ہمدردی کا دانہ، کیوں کا شکستہ آئنہ اور حرام کے جوتے


موبائل فون جب نیا نیا عام ہوا اور سم کارڈ کمپنیوں نے طرح طرح کے ایس ایم ایس پیکچز۔ کال ٹائم کی سروسز فراہم کرنا شروع کیں تو اس میں قبیح ترین حرکت۔ ”میری دوست بنو گی“؟ والا مسیج ہوتا تھا۔ مسیج بھیجنے والے کو بھی نہیں پتہ ہوتا تھا کہ آگے مرد ہے یا عورت۔ وہ تکا لگاتے تھے۔ میں نے ان دنوں اس کا بھر پور مشاہدہ کیا۔ کہ وہ واردات کیسے ڈالتے تھے۔ ذاتی موبائل فون دوہزار پانچ کے اختتام پر ہاتھوں میں آیا اور دوہزار 5 میں ہی بطور فیچر رائٹر میں نے صحافت میں قدم رکھا۔ ان دنوں میں سی ایس ایس کی تیاری بھی کر رہی تھی اگرچہ امتحان نہیں دے سکی بلکہ یہ محسوس ہوا کہ اے ساڈے وسوں بار اے۔

گریجویشن میں جرنلزم پڑھی تھی۔ صحافتی سبق یاد تھے کہ مشاہدہ اور مطالعہ اچھی تحریر کی بنیاد ہوا کرتے ہیں۔ ادھر موبائل فون لیا۔ سم آن کی جو یوفون کی فرنچائز سے ہی لی تھی۔ تو رانگ مسیجز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یعنی مشاہدے کا آغاز ہو چکا۔ مجھے نفسیات سے بھی دلچسپی رہی جو ابھی تک برقرار ہے اور لوگوں کے رویوں کو سمجھنے کا شوق بھی ہے۔

سو میں نے ان رانگ نمبرز کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ عفان بھائی مرحوم سے شروع دن سے ہی شئیرنگ بہت اچھی تھی۔ اس لیے رانگ نمبر وہ ڈیل کرتے۔ ویسے تو کسی طرح بھی کم ذہنی اور زبانی پہلوان میں بھی نہیں تھی۔ ابو نے تربیت ہی ان بنیادوں پر کی تھی کہ اپنا دفاع اچھے سے کر سکوں۔

اچھا یہ لوگ بار بار میسج کرتے یا مس کال کرتے۔ کیونکہ ظاہر ہے بلاک کی آپشن نہ ہونے کی وجہ سے بار بار کال آتی۔ گھر والوں کے سوالات سے بچنے کے لیے اکثر فون اٹھا لیا جاتا۔ اور یہی بنیادی غلطی ہوتی تھی۔ آپ فون بھائی کو دیں یا پھر خود ہی بھاری اور بگڑا ہوا لہجہ بنا کر بات کریں۔ جب مجھے ایسے مسیج آتے تھے یا کالز۔ تو میرا ریکشن کیا ہوتا تھا۔

کالز اور مسیجز کو مکمل نظر انداز کرنا۔
سیل بھائی کے ہاتھ میں پکڑا دینا۔

نظر انداز کرنے والے کوشش میں لگے رہتے تھے اور اگر آپ خدانخواستہ کال ریسو کر لیں تو زنانہ آواز کا مطلب کہ لڑکی کا نمبر ہے۔ لو جی اس کے بعد تب آنے والے اگلے مسیجز کی نوعیت یوں ہوتی تھی۔

ناراض ہو جانو۔ بات کیوں نہیں کرتی۔ ۔ کوئی مسئلہ ہے۔ کرو نا بات مجھ سے۔

اب وہ لڑکیاں جنہیں واقعی کوئی مسئلہ ہوتا وہ۔ ”ہمدردی“ کے یہ بول سن کر پہلے میسج کا رپلائی دیتیں اور پھر کال پر بات بھی ہو جاتی۔ اور پھر کچھ دنوں بعد ہی لڑکی محبت میں پڑ جاتی جبکہ اگلا صرف شکاری۔ جو ہمدردی کا دانہ ڈال کر چڑیا پکڑ رہا تھا۔

زیادہ تر یہ بچیاں۔ یا خواتین جن میں شادی شدہ اور بچوں والی بھی شامل ہوتیں۔ اور جنہیں گھر یا شوہر کی جانب سے غیر ضروری دباؤکا سامنا ہوتا۔ وہ اس جال میں پھنس جاتیں اور یہ لونڈے اور خبیث الفطرت بابے پھر جو گندہ کھیل کھیلتے۔ ان سے کون واقف نہیں۔

