ور حسابم را تو بینی ناگزیر


ایک بڑا مشہور واقعہ ہے کہ پارٹی کے ایک کنونشن میں بھٹو صاحب کی خوشامد میں دو معروف شخصیات میں مقابلہ ہوگیا۔ کنونشن کے بعد بھٹو صاحب نے سیاسی شخصیت سے کہا کہ آج اس قدر خوشامد ہوئی کہ میں خود بھی سراسیمہ ہورہا تھا۔ پی پی پی کے سینئر رہنما، فیصل آباد کی ریلی میں پرجوش اور ولولہ انگیز خطاب کررہے تھے، انہوں نے جوش خطابت میں کہا، بھٹو سورج ہیں عوام اس کی روشنی ہیں۔ بھٹو چاند ہیں عوام اس کی کرنیں ہیں۔ بھٹو پھول ہیں عوام اس کی خوشبو ہیں۔

ایک نظریاتی جیالا کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا بھٹو دیگ ہیں اور ہم ان کے چمچے ہیں۔ پارٹی لیڈر نے جیالے سے مخاطب ہوکرکہا کہ تم نے میری زبان سے میری بات چھین لی، میں بھی یہی کہنے والا تھا۔ اب اس واقعے میں حقیقت و فسانہ کتنا ہے اس پر کوئی بحث نہیں، کیونکہ اہل پاکستان جانتے ہیں کہ اس واقعے کو بیان کرنے والے موجودہ حکومت کے ایک ایسے وفاقی وزیر ہیں، جو پہلے بھٹو صاحب کے قدموں میں بیٹھا کرتے تھے، آج کل جادو کے زیر اثر ہیں۔

تاہم اس کے باوجود میں حسن ظن سے کام لیتا ہوں۔ پرجوش و ولولہ انگیز خطابات میں زبان پھسلنے کے واقعات بڑی تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں تو دوسری جانب کم علمی کی وجہ سے تقاریر میں اغلاط کرنے والے دنیا بھر میں رسوا ہو رہے ہیں۔ میں نے ”ذلیل“ کے معنی ڈکشنری میں تلاش کیے کہ اہل علم، ذلیل کے کیا معنی لیتے ہیں؟ ڈکشنری کے مطابق ”ذلیل“ کے معنی کمینہ ہونا، بے آبرو، بے عزت، بدنام، سبک سر (بے وقار، بے وقعت، کم حوصلہ، کم ظرف، احمق اوچھا ”ہیچ میرز (بے بساط، بے حیثیت، بے قیمت) ، پاجی، حقیر، خستہ، خفیف، خوار، رذیل، سغلہ، شرمسار، شرمندہ، نیچ ہونے ہیں۔

پاجی پرست سارے خوشامد پرست ہیں انصاف ہے ذلیل تمنا کے سامنے

مجھے اُن حواریوں پر حیرت ہوتی ہے کہ وہ خوشامد و چاپلوسی میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کس بات کا دفاع کررہے ہیں۔ زبان کی پھسلن اور بات ہے جبکہ تقاریر یا بیانات میں لفظوں کا غلط چناؤ الگ معاملہ۔ یہاں تہذیب و تربیت کا اثر سمجھ لینا چاہے کہ یقینی کمی رہ گئی ہوگی۔ میں اس کالم میں سخت زبان استعمال نہیں کرسکتا، اور ایسا کچھ لکھنا بھی نہیں چاہتا، جس سے میرے ہی دکھ و تکلیف میں اضافہ ہو۔

بس اتنا کہنا چاہتا ہوں میں اُس شخص کی عزت کبھی نہیں کرسکتا جو جو رب کائنات کے محبوب ترین عظیم ہستی ﷺکے لئے الفاظ کا درست استعمال کرنے کا سلیقہ بھی نہیں جانتا ہو۔ ایسا انسان تو تمام ذی حیات سے بھی بدتر و پست ہے۔ ہم جیسے گناہ گار تو تصور بھی نہیں کرسکتے۔ نہ جانے کیوں یہ اپنی زبان درازی کو قابو نہیں کرپاتے، حالاں کہ آپ ﷺ کا نام جب بھی لیا جاتا ہے تو درود پڑھا جاتا ہے۔ خود قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اس پیغمبر (ﷺ) پر، اے ایمان والو! تم بھی آپ (ﷺ) پر رحمت بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ “ (الاحزاب 56 )

زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں ہوتے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر زبان پھسل جائے اور پشیمانی کا احساس ہو تو معافی مانگنے سے کچھ مدوا ہوسکتا ہے۔ پڑھے لکھے اور ان پڑھ انسان میں فرق تعلیم کا ہوتا ہے، لیکن جاہل انسان ہونے کے لئے کسی بھی یونیورسٹی کی سند ضروری نہیں۔ ڈاکٹر لیوی مشورہ دیتے ہیں کہ ”جب مریض دماغی پریشانی کا شکار ہو جائے تو اسے محض بڑھاپا یا یہ سمجھ کر نظرانداز نہیں کر دینا چاہیے کہ وہ سٹھیا گیا ہے۔

” جوش خطابت یا فریق مخالف پر جذبات کے غالب آنے کے سبب غیر شعوری غلطیاں قابل معافی ہوتی ہیں، لیکن جب مقدس ہستیوں کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے لفظوں کا درست چناؤ نہ کیا جائے تو اسے انتہائی نامناسب امر گردانا جائے گا۔ جوبھی نبی اکرم ﷺ سمیت اصحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین، اہل بیت، علما اکرام اور بزرگان دین کے متعلق بات کرتے وقت بد ادبی کے مسلسل واقعات کا مرتکب ہورہا ہو تو یقینی طور پر اُس شخص کو اپنا علاج کرانے کی ضرورت ہے یا پھر اسلام جیسے اہم موضوع پر بات کررہا ہو تو اُس بیان کو لکھ یا لکھوا لے تاکہ نامناسب الفاظوں کے استعمال سے مسلم امہ کو تکلیف نہ پہنچے۔

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے۔ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔ ناروے واقعے میں بھی جان بوجھ کر ایسی حرکت کی گئی تاکہ مسلمان مشتعل ہوجائیں شا ید کچھ برسوں سے ایسا کچھ پاکستان میں بھی ہونے لگا ہے۔ نیوزی لینڈ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکا سمیت مغرب ممالک میں آئے روز ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جس سے مسلمان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں، یقینی طور پر (نعوذ باللہ) توہین اسلام اور توہین رسول ﷺہوتے دیکھ کر مسلمان کا اپنے جذبات پر قابو پانا سب سے مشکل عمل ہوتا ہے۔

بالخصوص نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ سے محبت کا جذبہ مسلمانوں کے لئے ایمان کا لازمی حصہ ہے، غیر مسلم تنظیمیں یا اسلام فوبیا کے شکار افراد اسی لئے توہین رسالت ﷺ کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ اسلام کے نام لیوا ؤں کو بھی اپنی تقاریر و بیانات یا گفتگو میں احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے۔ اس موقع پر حکیم الامت حضرت علامہ اقبالؒ کے ساتھ ہم سب بھی اللہ تعالی کے حضور دست بستہ التجاکرتے ہیں کہ اے روزمحشرمجھے میرے محبوب ﷺکے سامنے شرمندہ نہ کرنا۔

تو غنی از ہر دو عالم من فقیر

روزِ محشر عذر ہائے من پذیر

ور حسابم را تو بینی ناگزیر

از نگاہ مصطفی پنہاں بگیر (اقبالؒ)

اے خداوندقدوس تو تو دونوں جہاں سے بے نیاز ہے اورمیں فقیرومحتاج ہوں۔ تیری بے نیازی کا تقاضا تو یہ ہے کہ محشر کے دن میرے عذر قبول فرما۔ اور اگرمیرا حساب لینا ضروری ہے تو (میرے محبوب) محمدمصطفی ﷺ کی نظروں سے پوشیدہ لینا۔ تاکہ میرے محبوب ﷺکے سامنے مجھے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).