عرفان صدیقی صاحب کو باعزت بری کر دیا گیا


اسلام آباد ہائی کورٹ نے ممتاز دانشور اور نواز شریف کے سابق معاون خصوصی عرفان صدیقی کو معصوم قرار دیتے ہوئے باعزت بری کر دیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی معصوم ہیں تو پھر قصور وار کون ہے؟ 26 جولائی کی رات کا دوسرا پہر تھا عرفان صدیقی کو اُن کی رہائش گاہ جی ٹین سے اُٹھایا گیا انھیں تھانہ رمنا میں بند کر دیا گیا۔

عرفان صدیقی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ اُنھیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا اُن کی گرفتاری کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اُن کی گرفتاری پر قاضی القضاء آصف سعید کھوسہ کو کہنا پڑا کہ ”عرفان صدیقی کے معاملے سے عدلیہ کو سبکی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا“ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ”عرفان صدیقی ہمارے معاشرے کے نہایت ہی معزز و محترم طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں کسی اُستاد کے ساتھ بد سلوکی اور اُس کی تہذیب نہیں ہونی چاہیے“ پاکستان کی سب سے طاقتور شخصیت جنرل باجوہ نے اُن کی گرفتاری پر مذمت کی تھی۔

قلم کی دنیا سے تعلق رکھنے والے ممتاز دانشور نے 26 جولائی کی رات تھانہ رمنا میں گزاری 27 جولائی کی صبح انھیں ہتھکڑیاں لگا کے اسٹنٹ کمشنر مہرین بلوچ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور جرم یہ بتایا گیا کہ انھوں نے قانون کرایہ داری کی خلاف ورزی کی ہے عدالت نے عرفان صدیقی کے وکلاء کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں چودہ روز عدالتی ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بند کر دیا گیا۔

اڈیالہ جیل میں انھیں قیدی نمبر 4266 الاٹ ہوا اڈیالہ جیل کی قصوری چکی میں خطرناک مجرمان کے ساتھ ایک شب اور دن گزارنے کے بعد اگلے دن قیدی نمبر 4266 ہتھکڑیاں لگا کر اتوار کو چھٹی والے دن عالی مرتبت جج کے حضور پیش کیا گیا جہاں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔

عرفان صدیقی نے مقدمے کے اخراج کے لیے اپنے وکلاء کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی۔ عزت مآب جناب جسٹس عامر فاروق کی عدالت میں مقدمہ کی کم و بیش چار سے پانچ سماعت ہوئی انھوں نے عرفان صدیقی کو معصوم قرار دیتے ہوئے بری کر دیا انھوں نے تحریری فیصلے میں درخواست گزار کی استدعا کو ریکارڈ کا حصہ بنا دیا کہ مدعی متعلقہ تمام فریقین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتا ہے

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سرکار کی طرف سے تحریری طور پر اگاہ کیا گیا ہے کہ عرفان صدیقی کا مذکورہ جرم سے کوئی تعلق نہیں لہذا ان کے خلاف مقدمہ کو خارج کر دیا گیا فاضل جج نے فیصلے میں لکھا کہ عرفان صدیقی پیٹیشن کے فوری مقاصد حاصل ہو گئے ہیں اس لیے مزید کارروائی کی ضرورت نہیں عدالت نے عرفان صدیقی کو حق دیا کہ وہ ازالہ عرفی کا مقدمہ عدالت میں دائر کر سکتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ عرفان صدیقی کو معصوم قرار دیتے ہوئے بری تو کر دیا گیا۔ کیا قصورواروں کو کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ عرفان صدیقی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس کی تحقیقات کی جائیں گی اور ملوث کرداروں کو بے نقاب کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ عزت مآب جناب چیف جسٹس، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پرلے روز اپنی تقریر میں کہا تھا کہ قانون سب سے زیادہ طاقتور ہے اس کی گرفت سے کوئی نہیں بچ پائے گا۔

یہ قانون ہی تھا جس کی وجہ سے ایک وزیراعظم کو گھر جانا پڑا اور دوسرا نا اہل ہوا۔ 19 دسمبر کو جناب چیف جسٹس صاحب مدت ملازمت سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں ایک ہفتہ باقی ہے وہ چائیں تو ان کرداروں کو قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کر سکتے ہیں جنھوں نے ایک معزز شخص کو بے گناہ پکڑ کر اڈیالہ جیل کی قصوری چکی میں بند کر دیا گیا۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui