سقوطِ ڈھاکہ اور ہمارا رویہ


پاکستانی قوم ہر سال 16 دسمبر کو وطن عزیز کے دو لخت ہونے کا سوگ مناتی ہے۔ اس سانحہ کو 48 برس بیت چکے ہیں لیکن ابھی تک سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی قوم کو اپنا تشخص اور وجود برقرار رکھنے کے لیے ناکامیوں اور غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سقوط ڈھاکہ پر بہت کچھ لکھاگیا۔ اس کی کئی وجوہات بیان کی گئیں۔ کتابیں لکھی گئیں۔ مقالے تحریر کیے گئے۔ تقریریں ہوئیں۔ ہر مصنف اور مقرر نے اپنی تفہیم کے مطابق اس کی وجوہات بیان کی ہیں۔

لکھنے والوں نے لکھا کہ ”پاکستان کو دولخت کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جنہوں نے ملک سے زیادہ پارٹی یا ذاتی مفادات کو ترجیح دی اور 3 مارچ 1971 ء کو ڈھاکہ میں بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنی پارٹی کے ارکان کو شریک نہ ہونے کی ہدایت کی جبکہ جنرل یحییٰ خان اور مجیب الرحمٰن کی ڈھاکہ میں ہونے والی ملاقات بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکی کیونکہ یحییٰ خان عدم مفاہمت کی صورتحال سے فائدہ اٹھاکراپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے تھے۔

بے یقینی کی ایسی صورتحال میں اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کا ملک دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو علیحدہ وطن کا جواز مہیا کیا ”۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس میں تین کردار سامنے آتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی۔ یہ تینوں کردار اپنے اپنے طور پر کامیاب ہوئے اور ناکامی ملک و قوم کے حصے میں آئی۔ اندرا گاندھی اس طرح کامیاب ہوئی کہ اس نے ملک پاکستان کے دو ٹکڑے کردیے۔

وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا جب میں نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنایا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو اس طرح کامیاب ہوئے کہ انہیں اپنے اپنے ملکوں میں اقتدار مل گیا۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے تو وہ اپنوں کی ہی سازشوں کا شکارتھی۔ اس وقت کے حالات یہ بتاتے ہیں کہ جمہوری اقدار کے مطابق اقتدار شیخ مجیب الرحمان کے پاس ہونا چاہے تھا مگر ذوالفقار علی بھٹو چھ نکات کی وجہ سے ان سے شدید اختلافات رکھتے تھے۔

یہی وجہ ہے انہوں ”ادھر تم“۔ ”ادھر ہم“ کا نعرہ بلند کر دیا۔ اب اس میں کتنی سچائی ہے اور کتنا جھوٹ ہے؟ اس سے کوئی سروکار نہیں، لیکن! آپ تاریخ پڑھیں، اس سانحہ میں غیروں کی سازش اپنی جگہ لیکن اس سے زیادہ اپنوں کے گھناؤ نے چہرے اور کردار سامنے آتے ہیں۔ یہاں صرف کسی ایک کوموردِ الزام ٹھہرانا تاریخ و حقائق سے بد دیانتی ہوگی۔

ہر سال اس موضوع پر گفتگو اور ٹاک شوز ہوتے ہیں کہ اس سانحہ کا اصل کردار کون تھا؟ اس سانحہ میں فوج کا کیا کردار تھا؟ کس کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا؟ جنرل نیازی نے ہتھیار کیوں ڈالے؟ بیرونی دباؤ تھا یا اندرونی سازشیں تھیں؟ اس سانحہ کے اسباب کیا تھے؟ وجوہات کیا تھیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں۔ اگرغیر جانبدارانہ طور پر جائزہ لیاجائے اس کی صرف اور صرف دو بنیادی وجوہات سامنے آتی ہیں۔ پہلی وجہ آپس کی لڑائی۔

اور دوسری وجہ ذاتی مفاد۔ ہر صاحب فہم اور صاحب بصیرت شخص اس بات کا اقرار کرے گا کہ بنیادی وجوہات یہی دو ہیں۔ باقی جتنی بھی وجوہات ہیں ’وہ سب اسی کے تحت آتی ہیں۔ حکمرانوں کی آپس کی جنگ نے غیروں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ ذاتی مفاد کے چکر میں قومی مفاد کا خون ہوا جس کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس دور میں معاملے کی حساسیت کو کسی نے نہیں سمجھا، بس جذباتی فیصلوں، اناپرستی، اندھی عقیدت اور ذاتی مفاد کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا۔

قیام پاکستان کے بعد بھارت کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ پاکستان کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹادیاجائے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو کم سے کم اس ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں۔ بھارت اپنی طاغوتی قوتوں کے ساتھ مسلسل پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے مقاصد میں کامیا ب ہوتا بھی نظر آ رہا ہے۔ اس نے ہمارے اندر پھوٹ ڈال کر ملک کو دو لخت کروایا۔ اب اس کی ناپاک نگاہیں کشمیر پر ہیں۔ اگر ہم نے سقوط ڈھاکہ سے عبرت اور سبق حاصل کیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی۔ بھارت ہمارے کشمیری بھائیوں کے گلے کاٹ رہا ہے، ہماری خواتین کی آبرو ریزی کر رہا ہے، ہمارے بچوں کو کاٹ کاٹ کر پھینک رہا ہے۔ لیکن ہم ایٹمی قوت ہونے کے باوجود اس سے امن اور صلح کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ اگر اب بھی ہم سنجیدہ نہیں ہوئے تو خدانخواستہ ہمیں ہر سال ”یومِ سقوطِ کشمیر“ نہ منانا پڑجائے۔

خدارا! ابھی بھی وقت ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے کوئی سانحہ ہو جانا اپنی جگہ لیکن اگر اس سانحے سے وہ قوم سبق حاصل نہیں کرتی اور اپنی غلطیوں کو پہچان کر انہیں درست نہیں کرتی تو یہ اصل سانحے سے بھی بڑا ایک سانحہ ہوتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آج بھی ہم اس کا رونا رو رہے ہیں، اور اس واقعہ سے سبق لینے کی کوشش نہیں کررہے۔ آج کشمیر کا معاملہ بھی بنگلہ دیش سے مختلف نہیں ہے۔ اگر آج بھی وہی غلطیاں دہرائی گئیں تو کشمیر بھی ہاتھ سے نکل جائے گا اور ہم وجوہات اور اسباب تلاش کرتے رہ جائیں گے۔

دوسرے لفظوں میں سانپ نکل جانے کے بعد اس کی لکیرپیٹتے رہ جائیں گے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ تاریخ سے سبق سیکھا جائے۔ قومی مفادات کو ذاتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔ ملک و قوم کی سلامتی کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں۔ زبانی باتیں بہت ہوگئیں، اب عملی اقدامات کیے جائیں۔ معاشرے کی ترقی اجتماعی مفاد میں پنہاں ہے۔ چاہے حکمران ہو یاکوئی بھی ہو، جب تک اجتماعی مفاد کو سامنے نہیں رکھے گا، کامیاب نہیں ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).