گجرات کی صحافت کا راجہ رخصت ہوا


1985 ء کا سال تھا۔ میں ان دنوں گورنمنٹ سر سید ڈگری کالج گجرات میں سال چہارم کا طالب علم تھا۔ جب میری شناسائی راجہ طارق محمود صاحب سے ہوئی۔ وہ ان دنوں گجرات میں روز نامہ مشرق کے نمائندے تھے۔ واقعہ یوں ہوا کہ ہمارے سیاسیات کے ہردلعزیز پروفیسر سید محفوظ شاہ صاحب کا تبادلہ سر سید کالج سے گورنمنٹ زمیندار پوسٹ گریجوایٹ گجرات ہو گیا۔ ان کے اعزاز میں ہم نے کالج لائبریری میں الوداعی تقریب منعقد کی۔ تقریب کی کوریج کے لیے میں نے خود جا کر دیگر صحافیوں کے ساتھ ساتھ راجہ طارق محمود کو بھی شرکت کی دعوت دی۔ ماسوائے راجہ صاحب کے اور کسی نے شرکت نہ کی۔ انہوں نے اپنے اخبار میں ہماری تقریب کی خبر تصاویر کے سیٹ کے ساتھ شائع کروائی۔ بعد ازاں ان کے ساتھ شروع ہونے والی یہ شناسائی اچھے اور دیرپا تعلقات میں بدلتی چلی گئی۔ جو گزشتہ روز ان کی ناگہانی وفات تک قائم رہی۔

کالج کی تقریب میں بلائے جانے سے لے کر 2000 ء تک میرے پاکستان میں قیام تک ان سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ بعد ازاں امریکہ آنے کے بعد بھی ان سے فون پر رابطہ رہا۔ جب بھی بات ہوتی تو بیرون ملک مقیم خصوصاً امریکہ میں آباد اپنے صحافی دوستوں ندیم منظور سلہری، اسلام الرحمن، محمد شہباز اور چوہدری صدیق ٹانڈہ اور سید زاہد شہباز کا ضرور پوچھتے۔ انگلینڈ میں مقیم گجرات میں جنگ کے سابق ڈسٹرکٹ انچارج و صدر پریس کلب مشتاق ناصر اور لیاقت علی شفقت کے ساتھ صحافت میں ان کا بہت لمبے عرصے تک ساتھ رہا۔

گزشتہ روز گجرات میں پہلے صحافی دوست محمود اختر محمود کے فیس بک پیج پر اچانک ان کی ہارٹ اٹیک کے باعث ہسپتال داخل ہونے اور پھر چند گھنٹوں کے بعد ہی ان کی اچانک وفات کی خبر نے پاکستان اور دینا بھر میں پھیلے ان کے چاہنے والوں اور اوورسیز پاکستانیوں کو گہرے دکھ اور صدمے سے دوچار کر دیا۔

” لو اک چراغ اور بجھا“۔ گجرات میں لوکل اور علاقائی صحافت کے بانی، سابق صدر پریس کلب اور مقامی ”روزنامہ جذبہ“ کے بانی و مینجنگ ایڈیٹر راجہ طارق محمود حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث گزشتہ روز گجرات میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی عمر 65 برس تھی۔ انہوں نے پسماندگان میں میں بیوہ سمیت تین بیٹوں راجہ سلیمان، راجہ عمر، راجہ تیمور اور دو بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔

اور یوں 1973 ء میں شروع ہونے والا ان کی 46 سالہ صحافت کا سفر بھی اختتام پذیر ہو گیا۔

مرحوم راجہ طارق محمود 21 فروری 1954 ء کو اندرون شہر گجرات کے علاقے جناح سٹریٹ (کٹرہ) نزد شاہ دولہ چوکی میں ممتاز مذہبی شخصیت راجہ غلام احمد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد میونسپل کمیٹی پرائمری اسکول میں استاد تھے۔ انہوں نے پرائمری تعلیم اپنے والد کے سکول سے حاصل کی۔ چھٹی کلاس مدرسہ تعلیم الدین جلال پور جٹاں، ساتویں اور آٹھویں جماعت تک وہ گورنمنٹ مسلم ہائی سکول کچہری روڈ میں داخل رہے۔ ۔ جبکہ میٹرک کا امتحان انہوں نے 1969 ء میں گورنمنٹ جامع ہائی سکول گجرات سے پاس کیا۔

