اسلامی یونیورسٹی میں سیکولر ازم اور اسلام پر مکالمہ


اچھی بات یہ ہوئی کہ جماعت اسلامی کے افکار پر کاربند طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ نے مکالمے کی جانب توجہ دی ہے۔ ان کے ہاں کیمپسز میں سیرت کانفرنسوں کے انعقاد کی روایت تو موجود تھی لیکن نظریاتی حریفوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ زمینی حقائق میں جس تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے، اس صورت حال میں جمعیت نے محسوس کیا کہ نئی یا تنقیدی آوازوں کو ایڈریس کیا جائے۔ یہ اچھا ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں اسلام اور سیکیولر ازم پر مکالمہ منعقد ہوا، میرے دوست فرنود عالم اور حاشر بن ارشاد وہاں مدعو تھے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کی فکر کے علم بردار شاہنواز فاروقی اور صفدر صاحب تھے۔ ماڈریٹر چونکہ جمعیت سے نظریاتی وابستگی رکھنے والے تھے تو یوں کہہ لیجیے کہ یہ تین اور دو کا مباحثہ (بقول حاشر مکالمہ) تھا۔ اس مکالمے میں دین اور اسلام کی تعریفوں پربات ہوئی، مذہب اور سیکولرازم کا تقابل کیا گیا۔ ریاست سے مذہب کے تعلق کے حق اور مخالفت میں دلائل دیے گئے۔ کہیں کہیں کنفیوژن بھی محسوس ہوئی۔ خلط مبحث تو یہاں کا کلچر ہے۔ کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا لانا، ہم الزامی جوابات کے لیے لازم سمجھتے ہیں۔ مکالمے کی ریفائنڈ صورت دیکھنے کے لیے ابھی یہاں کے شعور کو مزید کئی برس لگیں گے۔ سوال کی شفافیت اور جواب کا بھی اسی قدر فوکسڈ ہونا سننے والوں کو صرف لطف نہیں دیتا بلکہ اُن کی فکر کے نئے در بھی وا کرتا ہے۔

میں نے اس مکالمے میں جوچیزیں محسوس کیں وہ یہ تھیں :

٭اہل جماعت بار بار اپنے نظریے کے مآخذ کو ایسی قوت سے منسوب قرار دے رہے تھے جو اُن کی نظر میں مابعد الطبیعیاتی ہے۔ انسانی عقل کی اس اساس میں مداخلت ایک عیب ہے۔ ظاہر ہے یہ ایک دعویٰ ہی ہے۔ جبکہ مقابل بیٹھے لوگ اس جہانِ تگ ودومیں انسانی عقل کی اساسی اہمیت کے قائل ہیں اور اس کے نتائج میں تبدیلیوں کو ایک حقیقت مانتے ہیں۔ سو یہاں حتمی اتفاق ممکن نہیں ہے۔ اس بنیاد پر مکالمہ پُرلطف تو ہو سکتا ہے لیکن کلی اتفاق یا کسی حد تک مشترک نکات پر منتج نہیں ہو سکتا۔ فکری ونظریاتی تنوع کو تسلیم کرنے والے لوگ اتفاقِ کلی کے قائل ہی نہیں، سو انہیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں پریشانی ”آفاقی یکسانیت“ کی خواہش رکھنے والوں کو ہو سکتی ہے۔

٭دوسری چیز یہ تھی کہ اہلِ جماعت بار بار قرآنی آیات اور ایسے واقعات سے استدلال کر رہے جو صرف اُن کی روایت کا حصہ ہیں، بلکہ مسلّمات ہیں، جن کی صداقت پر سوال اُٹھانا جرم ہے۔ سو اس اعتبار سے مقابل مباحثہ کاروں میں فرنود اور حاشر کے پاس دلیل کی جولان گاہ محدود تھی۔ وہ وحی کے متن اور مقابل فریق کے نزدیک مسلّم سمجھے گئے واقعات کو چیلنج نہیں کر سکتے تھے۔ مکالمے کے لیے لازم ہے کہ فریقین کے درمیان کچھ بنیادی اصول طے ہوجائیں جو پیمانے کا کام دیں تاکہ گفتگو نتیجہ خیز ہو سکے۔ یہاں بنیادی مسلّمات کا فرق تھا۔

٭اہلِ جماعت کی بعض باتوں میں کنفیوژن نمایاں تھی۔ جیسے جماعت اسلامی ہند کے حوالے سے شاہ نواز فاروقی نے کہا کہ وہ اس لیے سیکولرازم کی بات کرتی ہے کہ وہاں کا نظام سیکولر ہے اور مسلمان وہاں اقلیت میں ہیں۔ اگر وہاں مسلمان اکثریت میں ہو جائیں گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ”امت“، ”ملت“ وغیرہ کی اصطلاحوں اور ”دین کی آفاقیت“ کی علم بردار جماعت کے لوگ بھی یہاں جمہوریت کی ”اقلیت، اکثریت“ کی اصطلاحات سے استدلال پر کیوں مجبور ہیں۔ ان کی سیاسی اساسیات میں تومعروف معنوں میں جمہوریت کی نفی ہے۔

٭ اہلِ جماعت کی کوشش رہتی ہے کہ انہیں اسلام کے ماڈریٹ ورژن کا پیش کار تسلیم کیا جائے۔ انہیں برصغیر میں اسلام کے روایتی ’مولویانہ کلچر‘ سے نہ ملایا جائے، لیکن یہاں جب شاہ نواز فاروقی نے گفتگو شروع کی تو ان کا آہنگ اُس شخص کا سا تھا، جو فتویٰ لگاتا ہے جبکہ دوسری جانب مختلف مذاہب کے پیروکاروں کی پر امن بقائے باہمی کے امکانات پر بات کی جا رہی تھی اور ریاست کی جانب سے کسی بھی مذہب کی اس اندازمیں سرپرستی پر سوال اٹھائے جا رہے تھے، جس کے نتیجے میں دیگر مذاہب کے پیروکاروں یا مذاہب کو نہ ماننے والوں کے لیے سماج میں گنجائش کم ہو جائے۔

