قانون کے محافظ انسانی زندگیوں کے دشمن کیوں بن گئے؟


لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر وکیلوں نے حملہ کیا اور ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کو نقصان پہنچانے کے علاوہ متعدد گاڑیوں کو نذر آتش کردیا۔ وکیلوں کی اشتعال انگیز کارروائی کے نتیجے میں زیر علاج 4 مریض جاں بحق ہوگئے۔ بعد میں ڈاکٹروں کا ایک گروہ بھی مقابلے پر اتر آیا ۔ دونوں گروہوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔
پنجاب حکومت نے حسب معمول اس سانحہ کی تحقیقات کے لئے کمیٹی بنا دی ہے اور وزیر اعظم عمران خان نے بھی اسلام آباد میں خصوصی اجلاس طلب کیا ہے۔ لیکن سرکاری تحقیقات اور اعلیٰ سطح پر چند اجلاس منعقد ہونے سے اس مسئلہ کی وجوہ نہیں جانی جاسکتیں۔ وکیل اور ڈاکٹر معاشرے کا پڑھا لکھا طبقہ ہے۔ عام لوگ ان معزز پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن اب یہی دونوں گروہ کئی سال سے غنڈہ گردی، سماجی تشدد اور زور ذبردستی کے مزاج کی مثال بنے ہوئے ہیں۔ اگر ملک کے وکیل جن کا بنیادی مقصد بے گناہ لوگوں کو قانون کے چنگل سے بچانا ہوتا ہے، خود ہی قانون توڑنے کا راستہ اختیار کررہے ہیں تو اس کی وجوہ پر غور کرنے اور سماج سدھار کے لئے کسی بڑی تحریک کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔
وکیلوں کی غنڈہ گردی اور لاہور کے ہسپتال میں توڑ پھوڑ کے واقعہ کو عام قانون شکنی یا چند ناپسندیدہ لوگوں کی ناجائز حرکت قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہ ہی یہ معاملہ صرف قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتوں میں ناقص بنیاد پر دائر کئے گئے مقدمے قائم کرنے یا چند جونئیر وکیلوں کو سزا دلوانے سے حل ہوگا۔ آج لاہور میں امراض قلب ہسپتال پر وکیلوں کے حملہ کے دوران پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس دکھائی دیے۔ پنجاب حکومت کا یہ اعلان کہ ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی، اس صورت حال میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب دینے کے لئے کافی نہیں ہے۔ آخر قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پولیس ہسپتال پر حملہ سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنے اور مشتعل وکیلوں کو روکنے میں کیوں ناکام رہے۔ حملہ کے دوران بھی موقع پر موجود پولیس والے مریضوں یا غنڈہ گردی پر اترے ہوئے وکیلوں کو روکنے اور مریضوں، ڈاکٹروں، ہسپتال کے عملہ اور صحافیوں کی حفاظت کرنے کی بجائے خود اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں مبتلا دکھائی دیے۔
تحریک انصاف کی حکومت پولیس میں اصلاحات لاکر عوام کو بہتر سہولت فراہم کرنے کے بلند بانگ دعوے کرتی رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے گزشتہ دور حکومت میں پولیس اصلاحات لانے اور اس کی کارکردگی کو مثالی بنانے کا دعویٰ ضرور کرتے ہیں ۔لیکن نہ تو اس کا کوئی دستاویزی ثبوت سامنے آسکا ہے اور نہ ہی پنجاب جیسے بڑے صوبے میں اقتدار سنبھالنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت نے پولیس کو منظم کرنے، عوام دوست بنانے، غیر ضروری اثر و رسوخ سے بچانے اور معاشرے میں سکون اور تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے قابل بنانے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ ساہیوال سانحہ کے بعد امید کی جارہی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت سابقہ حکومتوں کے برعکس رویہ اختیار کرے گی لیکن اس سانحہ میں ایک بے گناہ خاندان کے لوگوں کو ہلاک کرنے والے تمام اہل کار عدالت سے بری ہوگئے۔ اس طرح اصلاح احوال کے تمام سرکاری دعوے نقش بر آب ثابت ہوئے ہیں۔
پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان وکیلوں کو احتجاج سے روکنے کے لئے موقع پر پہنچے تھے لیکن وہ خود ہی مشتعل وکیلوں کے تشدد کا نشانہ بنے اور بعد میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن اس سے ایک بات تو واضح ہوگئی ہے کہ صوبائی حکومت کے زیر انتظام فورس ، اس تصادم کے موقع پر اپنے ہی ایک وزیر کی حفاظت کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس سے عام شہریوں کے تحفظ کی کیا امید کی جاسکتی ہے۔ فیاض الحسن چوہان نے اغوا کی کوشش کرنے کا الزام عائد کرنے کے علاوہ یہ دعویٰ بھی کیا کہ تحریک انصاف کے وکیل آج غمگین اور اداس ہوں گے۔ پیشہ ور گروہوں کو پارٹی اور افراد کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر پہچاننے کی یہ روایت بھی دراصل وکیلوں کی غیر قانونی سرگرمیوں کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس سانحہ پر جب صوبائی وزیر اپنی پارٹی سے وابستگی رکھنے والے وکیلوں کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ وکیلوں میں گروہی سیاست کو تیز کرنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ یہ رویہ معاملات کو درست سمت کی طرف لے جانے میں معاون نہیں ہوسکتا۔
اس کے باوجود وکیلوں نے آج جس طرح ایک ہسپتال پر حملہ کیا اور ان کی اس افسوسناک اور اشتعال حرکت سے جس طرح متعدد مریض جاں بحق ہوئے ہیں، اس کی بنیادی ذمہ داری وکلا تنظیموں اور اس معزز پیشہ سے وابستہ سینئیر وکیلوں پر عائد ہوتی ہے۔ حکومت اور قانون سے بھی پہلے وکلا تنظیموں کو ان وکیلوں کا سراغ لگانا چاہئے جو اس حملہ کے ذمہ دار تھے اور ان کی نشاندہی کے بعد ان کے لائسنس منسوخ کرنے اور ان سے وکیل ہونے کا اعزاز واپس لینے کا اقدام کرنا چاہئے۔ اگر ان کالی بھیڑوں کو بدستور تنظیمی تحفظ فراہم کیاگیا اور وکالت کے پیشہ کو ان سے پاک نہ کیا گیا تو ملک میں قانون و انصاف کا ذمہ دار گروہ قانون شکنی اور تشدد کی علامت بن کر رہ جائے گا۔
اس سے پہلے مختلف مواقع پر وکیل زیریں عدالتوں میں بھی ناروا رویہ اختیا رکرتے رہے ہیں اور کئی ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جہاں وکیل عام شہریوں پر تشدد میں ملوث تھے لیکن وکیلوں کی تنظیمیں اپنے ہی ارکان کے خلاف انضباطی کارروائی کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے حالات اب یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ وکالت کے پیشہ سے تعلق رکھنے والے اپنے پیشے کے وقار کے علاوہ انسانی زندگی کی قدر و قیمت بھی فراموش کرچکے ہیں۔ ایسے وکیلوں کو اگر اب بھی سیاسی مقاصد یا تنظیمی گروہ بندی سے وابستہ مقاصد کے لئے مسلسل پناہ دی جاتی رہی تو یہ صورت حال سنگین ہونے کا اندیشہ ہے۔
وکلا تنظیموں اور حکومت کے علاوہ تمام سیاست دانوں اور سماجی معاملات پر غور و فکر کرنے والوں کو معاشرے میں بڑھتے ہوئے ہیجان اور قانون شکنی کے عوامل جاننے اور ان کا قلع قمع کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ تشدد اور قانون شکنی کے معاملات کو گروہی اور ایک خاص طبقہ کے مفادات سے بالا تر ہو کر دیکھنا ہوگا۔ معاشرہ میں نفرت پھیلانے اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے رجحان کا خاتمہ بے حد ضروری ہے۔ وکیلوں اور ڈاکٹروں کی جتھہ بندی اور قانون پر عمل کی بجائے قانون کو ہاتھ میں لینے کا رجحان ایک تشویشناک معاملہ ہے جسے صرف ایک واقعہ کی تحقیقات کرنے یا سخت کارروائی کرنے کے روایتی اعلانات سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
اس معاملہ پر صرف حکومت پر انحصار کرنا ہی کافی نہیں ہے۔ انتظامیہ کی نگران کے طور پر حکومت پر یقیناً اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے لیکن معاشرے سے غصہ، پریشانی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے رویہ کے خاتمہ کے لئے معاشرہ کے تمام طبقات کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ جاننا اہم ہے کہ ملک کے نمایاں شہری بھی کیوں قانون کو بے بس اور غیر اہم سمجھنے لگے ہیں۔
یہ صورت حال ختم نہ کی گئی تو معاشرہ میں پیدا ہونے والی انارکی اور انتشار کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اس کے سیاسی اثرات بھی ہوں اور معیشت اور سماجی تعلقات بھی اس کی زد پر آئیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali