ٹیکسٹ بک کا استبداد


Karl Popper

اگر میں اپنے مضمون کا جائزہ لوں تو عجیب و غریب صورت حال سے واسطہ پڑتا ہے۔ مختلف فلسفیانہ مکاتب فکر اتنے ہی تنگ نظر ہیں جتنا کہ مذہبی یا نظریاتی گروہ۔ بیسویں صدی میں اگر اثرات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو کارل پوپر کا نام شاید سرفہرست ہو۔ اگر کوئی Citation Index دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ مختلف علوم میں جن فلسفیوں کا حوالہ دیا جاتا ہے، ان میں کارل پوپر کا نام سب سے اوپر ہے۔ ڈیوڈ ہیوم کے بعد پوپر ہے جس نے استقرائی منطق (Inductive logic ) پر سب سے موثر تنقید کی ہے۔ اس کی تنقید کے اثرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج کسی ابتدائی نصابی کتاب میں بھی یہ دعویٰ نہیں کیا جاتاکہ استقرائی استدلال منطقی صحت کا حامل ہوتا ہے بلکہ قوی اور ضعیف استقرا کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود وٹگنسٹائن کے ایک شاگرد نے استقرائی منطق پر کتا ب لکھی تو پوپر کا کہیں نام لینا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں فلسفے کے شعبوں پر وٹگنسٹائن کے پیروکاروں کا غلبہ ہو گیا اس لیے فلسفے کے نصابوں میں آج تک پوپر کو جگہ نہیں مل سکی۔ ترقی یافتہ دنیا کی کسی یونیورسٹی میں پوپر کے فلسفے پر کوئی کورس نہیں پڑھایا جاتا۔

تحلیلی فلسفے پر شائع ہونے والی ایک کتاب ( Companion to Analytic Philosophy, 2001) کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ فہرست مشمولات میں کارل پوپر کا نام دیکھ کر حیرت ہوئی مگر جن پروفیسر صاحب نے وہ مضمون لکھا تھا ان کا نام دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا کہ انہوں نے کیا لکھا ہوگا۔ پروفیسر موصوف لکھتے ہیں کہ اینگلو سیکسن معیار کے مطابق پوپر فلسفی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ پوپر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ اس بات سے انکار کہ سائنس دان استقرا پر عمل کرتے ہیں، بڑے حوصلے کی بات ہے۔ پروفیسر صاحب کو آکسفرڈ یونیورسٹی میں بیٹھ کر، پچاس برس بعد بھی یہ خبر نہیں ملی کہ زیادہ تر سائنس دان پوپر کی بات سے متفق ہو چکے ہیں۔ مدرسوں کی بات سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ عام پڑھے لکھے لوگ برٹرینڈ رسل کے بعد سب سے زیادہ پوپر کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ اس کی تمام تر کتابیں پیپر بیک میں دستیاب ہیں اور ان کے ایڈیشن مسلسل چھپ رہے ہیں۔

کچھ یہی حال معاشیات کے نصابات کا ہے۔ ابھی تک ہرجگہ کینز ( Keneys)کی معاشیات پڑھائی جا رہی ہے۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اپنے بزرگ دوست، شیخ صلاح الدین صاحب، کو میں نے ایف۔ اے۔ ہائک کی کتاب[ Law, Legislation and Liberty] مطالعہ کے لیے دی۔ کچھ ہفتوں کے بعد جب میں شیخ صاحب کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوا تو وہ بہت حیران تھے کہ انہوں نے معاشیات کے کئی پروفیسروں سے پوچھا مگر کسی کو اس کا نام بھی معلوم نہیں۔ واضح رہے کہ سنہ 1974 ء میں ہائک کو اقتصادیات کا نوبیل انعام دیا گیا تھا اور وہ فری مارکیٹ اکانومی کا علمبردار پہلا ماہر اقتصادیات تھا جو نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرا تھا مگر اکنامکس کی درسی کتابوں میں آج تک اس کا نام جگہ نہیں پا سکا ۔

david boehm

ہمارے ہاں بہت سے لوگ اس بات پر شکوہ کناں رہتے ہیں کہ مطالعہءپاکستان اور تاریخ کی کتابوں میں غلط باتیں پڑھائی جاتی ہیں۔ تاریخ اور معاشرتی علوم تو خیر ایسے مضامین ہیں جو ہر ملک میں اپنے سرکاری اور قومی موقف کی تائید میں پڑھائے جاتے ہیں۔ گزشتہ صدی کی شاید نوے کی دہائی میں امریکہ کے سکولوں میں ایک سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ طالب علموں کی کثیر تعداد اس بات سے بے خبر تھی کہ دوسری جنگ عظیم میں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم امریکی حکومت نے گرائے تھے۔ اس بات کو میں کسی جواز میں پیش نہیں کر رہا بلکہ صرف اس حقیقت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ یہ وہ معاملات ہیں جہاں معروضی حقائق کو ثابت کرنا ایک دشوار امر ہے۔ تاریخ کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ زیادہ تر درباری مصنفین نے لکھی ہے اور اپنے آقاؤں کی منشا کے مطابق لکھی گئی ہے یا پھر اس میں قومی مفادات کی پاسداری کی جاتی ہے۔ برٹرینڈ رسل کہا کرتا تھا کہ تاریخ ہمیشہ کسی دوسری قوم کے فرد کو لکھنی چاہیے۔ مگر تعصب کا مسئلہ تو شاید پھر بھی حل نہ سکے۔ ایک برطانوی کے لیے فرانسیسی یا جرمن کی لکھی ہوئی تاریخ قابل قبول نہ ہو گی۔ امریکہ میں تو شمال اور جنوب کے اختلافات ابھی تک موجود ہیں۔ جنوب کے مورخین ابراہام لنکن کو ہیرو تسلیم کرنے سے آج بھی انکاری ہیں۔ان کے نزدیک وہ ایک جمہوری رہنما کے بجائے ایک آمر تھا ۔

چنانچہ میرا موقف یہ ہے کہ تعلیمی نقطہ نظر سے ٹیکسٹ بک کی افادیت مشکوک ہے کیونکہ ہر ٹیکسٹ بک اپنے مضمون کی ایک غلط اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں مجادلہ افکار کہیں نظر نہیں آتا بلکہ مضمون کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے جہاں سب کچھ حتمی اور ثابت شدہ ہوتا ہے۔ ہر مضمون کی ٹیکسٹ بک اس مضمون کی اسٹیبلشمنٹ کی ترجمان ہوتی ہے۔ اس لیے جو لوگ خود کو نصابی کتابوں کے مطالعے تک محدود کر لیتے ہیں ان میں جدت فکر کے آثار کبھی نمودار نہیں ہوتے۔ ان کتابوں کے گمراہ کن اثرات کے بارے میں ناصر کاظمی کا کیا خوبصورت تبصرہ ہے کہ ”درسی کتابوں کی چھت کے نیچے تو آسمان بھی نظر نہیں آتا۔“ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کی ذہنی نشوو نما درست انداز میں ہو سکے اور وہ حیات اور کائنات کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور سمجھنے کے قابل ہو سکیں تو ہمیںان کے سروں سے درسی کتابوں کی چھت کو ہٹانا ہو گا۔ میں کتابوں پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں مگرمیرا خیال ہے کہ نصابی کتابوں کے قابل ضبطی ہونے میں کوئی ہرج نہیں ۔

اپنا تو بچپن سے وہ حال رہا ہے جسے یار عزیز باصر کاظمی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے:

ہم سے باصر کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شامل نصاب، کتاب


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
8 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments