عوامی گزارشات


( 1 ) بنام وکلاء صاحبان
( 2 ) بنام ڈاکٹرز صاحبان
( 3 ) بنام صحافی صاحبان
( 4 ) بنام ارباب اختیار و اقتدار
( 5 ) بنام اساتذہ کرام
( 6 ) بنام معاشرہ

خدارا۔ بس کردو بس!

ابتدائیہ:

کسی انسانی معاشرے کی بنیادی فلاح و بہبود اور امن کا انحصار اس معاشرے کے چند با اختیار سرکردہ لوگوں و شعبوں کے غیرجانبدارانہ و منصفانہ کردار پر ہوتا ہے۔ انہی میں اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، صحافی، تاجران، عوامی نمائیندے اور انتظامی ادارے شامل ہیں جو عوام الناس کے ہمہ قسم مسائل میں مسیحائی کردار کے متقاضی ہوتے ہیں۔ خالصتاً ان سب کا کردار حقوق العباد کی معراج سے جڑا ہے۔

حالیہ تنازعہ:

گزشتہ روز ایک وکیل کا مریضہ کے ساتھ ہسپتال جانا، عمومی طرز عمل پر متعلقہ ہسپتال عملے کے ساتھ جھگڑا، بدنظمی و انتشار کی فضاء، معاملات کو سلجھانے کی کاوشیں۔ ینگ لائرز کی طرف سے معاملے میں غفلت برتنا۔ ویڈیو کو وائرل ہونا، وکلاء کا ہسپتال احتجاج کے لئے جانا، ڈاکٹرز وعملے کا پتھراؤ، ان سب عوامل کے باعث ہسپتال میں عوام الناس مریضوں کا دم توڑنا اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانا قابل افسوس و قابل مذمت اقدامات ہیں۔

( 1 ) بنام وکلاء صاحبان:

وکیل معاشرے میں انصاف کے مسیحا کی مانند ہوتا ہے حالیہ واقعہ میں متعلقہ بار نمائندگان کی غفلت، چند انتشار پسند وکلاء اور وکلاء کے کالے کوٹ میں مغموم مقصد کے حامل سیاسی و دیگر اوباش لوگوں کی وجہ سے ہسپتال دھاوے پر جو عوام الناس کوجانی و مالی نقصان ہوا اور وکلاء اور ڈاکٹرز کے پیشے کو لعن تعن کے ساتھ سوشل و دیگر میڈیا پر جس طرح اچھالا گیا وہ نہایت ہی المناک اقدام ہیں۔ ہمارے معاشرے میں وکلاء اپنے اتفاق کے باعث بہت زیادہ با اختیار سمجھے جاتے ہیں لیکن اتنی ہی اخلاقی ذمہ داری کی بھی توقع ہوتی ہے۔

چاہیے تو یہ تھا کہ متعلقہ ڈاکٹرز یا عملے کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جاتی یا ان کو نشانہ بنایا جاتا مگر ایسے ہسپتال پر اجتماعی حملہ بہت غیر مناسب عمل تھا۔ اس کے بعد چند میڈیا اینکرز کی طرف سے معاملے کو طوالت دینے کے باعث محض ان اینکرز کی بجائے ہر پوری صحافی برادری ک نشانہ بنانا اور بار داخلے پر پابندی بھی بہت غلط اقدام ہیں۔

بنام ڈاکٹرز صاحبان:

ڈاکٹرز بھی انسانیت کے لئے مسیحائی کردار کا حامل ہوتا ہے لیکن حالیہ تنازعے میں چند ینگ ڈاکٹرز و عملے کی طرف سے جو غیرسنجیدگی و انتشار کا مظاہرہ کیا گیا وہ بھی سراسر غلط اقدام تھے جو اس واقعے کے موجب بنے۔ جبکہ اس واقع کو متعلقہ سینئر ڈاکٹرز یا ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے پہلے ہی کنٹرول کرلیا جاتا تو کم ازکم انتشار کا عمل آگے نہ بڑھتا۔

بنام صحافی صاحبان:

صحافی معاشرے کی آنکھ و مظلوم کی آواز ہوتا ہے لیکن حالیہ تنازعے میں چند میڈیا اینکرز کی طرف سے شو ریٹنگ کو بڑھانے کے لئے ضرورت سے کہیں زیادہ اس معاملے کو تعمیری کی بجائے تنقیدی و انتشاری مرچ مصالحہ ڈال کے پیش کیا گیا جس کے باعث پوری صحافی برادری کو بے جا تنقید و پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔

جبکہ تنقید اگر ان چند عناصر پر تعمیری انداز میں غیرجانبدارانہ انداز میں کیے ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی۔

بنام ارباب اختیار و اقتدار:

کسی معاشرے کے ارباب اختیار و اقتدار ہی معاشرے کے معمار ہوتے ہیں لیکن حالیہ واقعے میں ان کی طرف سے بے حسی و لاپرواہی کے بدولت دونون فریقین کے درمیان افہام و تفہیم نہ ہوسکا جس کا نتیجہ عوام کو جان سے ہاتھ دھونے و عوامی املاک کو نقصان کے نتیجے میں ملا۔

بنام اساتذہ کرام:

اساتذہ کو قوم کے معمار کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اساتذہ کا کام انسانی معاشرے کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنا ہوتا ہے مگر حالیہ تنازعے میں تعلیمی ڈگری تو نظر آئی مگر وہ تربیت کا فقدان ملا کہ جس کی توقع کی جاتی ہے تو اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں و اخلاقیات و انسانیت کا درس لازمی دیں تاکہ ایک اچھے انسان ثابت ہوں۔

بنام معاشرہ:

معاشرے کی تعمیر وترقی عوامی سوچ و روئیوں پر منحصر کرتی ہے جیسا کہ حالیہ تنازعے و پچھلے کئی واقعات میں عوام اپنی سوچ یا تعمیری یا مثبت سوچ کی بجائے بھیڑ چال کا شکار ہوکر ہر معاملے کی نزاکت جانے بنا اپنے معاشرے میں، سوشل میڈیا پر اور دیگر پلیٹ فارمز پر کافی غیرسنجیدہ نظر آتی ہے جبکہ ہمیں بحثیت قوم اجتماعیت کو ملحوظ خاطر رکھ کر ایک اچھے انسان کا نمونہ پیش کرنا چاہیے۔

قصہ مختصر:

تمام درج بالا شعبہ جات سے گزارش ہے کہ معاشرے کو ہمہ قسم گردیِ آلود سے بچائیں اور معاشرے میں نکھار لانے کی بجائے زنگ آلود مت کریں۔ معاشرے کی تعمیروترقی آپ سب کے مثبت کردار و سوچ پر منحصر کرتی ہے۔ عدم برداشت، نا انصافی، ظلم سے معاشرے کو پاک رکھیں اور آپ سب کی لاپرواہی، انا کا نتیجہ بیچارے غریب عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ خدارا اب بس کردیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).