وہ بچہ جیل سپرنٹینڈنٹ بننا چاہتا ہے


انسان آزاد پیدا ہوا ہے قید کی زندگی موت سے کم نہیں کبھی کسی پولیس وین کا سٹرک سے گزر ہو تو اس وین سے اٹھنے والی عجیب آوازیں حتی کہ قہقے بھی خوف میں مبتلا کردیتے ہیں۔ ہنسی کی آواز سے جرائم کی کراہت محسوس ہوتی ہے۔ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ اشارے پر کھڑی گرین سگنل کا انتظار کر رہی تھی کہ کچھ دیر بعد ایک پرانی سی پولیس وین ساتھ آن کھڑی ہوئی۔ اوپری حصے سے ہاتھ کی انگلیاں سلاخوں سے باہر نکالے اور گھورتی آنکھوں سے باہر کے مناظر دیکھ کرعجیب کھلبلی مچاتے ”، قیدیوں کی باتوں کی آواز اور پھر باہر کی عوام پر آواز کسنا۔

اچانک سے آواز آئی دیکھو آوے کوری گڈی چلا رہی آوے میم آوے میم۔ میں نے آس پاس دیکھا کچھ نظر نہیں آیا پھر پولیس وین کی جانب نظر گئی دیکھا تو کچھ گھورتی آنکھیں اشارے کر رہی تھیں اور آواز یں کسنے کے بعد قہقے لگا رہے تھے اشارہ کھلا پولیس وین کچھ آگے نکلی مگر ان کا شور مسلسل کانوں میں گونج رہا تھا۔ مجھے ان کی کسی بات سے اذیت نہیں پہنچی کیونکہ میں اس وقت بھی ان کی زندگی کی کہانیاں سوچ رہی تھیں کہ یہ کیسے دن رات گزارتے ہوں گے یا کیسے قید میں سانس لیتے ہوں گے۔

اس سارے قیصے کو بتانے کا مقصد کسی قیدی کی آب بیتی بتانا ہے۔ لاہور کی جیل میں پانچ سال قبل ایک نوبیاہتا جوڑا اغوا برائے تاوان کے کیس میں گرفتار کیا گیا۔ 7 سے 8 ماہ کیس چلا اور ان کو سزا ہوگی۔ میاں بیوی نے والدین کا اکلوتا بچہ اغوا کرکے اس کے والدین سے رقم وصول کی بعد میں گرفتار ہو گئے۔ ثمینہ بی بی کی شادی کو کچھ عرصہ ہوا تھا اور جب وہ جیل آئی تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہے۔ دوران قید اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔

بچے کا نام جیل انتظامیہ نے احسن رکھا احسن اپنے والدین کے ساتھ ہی جیل میں رہا ایک سال تک والدہ کے ساتھ کال کوٹھری کی زندگی گزاری پھر جیل کے اندر ہی قائم کیئر سنٹر میں چلا گیا۔ ہر جمعہ کے روز جیل سپرنٹینڈنٹ اس کو والدین سے ملاقات کرواتا اور وہیں پر اس بچے کی تعلیم وتربیت کا خیال رکھا جانے لگا وہاں اس کے اور کئی ساتھی دوست موجود تھے۔ وہاں کسی کو معلوم نہیں کہ جیل ہے یا گھر۔ زیادہ تر بچوں کے لیے جیل ہی گھر تھا کیونکہ کبھی باہر کی دنیا یا گھر نہیں دیکھا۔

پانچ سال کی عمرمیں احسن کو پنجاب کے ادارے چائلڈ بیورو نے اپنی تحویل میں لیا۔ اور وہ یہاں بچوں کے ساتھ رہنے لگا۔ حیرت کی بات کہ احسن نے پانچ سال میں پہلی بار سورج آسمان اور دن کی روشنی دیکھی اور ان چند افراد کے علاوہ جب اس نے باہر اتنے لوگ دیکھے تو وہ گھبرا گیا کہ وہ کس دنیا میں آگیا۔ اس کے لیے گاڑیاں، سڑکیں شور اور بازار سب کچھ نیا تھا جیسے ابھی اس دنیا میں پہنچا ہوا۔ احسن سے ملاقات ہوئی ہنستا مسکراتا بچہ ہر بات پر مسکرا کر جواب دیتا۔

اس کا انٹرویو لیا۔ آپ کہاں رہتے تھے؟ جواب ملا میں سپرنٹنڈنٹ کے گھر تھا۔ وہاں اور بھی بچے تھے میرے دوست تھے سارے۔ سپرنٹنڈنٹ کون ہے احسن؟ یہ وہ ہی بابا ہمارے؟ وہ جو ہمیں امی ابو سے ملوانے لے جاتے ہیں؟ آپ امی ابو کو یاد کرتے ہو جواب حیران کر دینے والا ”، نہیں مجھے نہیں یاد آتے“ امی سے ملنا ہے اپکو؟ جمعہ کو ملتا ہوں۔ آج یہ بتاؤ چائلڈ بیورو میں آکر کیسا لگا یہاں رہنا چاہتے ہو؟ اچھا ہے مگر سپرنٹینڈنٹ کے گھر جانا ”“ وہاں کیا ہے اپکو معلوم ہے کہ یہاں بہت سے لوگ ہیں دوست ہیں کھانے پینے کی چیزیں ہیں اور آپ سکول بھی جاوگے۔

اچھا یہ سب کدھر ہیں۔ جدھر آپ آئے ہو۔ لیکن یہ بھی تو سپرنٹینڈنٹ کے گھر جیسا ہے۔ نہیں وہ جیل کے اندر تھا اور یہ جیل کے باہر۔ یہاں سب کچھ آزاد ہے آپ کہیں بھی جا سکتے ہیں، باہر کھیل سکتے ہیں۔ باہر کیا ہے۔ احسن معصومیت سے سوال پوچھے جا رہا تھا اور مجھے احساس ہورہا تھا کہ جیسے کسی دوسری دنیا کا کوئی فرد پہلی بار اس زمین پر اترا ہو۔ آخری سوال جاننا چاہا کہ یہ بتاؤ بڑے ہو کر کیا بنو گے؟ پھر جواب ملا سپرنٹینڈنٹ ، آپ سپرنٹنڈنٹ کیوں بنانا چاہتے آپ ڈاکٹر بھی بن سکتے مگر وہ بضد تھا کہ سپرنٹینڈنٹ بننا ہے۔

اس چھوٹی سے ملاقات اور گفتگو میں یقین مانیں میں نے ایک درد ناک قید اذیت اور خاموشی محسوس کی اور اس کے ساتھ یہ بھی اندازہ ہوا کہ آپ جس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں آپ ویسا ہی محسوس کرتے اور ایسا ہی بننا چاہتے ہیں۔ احسن نے پہلی بار قید کی زندگی سے نکل کر دوسری قید میں قدم رکھا۔ عام بچوں سے بہت مختلف زندگی ہوتی ہے ان بچوں کی۔ نہ کوئی ناز نخرہ اٹھانے والا اور نہ ماں باپ جیسا پیار کرنے والا۔ بچہ کم عمری میں ہی اپنے اندر کچھ بننے کا جذبہ رکھتا ہے۔

آزادی ہزار نعمت ہے اور اس نعمت کی قدر وہی جانتے ہیں جو قدرت کی نعمتوں کو جی سکتے اور محسوس کرسکتے۔ حقیقت چھوٹے چھوٹے جرائم کی پاداش میں بہت سے لوگوں کی زندگیاں قید خانہ کی طرح خالی اور خوفناک ہوجاتیں ہیں۔ مگر کچھ رویے بہت اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ جیسا کہ احسن کی کہانی سپرنٹنڈنٹ کے گرد گھومتی کیونکہ اس نے اپنے آس پاس سب سے زیادہ محفوظ اور بہتر انسان سپرنٹنڈنٹ کو پایا اور ہوسکتا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ کے رویے سے اس کو واقعی اپنائیت ملی ہو اور وہ ایسا بن کر کچھ اچھا کرنے کی چاہ رکھتا ہو۔ بہرحال قید کی زندگی انسان کے سب رنگ روپ کھا جاتی ایک جیتے جاگتے انسان کو اپاہج کردیتی ہے۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ جیو اور جینے دو تاکہ آپ کے لخت جگر دنیاوی عداوتوں سے بچ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).