راجہ طارق محمود نے رواں سال اکتوبر میں ایک مقامی جریدے ”صدائے گجرات“ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو کے دوران یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ ”صحافت شروع کرنے سے پہلے میں نے عزیز بھٹی شہید ہسپتال سے ڈسپنسر کا کورس بھی کیا تھا۔ مگر 1970 ء میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات نے میری زندگی کو تبدیل کر دیا۔ ہمارے گھر کے پاس ہی جماعت اسلامی کا دفتر تھا۔ اس لٹریچر سے متاثر ہو کر اسلامی جمعیت طلباء میں شامل ہو گیا۔ 1970 ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے امیدوار چوہدری ارشاد احمد کٹھالہ کی انتخابی مہم میں شامل ہوا۔ اس دوران گجرات کے صحافیوں سے میرا ابتدائی تعارف ہوا۔ اس زمانے میں گجرات میں قربان طاہر، نوائے وقت، افتخار بٹ، روزنامہ جنگ اصغر علی گھرال، پاکستان ٹائمز، اشرف دھریکڑی، مشرق اور سجاد چوہدری کوہستان کے نمائندے تھے“۔

سیاست کے بعد راجہ طارق محمود نے اپنی صحافت کا آغاز 1973 ء سے کیا۔ 1979 ء میں گجرات میں روز نامہ مشرق کے نمائندے مقرر ہوئے۔ 1982 ء میں انہوں نے ”جذبہ“ کا ڈیکلریشن حاصل کیا جو پہلے پندرہ روزہ چھپتا رہا بعد ازاں 1989 ء میں روز نامہ کے طور پر شائع ہونا شروع ہوا۔ رواں سال ہی روزنامہ جذبہ نے اپنی مسلسل اشاعت کے 30 سال بھی مکمل کر لیے ہیں۔

روز نامہ جذبہ کو کامیاب کروانے میں راجہ صاحب کے ساتھی مرحوم شاویز ملک کا بھی کلیدی کردار رہا۔ گجرات کی صحافت میں مختلف اوقات میں مختلف صحافیوں کی جوڑیاں بڑی مقبول رہی ہیں۔ ایک وقت میں راجہ طارق محمود اور شاویز ملک کی جوڑی بے حد مقبول رہی۔ راجہ طارق محمود نے صحافت اور صحافت سے باہر بھی بہت سے دوست بنائے، وہ اکثر دوستوں کی غمی خوشی میں خود شریک ہوتے۔ ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا۔ خبریں کے کرامت اللہ مرحوم کے ساتھ ان کی مثالی دوستی تھی۔

اسی دوران جذبہ گروپ نے صحافت میں چند نئے تجربات بھی کیے۔

1991 ء گجرات میں پہلی بار روز نامہ جذبہ نے ہاتھ سے کتابت کی بجائے کمپیوٹر کمپوزنگ آغاز کیا۔ پہلے مرحلے میں 70 ہزار روپے کے تین کمپیوٹر خریدے گئے۔ اخبار کی کمپیوٹر کمپوزنگ کے لیے بلال بابر، عنصر نیازی اور حاجی شفیق سیالوی نے ابتدائی طور ان کمپیوٹرز کا چارج لیا۔ اس طرح گجرات میں جذبہ نے اس جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے میں لیڈ لی۔