٭ اس مکالمے کے دوران جب مذہبی اقلیتوں کی بنیادی آزادیوں سے متعلق بات ہوئی تو گفتگو کے ماڈریٹر نے پاکستان کے دستور کا حوالہ دیا۔ پاکستان میں مذہبی حلقے اس سوال کو مشترک طور پر اسی طرح ایڈریس کرتے ہیں لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں اور بعض فرقوں کے لیے پبلک لائف ویسی محفوظ نہیں ہے جیسی اکثریت کے لیے ہے۔ دستور کی شق کے پیچھے چھپنے سے زمینی حقیقتیں بدل نہیں جاتیں۔ ایسی دلیل دینے والے خود بھی اس استدلال سے مطمئن نہیں ہوتے، ہاں وہ خوش اس لیے ہوتے ہیں کہ انہوں نے مقابل کا منہ بند کرا دیا ہے۔ لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کھلے الفاظ میں کہہ دیتے ہیں کہ دنیا بھر میں کسی بھی شناخت سے وابستہ اکثریت کے لیے زندگی کے امکانات نسبتاً وسیع ہوتے ہیں، یہ حقیقت ہے چاہے آپ کو پسند نہ آئے۔ ان بعض لوگوں کی دلیل جیسی بھی ہو کم ازکم وہ کنفیوژن کا شکار نہیں ہیں۔

٭ اس مکالمے کے عنوان ”اسلام بمقابل سیکولرازم“ سے یہ لگتا ہے تھا کہ منتظمین ان دونوں کو باہم مقابل سمجھتے تھے۔ شاہنواز فاروقی کی پیش کردہ کتابی تعریفوں اور ان کے دلائل سے یہ بات واضح تھی۔ جبکہ دوسری جانب بیٹھے افراد کے نزدیک سیکولرازم اور مذہب پر بات مقصود تھی، گفتگو اسلام پر منحصر نہیں تھی۔ یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ایک فریق اسلام کی سیاسی و سماجی بالا دستی کے لیے دلائل پیش کر رہا ہے جبکہ دوسرا فریق مذہب کی ریاستی سرپرستی اور فرد کی ذاتی آزادیوں میں اس کی مداخلت پر سوال اٹھا رہا ہے۔

٭جب حاشر کی جانب سے متنوع افکار کے حامل لوگوں کے لیے آج کل نسبتاً محفوظ ممالک کا ذکر کیا گیا تو جوابی دلیل یہ تھی کہ آپ جدید یورپ یا سیکنڈے نیوین ممالک کا تقابل آج کے اسلامی ممالک سے کر رہے ہیں (جو اپنی تہذیب کے زوال کے عہد سے گزر رہے ہیں ) ، حالانکہ اسلامی ریاست نظام کی بحث میں ہم ریاست مدینہ اور خلفائے راشدین کے دور کو عروج کا زمانہ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا عروج کے عہد کا مقابل کے عروج سے تقابل کیا جانا چاہیے۔ یہ دلیل بظاہر یہ پرکشش لگتی ہے لیکن اس ضمن میں یہ بات بھی گویا اہلِ جماعت تسلیم کر رہے ہیں کہ عہد موجود میں فرد کی بنیادی سماجی، سیاسی و مذہبی آزادیوں کوتحفظ دینے کے حوالے سے مغرب کے کئی ممالک عروج پر ہیں۔ کیا یہ دلچسپ نہیں؟

ان سب باتوں کے باوجود اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے اس نوع کے مکالمے کا آغاز اس بات کی دلیل ہے کہ اب مقابل نکتہ ہائے نظر ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں پنجاب یونیورسٹی اور دیگر درس گاہوں میں جمعیت کے پروگراموں میں اکثردائیں بازو کے دانشور اور ریٹائر فوجی افسران دکھائی دیتے تھے۔ صور ت حال میں تازہ تبدیلی کی ایک بڑی وجہ وہ طلبہ تحریک بھی ہے جو ”جب لال لال لہرائے گا“ کے نعرے کی مقبولیت کے بعد اہم سماجی و ابلاغی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔

جمعیت پر تشدد پسند مذہبی تنظیم ہونے کی چھاپ کو اسی طریقے سے مٹایا جا سکتا ہے کہ وہ کیمپسز میں طاقت کی بنیاد پر غلبے کی کوشش کی بجائے دیگر نظریوں سے وابستہ لوگوں کو اسپیس دے۔ لاٹھی ڈنڈے کی بجائے دلیل کے ہتھیار کے ذریعے مکالمے کو فروغ دینے کے عمل کا حصہ بنے۔ اس اعتبار سے یہ اچھی شروعات ہے۔ یہ کہنا کہ متنوع افکار کے حامل لوگ عنقریب یا کچھ عرصے بعد کسی ایک نظام پرمتفق ہو جائیں گے، ناممکن ہے۔ یہ خواہش ہی تنوع کا انکار ہے۔ انسانی سماج آگے بڑھ رہا ہے۔ نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ ماضی کے ان گنت مسلّمات کو علم کی جدید روایت نے چیلنج کیا ہے۔ بہت سے طلسم ٹوٹے ہیں اور ٹوٹ رہے ہیں۔ اب ہمیں تشدد اور دھونس کی بجائے مکالمے کی فروغ دے کر اختلاف رائے پر اتفاق کر لینا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).