چارپائی اور کلچر


ایک محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ہاں ایک اوسط درجہ کے آدمی کی دو تہائی زندگی چارپائی پر گزرتی ہے۔ اور بقیہ اس کی آرزو میں! بالخصوص عور تو ں کی زندگی اسی محور کے گرد گھومتی ہے جو بساطِ محفل بھی ہے اور مونسِ تنہائی بھی۔ اس کے سہارے وہ تمام مصائب انگیز کر لیتی ہیں۔ خیرمصائب تو مرد بھی جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں مگر عورتیں اس لحاظ سے قابل ستائش ہیں کہ انھیں مصائب کے علاوہ مردوں کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ مئی جون کی جھلسادینے والی دوپہر میں کنواریاں بالیاں چارپائی کے نیچے ہنڈیا کلہیا پکاتی ہیں اور اوپر بڑی بوڑھیاں بیتے ہوئے دونوں کو یاد کر کے ایک دوسرے کا لہو گرماتی رہتی ہیں (قاعدہ ہے کہ جیسے جیسے حافظہ کمزور ہوتا جاتا ہے، ماضی اور بھی سہانامعلوم ہوتاہے! )

اسی پر بوڑھی ساس تسبیح کے دانوں پر صبح وشام اپنے پوتوں اور نواسوں کو گنتی رہتی ہے اور گڑگڑا گڑگڑا کر دعا مانگتی ہے کہ خدا اس کا سایہ بہوکے سر پر رہتی دنیا تک قائم رکھے۔ خیر سے بہری بھی ہے۔ اس لیے بہو اگر سانس لینے کے لیے بھی منہ کھولے تو گمان ہوتا ہے کہ مجھے کو س رہی ہوگی۔ قدیم داستانوں کی روٹھی رانی اسی پر اپنے جوڑے کا تکیہ بنائے اٹواٹی کھٹواٹی لے کر پڑتی تھی اور آج بھی سہاگنیں اسی کی اوٹ میں ادوان میں سے ہاتھ نکال کر پانچ انگلی کی کلائی میں تین انگلی کی چوڑیاں پہنتی اور گشتی نجومیوں کو ہاتھ دکھا کر اپنے بچوں اور سوکنوں کی تعداد پوچھتی ہیں۔

لیکن جن بھاگوانوں کی گود بھری ہو، ان کے بھرے پر ے گھرمیں آپ کو چارپائی پر پوتڑے اور سویاں ساتھ ساتھ سوکھتی نظرآئیں گی۔ گھٹنیوں چلتے بچے اسی کی پٹی پکڑ کر میوں میوں چلنا سیکھتے ہیں اور رات برات پائینتی سے قدمچوں کا کام لیتے ہیں۔ لیکن جب ذرا سمجھ آجاتی ہے تو اسی چارپائی پر صاف ستھرے تکیوں سے لڑتے ہیں۔ نامور پہلوانوں کے بچپن کی چھان بین کی جائے تو پتہ چلے گا کہ انھوں نے قینچی اور دھوبی پاٹ جیسے خطرناک داؤ اسی محفوظ اکھاڑے میں سیکھے۔

جس زمانے میں وزن کرنے کی مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی تو شائستہ عورتیں چوڑیوں کے تنگ ہونے اور مرد چارپائی کے بان کے دباؤسے دوسرے کے وزن کا تخمینہ کرتے تھے۔ اس زمانے میں چارپائی صرف میزان جسم ہی نہیں بلکہ معیار اعمال بھی تھی۔ نتیجہ یہ کہ جنازے کو کندھا دینے والے چارپائی کے وزن کی بنا پر مرحوم کے جنتی یا اس کے برعکس ہونے کا اعلان کرتے تھے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ہمارے ہاں دبلے آدمی کی دنیا اور موٹے کی عقبیٰ عام طورخراب ہوتی ہے۔

