چارپائی اور کلچر


ہم تو اتناجانتے ہیں کہ تنگ سے تنگ چارپائی پر بھی لوگ ایک دوسرے کی طرف پاؤں کیے اًاٍ کی شکل میں سوتے رہتے ہیں۔ چنچل ناری کا چیتے جیسا اجیت بدن ہویاکسی عمررسیدہ کی کمان جیسی خمیدہ کمر۔ یہ اپنے آپ کو ہرقالب کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔ اور نہ صرف یہ کہ اس میں بڑی وسعت ہے بلکہ اتنی لچک بھی ہے کہ آپ جس آسن چاہیں بیٹھ اور لیٹ جائیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ بیٹھنے اور لیٹنے کی درمیانی صورتیں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج ہیں ان کے لیے یہ خاص طور پر موزوں ہے۔

یورپین فرنیچر سے مجھے کوئی چڑ نہیں، لیکن اس کو کیا کیجئے کہ ایشیائی مزاج نیم درازی کے جن زاویوں اور آسائشوں کا عادی ہوچکا ہے، وہ اس میں میسرنہیں آتیں۔ مثال کے طور پر صوفے پر ہم اکڑوں نہیں بیٹھ سکتے۔ کو چ پر دسترخوان نہیں بچھاسکتے۔ اسٹول پر قیلولہ نہیں کر سکتے۔ اور کرسی پر، بقول اخلاق احمد، اردو نہیں بیٹھ سکتے۔

ایشیا نے دنیا کو دو نعمتو ں سے روشناس کیا۔ چائے اور چارپائی! اور ان میں یہ خاصیت مشترک ہے کہ دونوں سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ اگر گرمی میں لوگ کھری چارپائی پر سوار رہتے ہیں تو برسات میں یہ لوگوں پر سوار رہتی ہے اور کھلے میں سونے کے رسیا اسے اندھیری راتوں میں برآمدے سے صحن اور صحن سے برآمدے میں سر پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ پھر مہاوٹ میں سردی اور بان سے بچاؤ کے لیے لحاف اور تو شک نکالتے ہیں۔ مثل مشہور ہے کہ سردی رُوئی سے جاتی ہے یادُوئی سی۔ لیکن اگر یہ اسباب ناپید ہوں اور سردی زیادہ اور لحاف پتلاہو تو غریب غربامحض منٹوکے افسانے پڑھ کر سورہتے ہیں۔

عربی میں اونٹ کے اتنے نام ہیں کہ دوراندیش مولوی اپنے ہونہار شاگردوں کو پاس ہونے کا یہ گُربتاتے ہیں کہ اگر کسی مشکل یاکڈھب لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو سمجھ لو کہ اس سے اُونٹ مراد ہے۔ اسی طرح اُردومیں چارپائی کی جتنی قسمیں ہیں اس کی مثال اور کسی ترقی یافتہ زبان میں شایدہی مل سکیں :۔

کھاٹ، کھٹا، کھٹیا، کھٹولہ، اڑن کھٹولہ، کھٹولی، کھٹ، چھپرکھٹ، کھرّا، کھری، جِھلگا، پلنگ، پلنگڑی، ماچ، ماچی، ماچا، چارپائی، نواری، مسہری، منجی۔
یہ نامکمل سی فہرست صرف اردوکی وسعت ہی نہیں بلکہ چارپائی کی ہمہ گیری پر دال ہے اور ہمارے تمّدن میں اس کا مقام ومرتبہ متّعین کرتی ہے۔

لیکن چارپائی کی سب سے خطرناک قسم وہ ہے جس کے بچے کھچے اور ٹوٹے ادھڑے بانوں میں اللہ کے برگزیدہ بندے محض اپنی قوت ایمان کے زور سے اٹکے رہتے ہیں۔ اس قسم کے جھلنگے کو بچے بطورجھولا اور بڑے بوڑھے آلہ تزکیہ نفس کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اونچے گھرانوں میں اب ایسی چارپائیوں کو غریب رشتے داروں کی طرح کو نوں کھدروں میں آڑے وقت کے لیے چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ خود مجھے مرزا عبدالودود بیگ کے ہاں ایک رات ایسی ہی چارپائی پر گزارنے کا اتفاق ہوا جس پر لیٹتے ہی اچھا بھلا آدمی نون غنہ (ں ) بن جاتا ہے۔

اس میں داخل ہو کر میں ابھی اپنے اعمال کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ یکایک اندھیرا ہو گیا، جس کی وجہ غالباًیہ ہو گی ایک دوسرا ملازم اوپر ایک دری اور بچھا گیا۔ اس خوف سے کہ دوسری منزل پر کوئی اور سواری نہ آجائے، میں نے سرسے دری پھینک کر اُٹھنے کی کوشش کی تو گھٹنے بڑھ کے پیشانی کی بلائیں لینے لگی۔ کھڑبڑ سن کر مرزا خود آئے اور چیخ کر پوچھنے لگے بھائی آپ ہیں کہاں؟ میں نے مختصراًاپنے محل وقوع سے آگاہ کیا تو انھوں نے ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچا۔ انھیں کافی زور لگانا پڑا اس اس لیے کہ میرا سر اور پاؤں بانوں میں بری طرح الجھے ہوئے تھے اور بان سرسے زیادہ مضبوط ثابت ہوئی۔ بمشکل تمام انھوں نے مجھے کھڑا کیا۔

