کابینہ کا درد سر: مریم کا سفر اور میڈیا کی خبر


ملک کو بحران کا سامنا ہوگا لیکن حکومتی کابینہ کے ایجنڈے پر موجود نکات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں کا سب سے بڑا مسئلہ شریف خاندان کو کسی بھی قیمت پر ملک میں لاکر جیل بھجوانا ہے۔ وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات کی گفتگو سنی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ حساب بے باق کرنے کے علاوہ میڈیا کو لگام دینا، اس وقت وزیر اعظم کے نزدیک اہم ترین معاملہ ہے۔ اب یہ مقدس کام وزیر قانون کو سونپا گیا ہے۔

ملک میں شاید ہی کوئی باشعور شخص ہوگا جو ایک جمہوری دور میں میڈیا پر عائد پابندیوں اور صحافیوں کے لئے مشکل حالات کار پر پریشانی اور تشویش میں مبتلا نہ ہو۔ کراچی میں ہونے والی بارھویں ادبی کانفرنس میں بھی میڈیا پر عائد پابندیوں اور ملک میں پائی جانے والی گھٹن کے بارے میں گفتگو ہوئی اور ملک کے نمایاں صحافیوں نے اس صورت حال کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے باوجود اس بات کا امکان نہیں کہ حکومت ملک کے ایسے مٹھی بھر صحافیوں کی بات سنے گی جو آزادی اور خود مختاری سے خبر کی ترسیل اور رائے کے اظہار کی خواہش رکھتے ہیں۔

ان صحافتی حلقوں اور پارٹی سیاست سے بالا دانشوروں کا متفقہ طور سے مشورہ ہے کہ حکومت میڈیا پر کنٹرول کے ذریعے نہ تو اپنی خامیوں پر قابو پاسکتی ہے اور نہ ہی معلومات کی فراہمی کے جدید اور غیر روایتی آلات میسر ہونے کی وجہ سے ، معلومات کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپانے کا اہتمام کرسکتی ہے۔ البتہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے نت نئے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے حکومت اپنی رہی سہی ساکھ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ اب صرف سیاسی مخالفین یا حقوق کے لئے کام کرنے والے لوگ ہی حکومت کی جابرانہ میڈیا پالیسی پر حرف زنی نہیں کرتے بلکہ خود تحریک انصاف کی صفوں سے اس طریقہ کار کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار ہونے لگا ہے۔ عمران خان اپنی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں اور مفاد پرست ساتھیوں کی وجہ سے ہر آنے والے دن کے ساتھ نئی مشکلات میں گھرتے چلے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں رونما ہونے والے دو واقعات نے معلومات کی ترسیل اور میڈیا کی خود مختاری کی صورت حال کے حوالے سے صورت حال کو مزید واضح کیا ہے۔ تاہم اطلاعات کی مشیر نے آج کابینہ کے اجلاس کے بعد جو پریس بریفنگ دی ہے اس سے یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ حکومت نے ان دونوں واقعات سے کوئی سبق سیکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے پہلا واقعہ روزنامہ ڈان کے اسلام آباد دفتر پر یکے بعد دیگرے ہونے والے دو حملے ہیں۔ دونوں واقعات میں چند درجن لوگوں کا ایک گروہ ڈان کے دفتر پر حملہ آور ہؤا۔ پہلی بار تو سیکورٹی والے ان لوگوں کو دفتر کے اندر جانے سے روکنے میں کامیاب ہوگئے لیکن ہجوم نے تین گھنٹے تک اخبار کے دفتر کا محاصرہ کئے رکھا اور ملازمین کو یرغمال بنائے رکھا۔ چند روز بعد اس سے بڑے ہجوم نے اخبار کے دفتر پر حملہ کیا اور عمارت میں داخل ہوکر اخبار کو نذر آتش کیا گیا اور صحافیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔

روزنامہ ڈان پر ہونے والے یہ دونوں حملے مبینہ طور پر گزشتہ ماہ کے آخر میں لندن برج حملہ میں دو شہریوں کو ہلاک کرنے والے ایک شخص عثمان خان کو ’پاکستانی نژاد‘ لکھنے کی پاداش میں کئے گئے تھے۔ مظاہرین سمجھتے تھے کہ اخبار نے عثمان خان کا تعلق پاکستان کے ساتھ تعلق جوڑ کر ملک کی شہرت کو نقصان پہنچایا تھا۔ حالانکہ حقیقت حال یہی ہے کہ یہ شخص نہ صرف برطانیہ میں پیدا ہونے کے باوجود کئی برس تک آزاد کشمیر کے علاقے میں مقیم رہا تھا بلکہ اس کے اہل خاندان کا پاکستان کے ساتھ اس قدر گہرا رابطہ ہے کہ اس دہشت گرد کی میت کو پاکستان لاکر اس کے آبائی گاؤں میں دفن کیا گیا۔ دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ انفرادی فعل ہوتا ہے ۔ اس سے عقیدہ یا اس کے پس منظر کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ بات مغرب کو سمجھانے کی کوشش تو کی جاتی ہے لیکن پاکستان کے بعض حلقے خود اس بات کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں۔ ڈان پر حملہ کرنے والوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔

روزنامہ ڈان پرہونے والے حملے میڈیا کی آزادی کے حوالے سے ایک سنگین تصویر سامنے لاتے ہیں کہ حکومت نے ان حملوں پر کوئی ردعمل ظاہر کرنا یا عملی اقدام کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ عمران خان جو متعدد دیگر عالمی لیڈروں کی طرح اکثر ٹوئٹ پیغامات کے ذریعے مختلف امور اپنی رائے ظاہر کرتے رہتے ہیں، اس معاملہ پر بالکل خاموش رہے۔ حالانکہ ڈان نے ایک اداریہ میں وزیر اعظم کو باور کروایا تھا کہ ملک میں میڈیا کی آزادی اور صحافت کی خودمختاری پر مکمل بھروسہ ظاہر کرنے کے لئے عمران خان کو بھرپور انداز میں ڈان پر ہونے والے حملوں کی مذمت کرنی چاہئے۔ اس اداریے میں یہ تسلیم کیا گیا کہ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کے علاوہ مشیر برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اس حملہ کی مذمت کی ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے اخبار کے ساتھ کسی باقاعدہ اظہار یک جہتی کا کوئی مظاہرہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی وزیر اعظم نے اس افسوسناک واقعہ پر رائے دینا ضروری سمجھا۔

عمران خان اور حکومت کے اس رویہ سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت مخالفانہ رائے کا اظہار کرنے والے میڈیا کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ روزنامہ ڈان گزشتہ چند برسوں سے طاقت ور حلقوں کے عتاب کا شکار رہا ہے۔ متعدد علاقوں میں اخبار کی ترسیل یا ڈان ٹیلی ویژن کی نشریات کو روکا جاتا ہے لیکن حکومت یا میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے والے ادارے اور عدالتیں اس صورت حال کو تبدیل کروانے میں کردار ادا نہیں کرسکیں۔ یہ امید کی جارہی تھی کہ تحریک انصاف اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا کی مشکلات میں کمی کے لئے کام کرے گی لیکن اس حکومت نے پہلے اشتہارات کے وسائل کے ذریعے اور بعد میں میڈیا مالکان کو دباؤ میں لاکر میڈیا اور صحافیوں کے لئے حالات کار دشوار بنائے ہیں۔ ملک میں متعدد نشریات و مطبوعات بند ہورہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں صحافی بے روزگار ہوئے ہیں لیکن حکومت یوں لاتعلق بنی ہوئی ہے جیسے اس کا ان معاملات سے کوئی لینا دینا نہ ہو۔