طلاق، خودکشی اور غیرت کے نام پر قتل کی وجوہات میں یہی ہمدردی سے شروع ہونے والی جنسی محبت۔ تعلقات اور اس کے نیتجے میں تیار ہونے والا بلیک میلنگ سٹف جیسے محرکات کل بھی اہم تھے، آج بھی اہم ہیں اور آئندہ بھی اہم ہوں گے۔ کیونکہ ہمارے مرد اس موقع پر صرف یہ سوچتے ہیں کہ زمانہ کیا کہے گا؟ حتیٰ کہ کئی مقامات پر ماؤں نے بھی اسی سوچ کا مظاہرہ کر کے یا جلدی جلدی ”گناہ کا بوجھ“ سر اتار دینے میں گھر کے مردوں کا ساتھ دیا۔ شاید اس ”تابعداری“ کے سوا اس کے پاس کوئی دوسری آپشن نہیں ہوتی۔

تاہم سوال یہ ہے کہ عورت نے بے وفائی کی تو کیوں کی؟ (جبکہ مرد بھی تو بے وفائی کرتا ہے۔ اور نکاح کر کے یا ویسے ہی عورت کی زندگی تباہ کرتا ہے ) ۔ بیٹی غیر مرد کے جال میں کیوں پھنسی؟ بہن آشنا کے ساتھ رنگے ہاتھوں کیوں پکڑی گئی؟ اس کیوں کی طرف کوئی جانا نہیں چاہتا۔ کیونکہ ”کیوں کے شکستہ آئینہ میں سب سے زیادہ بھیانک چہرہ گھر والے اور گھر والوں کا اپنا ہوتا ہے؟ ۔ اس لیے طلاق۔ قتل اور یا پھر اس حد تک زلیل کرو کہ وہ خود کشی کر لے۔

کوئی نہیں سوچتا۔ کوئی سوچنا ہی نہیں چاہتا۔ ہمارے ہاں رشتوں میں سب کچھ آپ کو ملے گا۔ سوائے اعتبار کے۔ انسانی تعلقات میں۔ اعتبار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ کم اور زیادہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی کمی ہی سے رشتے بدبو دینے لگتے ہیں اور بدبو میں زیادہ دیر تک سانس نہیں لیا جا سکتا۔ ( نوٹ : یہ اعتبار جسے Family Trust کہتے ہیں وہ ہے۔ گھر سے باہر یہ بہت کم ملتا ہے ) ۔

عورت وہ مخلوق ہے جسے اپنے رشتوں میں سب سے زیادہ اعتبار کی ضرورت ہے۔ اس پر یقین کیا جائے۔ محلے میں کسی نے کچھ کہہ دیا تو اس کی بنیاد پر اس کے کردار پر سوال نہ اٹھائیں جائیں بلکہ اس سے محبت سے عزت و وقار کے ساتھ بات کی جائے۔ وہ بھی گھر کے ان چار پانچ ورکنگ ممبرز میں سے ایک ہے جو گھر کی تعمیر میں مصروف عمل ہیں تو پھر صرف جنس کی تقسیم پر اس سے دوہرا رویہ کیوں اختیار کیا جائے؟ نا انصافی کیوں کی جائے۔ گھر کے اخراجات میں وہ کہیں گھر کے مردوں کے برابر شئیرنگ کر رہی تو کہیں کم تو کہیں زیادہ۔ تو پھر اعتبار کی چادر پر اس کا مردوں کے برابر حق ہے۔

میں اور مجھ جیسی ہر وہ بیٹی۔ بہن جسے پورے مان و محبت کے ساتھ پروان چڑھایا گیا۔ اپنی سوچ۔ فکر اور مرضی کے مطابق زندگی گزارنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار دیا گیا۔ وہ بھی ایک اعتبار کی بنیاد پر ہے۔ کہ اعتبار ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ شاید ہم جیسوں سے بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔ مکمل کوئی بھی نہیں۔ اور یہ جو ہم معاشرے کے بارے کھل کر لکھ پاتے ہیں۔ یہ وہی اعتبار ہے۔ جو باپ بھائی سے ملا۔ ماں نے دیا۔ ورنہ کہنے والوں نے کیا کچھ نہیں کہا ہو گا۔

دوسری جانب آج کی سماجی سوچ دس۔ پندرہ سال پہلے والی نہیں رہی۔ ہم نے بہت تیزی سے سماجی تنزلی کی سڑھیاں طے کی ہیں۔ اب گھر والے اعتبار کی شکستہ عینک نہیں پہنتے بلکہ انہوں نے حرام کے جوتے پہن لیے ہیں اس لیے اب وہ اس وقت تک نہیں بولتے۔ جب تک ان کے مفادات پر ضرب نہ پڑے۔

یہ جو غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں تو یہ غیرت کا لفظ سوائے ملمع کاری کے کچھ نہیں بس آئینے میں اپنی گندی تصویر نظر آ جاتی ہے جسے خون سے دھونا ضروری ہو جاتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خون عورت کا ہی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).