اور میرے ساتھ ہی، مجھ سے کچھ پہلی، چارپائی بھی کھڑی ہوگئی!
کہنے لگے ”کیابات ہے؟ آپ کچھ بے قرار سے ہیں۔ معدے کا فعل درست نہیں معلوم ہوتا۔ “

میرے جواب کا انتظار کیے بغیروہ دوڑ کر اپناتیار کر دہ چُورن لے آئے اور اپنے اور اپنے ہاتھ سے میرے منہ میں ڈالا۔ پھنکی منہ میں بھر کر شکریہ کے دو چار لفظ ہی کہنے پایا ہوں گا کہ معاً نظر ان کے مظلوم منہ پر پڑگئی جو حیرت سے کھلاہوا تھا۔ میں بہت نادم ہوا۔ لیکن قبل اس کے کہ کچھ اور کہوں انھوں نے اپنا ہاتھ میرے منہ پر رکھ دیا۔ پھر مجھے آرام کرنے کی تلقین کر کے منہ دھونے چلے گئے۔

میں یہ چارپائی اوڑھے لیٹا تھا کہ ان کی منجھلی بچی آنکلی۔ تتلا کر پوچھنے لگی:
”چچاجان! اکڑوں کیوں بیٹھے ہیں؟ “

بعد ازاں سب بچے مل کر اندھا بھینسا کھیلنے لگے۔ بالاخران کی امی کو مداخلت کرناپڑی۔
”کم بختو! اب تو چپ ہوجاؤ! کیا گھر کو بھی اسکول سمجھ رکھا ہے؟ “

چند منٹ بعد کسی شیرخوار کے دہاڑنے کی آوازآئی مگر جلد ہی یہ چیخیں مرزا کی لوریوں میں دب گئیں جن میں ڈانٹ ڈانٹ کرنیند کو آنے کی دعوت دے رہے تھے۔ چند لمحوں بعد مرزا اپنے نقش فریادی کو سینہ سے چمٹائے میرے پاس آئے اور انتہائی لجاجت آمیزلہجے میں بولے :

”معاف کیجئے! آپ کو تکلیف تو ہو گی۔ مگر منّو میاں آپ کی چارپائی کے لیے ضد کر رہے ہیں۔ انھیں دوسری چارپائی پر نیند نہیں آتی۔ آپ میری چارپائی پر سو جائیے، میں اپنی فولڈنگ چارپائی پر پڑ رہوں گا۔ “

میں نے بخوشی منو میاں کا حق منو میاں کو سونپ دیا اور جب اس میں جھولتے جھولتے ان کی آنکھ لگ گئی تو ان کے والد بزرگوار کی زبان تالو سے لگی۔

اب سنئے مجھ پر کیا گزری۔ مرزا خود تو فولڈنگ چارپائی پر چلے گئے مگر جس چارپائی پر مجھ خاص منتقل کیا گیا۔ اس کا نقشہ یہ تھا کہ مجھے اپنے ہاتھ اور ٹانگیں احتیاط سے تہ کر کے بالترتیب سینہ اور پیٹ پر رکھنی پڑیں۔ اس شب تنہائی میں کچھ دیرپہلے نیند سے یوں دو چشمی ہ بنا، یونانی پروقراط کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے پاس دو چارپائیاں تھیں۔ ایک لمبی اور دوسری چھوٹی۔ ٹھنگنے مہمان کو وہ لمبی چارپائی پر سلاتا اور کھینچ تان کر اس کا جسم چارپائی کے برابر کر دیتا۔ اس کے برعکس لمبے آدمی کو وہ چھوٹی چارپائی دیتا اور جسم کے زائد حصوں کو کانٹ چھانٹ کر ابدی نیند سلا دیتا۔

اس کے حدوداربعہ کے متعلق اتناعرض کر دینا کافی ہو گا کہ انگڑائی لینے کے لیے مجھے تین چارمرتبہ نیچے کودنا پڑا۔ کو دنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس کی اونچائی ”درمیانہ“ تھی۔ یہاں درمیانہ سے ہماری مراد وہ پست بلندی یا موزوں سطح مرتفع ہی، جس کو دیکھ کر یہ خیال پیدا ہو کہ:

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

گوکہ ظاہربین نگاہ کو یہ متوازی الاضلاع نظرآتی تھی مگر مرزا نے مجھے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ بارش سے پیشتریہ مستطیل تھی۔ البتہ بارش میں بھیگنے کے سبب جو کان آگئی تھی، اس سے مجھے کوئی جسمانی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ مرزا نے ازراہ تکلف ایک پائے کے نیچے ڈکشنری اور دوسرے کے نیچے میرا نیا جوتا رکھ کر سطح درست کر دی تھی۔ میرا خیال ہے کہ تہذیب کے جس نازک دور میں غیور مرد چارپائی پر دم توڑنے کی بجائے جنگ میں دشمن کے ہاتھوں بے گور و کفن مرنا پسند کرتے تھے، اسی قسم کی مردم آزار چارپائیوں کا رواج ہوگا۔ لیکن اب جب دشمن سیانے اور چارپائیاں زیادہ آرام دہ ہوگئے ہیں، مرنے کے اور بھی معقول اور باعزت طریقے دریافت ہوگئے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3