جذبہ گروپ کے پلیٹ فارم سے ہی 1999 ء میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے جذبہ انٹرنیشنل میگزین کا اجراء کیا گیا۔ جس کا انچارج اعجاز پیارا کو بنایا گیا۔ یہ پراجیکٹ کافی کامیاب رہا۔ بعد ازاں کمپیوٹرز کے عام ہونے اور انٹرنیٹ اور آن لائن نیوز ویب سائٹس کی مقبولیت کے پیش نظر اعجاز پیارا ہی کی نگرانی میں جذبہ انٹرنیشنل آن لائن کا آغاز 2003 ء میں کر دیا گیا۔ جو بہت کامیاب رہا۔ بلکہ کئی سال تک گجرات اور گردونواح کے بیرون ممالک مقیم تارکین وطن اپنے علاقوں کی خبروں کے لیے اسی نیوز ویب سائٹ پر تکیہ کرتے رہے۔

سوشل میڈیا اور لائیو ٹی وی کے عام ہونے سے پہلے تک اس طرح کی آن لائن نیوز ویب سائٹس کی مقبولیت عروج پر تھی۔ جذبہ انٹرنیشنل کا یو اے ای سے بھی آن لائن اور پرنٹ ایڈیشن باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا ہے۔ اسی طرح جذبہ کے گجرات کے علاوہ منڈی بہاؤ الدین، لاہور اور میر پور آزاد کشمیر سے بھی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔

مرحوم راجہ طارق محمود کو گجرات میں بجا طور لوکل صحافت کا بانی کہا جاتا ہے۔ اب صرف گجرات شہر سے شائع ہونے والے ایک درجن سے زائد روز ناموں اور دیگر جرائد سے وابستہ ان کے ٹرینڈ کیے ہوئے یا ان کے اخبار سے نکل کر جانے والے صحافی کام کر رہے ہیں۔

راجہ طارق محمود نے کچھ عرصہ پہلے اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹے راجہ تیمور اور اپنے عزیز داود خاں کی نگرانی میں دے دیا تھا اور اب صرف اپنا سپروائزری رول رکھا ہوا تھا۔ اب اصل امتحان راجہ تیمور کا شروع ہو گا کہ وہ اپنے والد کے لگائے ہوئے اس پودے کو کس طرح آگے لے کر جاتے ہیں۔

راجہ طارق محمود نے اپنی زندگی کی بھر پور اننگز کھیلی۔ ایک لوئر میڈل کلاس فیملی کا فرد ہوتے ہوئے اور سیلف میڈ انسان کے ناتے انہوں نے کئی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ نقصان بھی اٹھایا۔ غالباً ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کا دوسری جماعت کے رہنماؤں کے متعلق بیان چھاپنے کی پاداش میں ان کے دفتر پر حملہ کروایا گیا۔ توڑ پھوڑ ہوئی، کمپیوٹر توڑ دیے گئے۔ کچھ لوگوں نے بیچ میں پڑ کر صلح کروائی۔ انہوں نے بہت حد تک متوازن پالیسی اپنائے رکھی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ صحافت میں سب کو خوش رکھنے کے فارمولے پر عمل پیرا رہے۔ صحافت میں آئیڈلیزم کے خواہاں ان کی صحافت سے کئی طرح کے اختلاف کر سکتے ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی انسان بشری کمزوریوں سے مبرا نہیں ہوتا۔

صحافت میں خوشامد کلچر کا عروج، سرکاری آفسران سے منتھلی کی وصولی، سرکاری ملازمین اور صحافیوں کا گٹھ جوڑ اور مک مکا، عوامی مسائل سے چشم پوشی۔ اور ”سیلفی مافیا صحافت“ آج کی زندہ حقیقتیں ہیں۔

ویسے بھی کئی دیگر علاقوں کی طرح گجرات جیسے شہر میں صحافت کرنا آسان کام نہیں۔ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے علاوہ، با اثر گروپوں، خصوصاً قبضہ گروپوں، اشتہاریوں اور سیاست دانوں کی منظور نظر بیوروکریسی کا آزادانہ صحافت کرنے والوں پر بے حد پریشر ہوتا ہے۔ اسی لیے مروجہ صحافت میں آزاد صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔

راجہ طارق محمود کی شکل میں صحافت میں شرافت کے قائل اور صحافیوں کی نایاب ہوتی نسل کا ایک اور ستارہ ڈوب گیا۔

جمال احسانی نے کہا تھا ؎

یہ کس مقام پر سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).