برصغیرمیں چند علاقے ایسے بھی ہیں جہاں اگر چارپائی کو آسمان کی طرف پائینتی کر کے کھڑا کر دیا جائے تو ہمسائے تعزیت کو آنے لگتے ہیں۔ سوگ کی یہ علامت بہت پر انی ہے گوکہ دیگرعلاقوں میں یہ عمودی ( 1 ) نہیں، افقی (__) ہوتی ہے۔ اب بھی گنجان محلوں میں عورتوں اسی عام فہم استعارے کا سہارا لے کر کوستی سنائی دیں گی۔ ”الٰہی! تن تن کوڑھ ٹپکے۔ مچمچاتی ہوئی کھاٹ نکلے! “ دوسرا بھرپور جملہ بددعا ہی نہیں بلکہ وقت ضرورت نہایت جامع و مانع سوانح عمری کا کام بھی دے سکتا ہے کیونکہ اس میں مرحومہ کی عمر، نامرادی، وزن اور ڈیل ڈول کے متعلق نہایت بلیغ اشارے ملتے ہیں۔ نیزاس بات کی سند ملتی ہے کہ راہی ملک عدم نے وہی کم خرچ بالانشین وسیلہ نقل وحمل اختیار کیا جس کی جانب میر اشارہ کر چکے ہیں :

تیری گلی سدا اے کشندہ عالم
ہزاروں آتی ہوئی چارپائیاں دیکھیں

قدرت نے اپنی رحمت سے صفائی کا کچھ ایسا انتظام رکھا ہے کہ ہر ایک چارپائی کو سال میں کم ازکم دو مرتبہ کھولتے پانی سے دھارنے کی ضرورت پیش آتی ہی۔ جو نفاست پسند حضرات جان لینے کا یہ طریقہ جائزنہیں سمجھتے وہ چارپائی کو الٹا کر کے چلچلاتی دھوپ میں ڈال دیتے ہیں۔ پھر دن بھرگھروالے کھٹمل اور محلے والے عبرت پکڑتے ہیں۔ اہل نظر چارپائی کو چولوں میں رہنے والی مخلوق کی جسامت اور رنگت پر ہی سونے والوں کی صحت اور حسب نسب کا قیاس کرتے ہیں (واضح ر ہے کہ یورپ میں گھوڑوں اور کتوں کے سوا، کوئی کسی کا حسب نسب نہیں پوچھتا) الٹی چارپائی کو قرنطینہ کی علامت جان کر راہ گیر راستہ بدل دیں دیں تو تعجب نہیں۔ حد یہ کہ فقیر بھی ایسے گھروں کے سامنے صدا لگانا بند کر دیتے ہیں۔

چارپائی سے پراسرار آوازیں نکلتی ہیں، ان کا مرکزدریافت کرنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا کہ برسات کی اندھیری رات میں کھوج لگانا کہ مینڈک کے ٹرانے کی آواز کدھر سے آئی یا کہ یہ تشخیص کرنا کہ آدھی رات کو بلبلاتے ہوئے شیرخوار بچے کے درد کہاں اٹھ رہا ہے۔ چرچراتی ہوئی چارپائی کو میں نہ گل نغمہ سمجھتا ہوں، نہ پردہ ساز، اور نہ اپنی شکست کی آواز! درحقیقت یہ آواز چارپائی کا اعلان صحت ہے کیونکہ اس کے ٹوٹتے ہی یہ بند ہو جاتی ہے۔ علاوہ ازیں ایک خودکار الام کی حیثیت سے یہ شب بیداری اور سحرخیزی میں مدد دیتی ہے۔

بعض چارپائیاں اس قدر چغل خورہوتی ہیں کہ ذرا کروٹ بدلیں تو دوسری چارپائی والا کلمہ پڑھتا ہوا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اگر پاؤں بھی سکیڑیں تو کتے اتنے زورسے بھونکتے ہیں کہ چوکیدارتک جاگ اٹھتے ہیں۔ اس یہ فائدہ ضرورہوتا ہے کہ لوگ رات بھر نہ صرف ایک دوسرے کی جان و مال بلکہ چال چلن کی بھی چوکیداری کرتے رہتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتائیے کہ رات کو آنکھ کھلتے ہی نظرسب سے پہلے پاس والی چارپائی پر کیوں جاتی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3