پاکستانی میڈیا نے عمران خان کی مقبولیت اور تحریک انصاف کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 2014 کے دھرنے کے دوران جب مظاہرہ کرنے والوں کی تعداد چند سو سے زائد نہیں رہی تھی، پھر بھی میڈیا روزانہ کی بنیاد پر اس دھرنے کی خبر اور تقریروں کو براہ راست نشر کرتا رہا تھا۔ اب عمران خان سیاسی مخالفین کے پیغام کو سامنے لانے والے میڈیا کے پر نوچنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں کہ یہ اسی شاخ پر آری چلانے کے مترادف ہے جس پر کسی کا آشیانہ ہو۔ عمران خان بطور وزیر اعظم آج ضرور سرکاری میڈیا اور نجی مالکان کے ذریعے خبروں میں نمایاں رہنے کے قابل ہیں لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد وہی صحافی اور میڈیا ان کا پیغام سامنے لائے گا، جسے اس وقت حکومت اقتدار کے نشے میں دھتکار رہی ہے۔

معلومات کی ترسیل کے حوالے سامنے آنے والا دوسرا واقعہ ملک ریاض پر برطانیہ میں ہونے والا جرمانہ اور اس کی پاکستان واپسی کا معاملہ تھا۔ حکومت نے اس اہم ترین خبر کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ وزیر اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں وزیروں کو اس معاملہ پر رائے زنی کرنے یا کوئی معلومات عام کرنے سے منع کیا۔ اس کے باوجود سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ مطبوعات کے ذریعے یہ خبر پوری تفصیل کے ساتھ زبان زد عام ہوئی بلکہ اس پر حکومتی کارکردگی اور درپردہ طے کئے جانے والے معاملات پر بھی ہر پہلو سے روشنی ڈالی گئی۔ حکومت پاکستان نے جب نہایت ڈھٹائی سے ملک ریاض سے وصول ہونے والا جرمانہ انہی کو واپس کرنے کا فیصلہ کیا تو اس کے خلاف عوامی سطح پر شدید احتجاج ریکارڈ پر لایا گیا۔ عمران خان شاید اقتدار کے نشہ میں اس احتجاج کی شدت اور مضمرات کو سمجھنے سے قاصر رہیں لیکن یہ معاملہ اقتدار کے دوران اور اس کے بعد کسی خوفناک بھوت کی طرح ان کا پیچھا کرتا رہے گا۔

فردوس عاشق اعوان نے کابینہ اجلاس کی خبر دیتے ہوئے بتایا ہے کہ حکومت بیرون ملک مقیم اپوزیشن لیڈروں کی میڈیا پر کوریج کو روکنے کے لئے اقدامات کرے گی، یہ براہ راست سنسر شپ عائد کرنے کا اعلان ہے۔ اسی اجلاس میں مریم نواز کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی مخالفت کی گئی اور نواز شریف کو ملک واپس لانے کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مخالفین کی آواز دبا کر اور ان کے سفر پر پابندیاں لگا کر کوئی حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوئی، تحریک انصاف بھی اس طرح کی کوششوں سے شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں کرپائے گی۔ وزیر اعظم اگر مریم نواز کے سفر اور نواز شریف کی علالت کے باوجود ان کے بارے میں خبر بنوانے کے شوق میں مبتلا ہیں تو جان لینا چاہئے کہ انہیں اپنے پاؤں کے نیچے زمین ہلتی محسوس ہورہی ہے۔

بحران اور مشکل میں آزاد میڈیا ہی حکومت کی طاقت بن سکتا ہے لیکن حکومت بہر حال اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر خود کو بااختیار ثابت کرنے کا ڈھونگ کرنا چاہتی ہے۔ عمران خان سوچیں کہ اگر نواز شریف کی طرح مریم بھی ان کی مرضی کے بغیر بیرون ملک روانہ ہونے میں کامیاب ہوگئیں تو وہ کیا کہیں گے اور کیا کریں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali