ران اقتدار میں آگئے یعنی دو جنرل ضیا اور ایک ڈیسائی

بنگلا دیش میں فروری 1979 ءمیں انتخابات ہوئے اور جنرل ضیاءالرحمان نے اپنی سیاسی جماعت بنگلا دیش نیشنل پارٹی کو اکثریت سے کامیاب کرالیا۔ جبکہ پاکستان میں اپریل 1979 ءمیں بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2