دسمبر، لالٹین، نوسٹیلجیا


یادش بخیر: میرے گاؤں کے گھر کی کہنہ سال لالٹین کی حیثیت دراصل میرے لئے روشنی کے نروان کی سی ہے، یہ جب جلتی ہے تو دراصل اس کی زرد ملگجی روشنی میں میرے بچپن، جوانی اور اب کہولت کی گھڑیاں مجھ سے ہمکلام ہوتی ہیں۔ دسمبر کی یخ بستہ راتوں میں کچے کمرے میں دہکتے انگاروں سے بھرے چولہے کے ساتھ بچھی چٹائی پر بیٹھ کر اس لالٹین کی پوتر اور الوہی روشنی میں استاد کا آموختہ دہراتے ہوئے اچھے دنوں کے خواب دیکھے۔

رات کا کھانا تیار کرنے اور صحن کو منور کرنے کے لئے بڑی اماں سر شام ہی اس لالٹین کو کمرے سے اٹھا کر باہر اس میں مٹی کے تیل کا جائزہ لے کر طاق میں رکھ دیتیں۔ پھر عشا کی نماز کے بعد اس کا ٹھکانہ کمرے میں ہوتا۔ جب اس میں مٹی کا تیل ختم ہونے لگتا تو ایک دن پہلے ہی اماں 20 روپے کے ساتھ خالی کنستر ہمیں پکڑا دیتیں۔ سکول سے واپسی پر سرکی کے بازار میں واقع چاچے عزیزن کی دکان سے خالی کنستر میں مٹی کا تیل لینا نہ بھولتے۔

آج ”سوشل میڈیا“ کے چوپال میں کھوکھلے وجود کے روگ اور بانجھ بنجر روح کے بھوگ کے ساتھ سمارٹ موبائل فون کی ٹچ سکرین پر مشت زنی کرتے ہوئے ماضی کی باس دل و دماغ پر ایک عجب سحر طاری کر رہی ہے جو الفاظ میں بیان کرنا محال ہے۔ زیست کے 27، 28 سال پلک جھپکتے ہی اڑن چھو ہو گئے۔

چاچے عزیزن کی دکان قصہ پارینہ بن گئی۔

ہندو مہاجنوں کے زمانے کا سرکی بازار شیر دریا نگل گیا۔

گاؤں کا کچا گھر بہت دور رہ گیا۔

اماں کو کہولت نے آ لیا۔

موسمیاتی تبدیلیوں کا اژدھا دسمبریں رت کی یخ بستہ راتوں کو کھا گیا۔

مٹی کے تیل کا کنستر بے رحم وقت کی منہ زور آندھی میں کہیں کھو گیا۔

اب تو زندگی کی تپتی دوپہریں ہیں۔

جھڑتا سایہ ہے۔

سب مایا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).