وردی والے شرپسند اور ان کی جنگ


11 دسمبر پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی کے مریضوں کے لیے ستمگر بن کر گزرا۔ جہاں ڈاکٹروں کے روپ میں مسیحاؤں پر شیطان صفت کالے کوٹ والوں نے حملہ کیا، جس کی زد میں وہاں موجود سینکڑوں مریض بھی آئے۔ نا وکلاء برادری کا کچھ گیا نا ڈاکٹروں نے کچھ کھویا نقصان ہوا تو ان مظلوم جانوں کا جو اس ستم ظریفی کی اصل حقیقت سے بھی آشنا نہیں تھے۔

جی بالکل یہاں بات ہو رہی ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونے والی اس جنگِ عظیم کا جہاں آپ کے دشمن کوئی باہر والے نہیں بلکہ اپنی ہی ریاست مدینہ میں قانون کے وہ رکھوالے ہیں جس میں ایک طبقہ قانون پڑھ کر اس کو نافذ کرواتا ہے اسی قانون کے تحت سزا اور جزا دیتا ہے اور دوسرا طبقہ اس قانون کا پاسدار بنتا ہے اس کے تحت ملک و قوم کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ایک تیسرا طبقہ وہ پڑھا لکھا طبقہ جو اپنی خدمات لوگوں کو صحت مند زندگی مہیا کرنے میں اپنے فرائض انجام دیتا ہے۔

لیکن آج یہ سب اپنے اپنے سبق اور فرائض سب بھول گئے ہیں۔ سنا تھا کہ حالت جنگ میں بھی دشمن ہسپتال وغیرہ میں حملہ نہیں کرتا مطلب جنگ کے بھی کچھ قانون واضح ہوتے ہیں لیکن یہاں توسب اس کے برعکس ہوا دشمن بھی اپنے اور حملہ بھی سیدھا ہسپتال پر کیا۔

وکلاء، ڈاکٹر، پولیس اور سیاست کی جنگ میں جان کے نذرانے ہمیشہ کی طرح عوام کو ہی دینے پڑے آخر کیوں؟ لڑائی اگر وکلاء اور ڈاکٹرز کی تھی تو نشانہ مریض کیوں بنے؟ ہسپتال میں گھس کر مریضوں کے آکسیجن ماسک اتار کر کن سے بدلہ لیا گیا؟ پولیس کو اگرچہ معلوم تھا کہ وکلاء حملہ کرنے لگے ہیں (عینی شاہدین کے مطابق) تو پہلے ہی انہیں اندر آنے سے کیوں نہیں روکا گیا؟ کیا حکومت کو پیدا ہونے والی اس صورتحال کا پہلے سے علم نہیں تھا؟

اگر نہیں تھا تو کیوں نہیں تھا؟ اگر پولیس کو پتا تھا تو حکومت کیوں بے خبر تھی؟ کیا وکلاء برادری اتنی طاقتور ہوگئی کہ ہمارے سیاست دان بھی ان کے ہاتھوں سرعام تشدد کا نشانہ بنیں گے؟ وکلاء کو روکنے کے لیے شیلنگ اتنی زیادہ ضروری ہوگئی تھی کہ دل کے عارضے میں مبتلا مریضوں کی آئی سی یو اور وارڈز تک کی حدود میں شیلنگ کرنا پڑ گئی پھر چاہے وکلاء نے ماسک نکال کر ان کی جان لی ہو یا پولیس کی شیلنگ نے، مرے تو پھر مریض ہی، نا کوئی ڈاکٹر مرا نا کسی وکیل کی ہلاکت کی خبر آئی نا کسی پولیس والے کی شہادت ہوئی ہاں شاید کوئی ایک آدھ زخمی ہوا ہو لیکن جان کی بِلی عوام کی دی گئی۔ کسی پرائیویٹ ہسپتال میں یہ سارا تماشا کیوں نہیں کیا؟ سرکاری ہسپتال میں ہی کیوں آئے جہاں ملک کا 80 ٪ غریب طبقہ آتا ہے؟ مطلب جان بھی غریب ہی کی لینا ہے کیونکہ مہنگائی، بےروزگاری اور غربت سے تو وہ ویسے ہی مر جاتا ہے چلو انہیں ایسے ہی مار دیا جائے کیا خوب حل نکالا غریبوں کی غربت مارنے کا۔

کدھر گئے وہ ملک کے قانون کے رکھوالے؟ قانون کی بالادستی قائم رکھنے والے؟ یہاں تو اپنے ملک میں ہی عوام اپنے رکھوالوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ انصاف کے لیے کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔ منصف ہی مجرم بن گئے تو انصاف کہاں سے ملے گا؟ جہاں مسیحا بھی اپنی جان کی امان چاہتے ہیں وہ عوام کی جان کی پرواہ کیوں کریں گے؟ مطلب یوں سمجھ لیں یہاں سب دروازے بند ہیں۔

یہ صرف دیکھی سنی باتیں نہیں ہیں، 11 دسمبر کی شام میں نے خود اس ہسپتال کا دورہ کیا وہاں موجود مریضوں سے ان کا آنکھوں دیکھا حال سنا اور ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈز اور نرسینگ سٹاف کے کمروں کا جائزہ لیا جہاں بڑے بڑے پتھر، بستروں پر پڑے شیشوں کے ٹکڑے اور زمین پر موجود خون کے نشانات اپنی آپ بیتی بیان کرتے دیکھئے دیے۔ کسی کا گزری شب میں بائی باس ہوا تو کوئی بسترِمرگ پر پڑا دکھائی دیا لیکن نہیں تھا تو وہاں کوئی بھی ایک ڈاکٹر موجود نہیں تھا۔

اور پھر چند گھنٹوں بعد ایک اور خبر بھی آ گئی کہ اس ہسپتال کو کچھ روز کے لئے بند کر دیا گیا، اب وہ مریض بیچارے کہاں جائیں گے؟ کیا ان سب مریضوں کی زندگیوں کی ذمہ داری کسی نے اٹھائی؟ کسی اور ہسپتال میں ان کے علاج کا بندوبست کیا گیا؟ کیا ان سب کی ذمہ داری ریاست مدینہ کے اعلیٰ حکام نے اٹھائی؟ کیا ان کی جانوں کے ضیاع پر ان کو انصاف مل سکے گا؟ کوئی ہے جو ان سب سوالوں کے جواب دے سکے؟

دیکھو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں

ڈھونڈوگے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).