پروفیسر واجب اصلاحی کی ادبی خدمات


پروفیسر واجب اصلاحی بھی کیا خوب شخص ہیں۔ ہر وقت قوم کی اصلاح کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ طبقاتی تقسیم کے شدید مخالف ہیں، خاص طور پر تحریر کے معاملے میں۔ اس بات کے مبلغ ہیں کہ تحریر عوامی ہونی چاہیے اور سب کی سمجھ میں آنی چاہیے۔ طنز کے متعلق بھی ان کا یہی نظریہ تھا۔ کہتے تھے کہ طنز ایسا ہونا چاہیے جو کہ پلے گروپ کے بچے سے لے کر ایک ریٹائرڈ پروفیسر تک کی سمجھ میں آ جائے۔ اس باب میں مارک ٹوین کے ایک مشہور طنزیہ جملے کی مثال دیتے تھے کہ ”میں جنازے میں شریک نہیں ہوا، مگر میں نے ایک خط بھیجا ہے کہ بہت اچھا ہوا“ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ ایک جاہل کو بھی صاف دکھائی دیتا ہے کہ مصنف خود پر طنز کر رہا ہے کیونکہ وہ جنازے میں گئے بغیر ہی کیسے جان سکتا ہے کہ جنازہ اچھا ہوا تھا یا نہیں۔ یہ ہوتا ہے عام فہم طنز۔

پروفیسر صاحب نے بہت سادہ طبیعت پائی ہے۔ ایک مرتبہ لاہور میں اپنی کالج لائف کا ذکر کر رہے تھے۔ اس زمانے میں نئے نئے کالج میں گئے تھے۔ موٹرسائیکل پاس تھی اور اسی پر کالج آتے جاتے تھے۔ شہر میں گرد و غبار تو بے تحاشا ہے اور موٹرسائیکل پر آدمی کچھ دیر میں ہی بھوت بن جاتا ہے، مگر اس عمر میں موٹرسائیکل چلانے کا جو مزا ہے، وہ ان معمولی باتوں کو کہاں خاطر میں لاتا ہے۔ جیسا کہ اس زمانے میں عام رواج ہوا کرتا تھا، کسی دن لڑکے بالے کتاب کی دنیا سے ہٹ کر فطرت کا مطالعہ کرنے پر مائل ہوتے تھے تو تین چار لڑکے مل کر اس دنیا کو دیکھنے نکل جاتے تھے جو کہ عام طور پر نزدیکی گرلز کالج کا گیٹ ہوا کرتی تھی۔

یہ حضرت بھی اپنے چار دوستوں کے ساتھ چھٹی کے وقت دنیا دیکھنے جانے لگے۔ پہلے دن ہی وہاں خوبصورت و شوخ و چنچل لڑکیوں کا ایک گروہ کھڑا دکھائی دیا۔ وہاں سے ایک صدا بلند ہوئی ”کیا چاند سی صورت نکل آئی ہے موٹر سائیکل پر میرے ہیرو کی“۔ چار میں سے ایک دوست فوراً اپنی موٹرسائیکل دوڑا کر لے گیا۔ کچھ دیر بعد واپس پلٹا تو لگتا تھا کہ کہیں سے منہ دھو کر اور بال بنا کر آیا ہے۔ اگلے دن وہ اس ڈیوٹی پر شیشہ بند ہیلمٹ پہن کر آیا تھا جو کہ اس نے گیٹ پر جا کر ہی اتارا۔ سب دوستوں نے اس کا خوب مذاق اڑایا کہ ہیلمٹ بھلا کون لڑکا پہنتا ہے مگر اس نے پروا نہ کی۔

لڑکیوں نے اسے نظرانداز کر کے باقیوں کو دیکھا اور پھر صدا بلند کی ”کیا چاند سی صورت نکل آئی ہے میرے ہیرو کی“۔ اگلے دن ایک دوسرا لڑکا بھی ہیلمٹ پہن کر ڈیوٹی پر حاضر ہوا۔ ان دو کو لڑکیاں نظرانداز کر کے بقیہ دو لڑکوں پر اپنی توجہ مبذول کر کے یہی بات کہتی رہیں۔ ایک ہفتے بعد تیسرا لڑکا بھی ہیلمٹ پہننے لگا اور اب لڑکیوں کی توجہ کا مرکز صرف پروفیسر صاحب ہی بننے لگے۔ کچھ دن میں باقی تین لڑکے تو غائب ہو گئے اور تین شریر لڑکیاں بھی غالباً اپنی چھچھوری حرکت پر پشیمان ہو کر گیٹ سے غیر حاضر ہونے لگیں اور باقی پورے گروہ کی توجہ کا مرکز اکیلے اصلاحی صاحب ہی بن گئے۔ پروفیسر واجب اصلاحی آج تک حیران ہیں کہ یہ تین لڑکے ان شریر لڑکیوں کی تعریف سے گھبرا کر بھاگ کیوں نکلے تھے۔ یہ تو کوئی مردانگی نہ ہوئی۔ ہوا سے اڑے اڑے سے گرد آلود بالوں اور کالے پڑے چہرے میں ان لڑکیوں کو بے انتہا حسن و جمال دکھائی دیتا تھا، تو اصلاحی صاحب ہی کی طرح نظر لگنے سے بچنے کی خاطر گیٹ سے واپسی پر روزانہ مرچوں کی دھونی لی جا سکتی تھی، اس طرح بھاگ نکلنے کا آخر کیا مطلب تھا؟

پروفیسر واجب اصلاحی صاحب نے شماریات کی فیلڈ چنی۔ فرماتے تھے کہ بندے پر صرف اپنی درسی کتب، یا حد سے حد صرف اپنی فیلڈ کی کتب پڑھنا واجب ہے۔ باقی مطالعے سے احتراز کرنا چاہیے۔ آج کل بھلا کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ شاعری، افسانے یا ناول پڑھتا پھرے۔ زندگی بھر اپنے اس قول پر قائم رہے۔

تحریر کے متعلق ان کا ایک خاص نظریہ تھا۔ فرماتے تھے کہ تحریر ایسی ہونی چاہیے جو کہ سب کو سمجھ آ جائے۔ وہ محض تصوراتی باتیں کرنے والے گفتار کے غازی ہی نہیں تھے بلکہ اپنے کہے پر عمل بھی کرتے تھے۔ تعلیم مکمل کرتے ہی ایک قریبی سکول میں استاد کی ملازمت اختیار کی۔ سکول میں پلے گروپ، نرسری اور پریپ سے لے کر ایف اے تک کے طلبا پڑھتے تھے۔ انہیں میٹرک کے طلبا کو پڑھانے پر مامور کیا گیا۔ پہلے ہفتے تو وہ سب کچھ برداشت کرتے رہے، مگر ایک دن پرنسپل کو پکڑ کر اس کی غلطیاں واضح کر دیں۔

کہنے لگے کہ کتاب ایسی ہونی چاہیے جو کہ پورے سکول کے سب بچوں کی سمجھ میں آ جائے۔ یہ درجہ بندی اور خواص کے لئے ہی لکھنے کی بھلا کیا تک ہے؟ پرنسپل تھا ایک کٹ حجتی، کہنے لگا کہ دیکھیں اصلاحی صاحب میٹرک کی کتابیں میٹرک کے تمام طلبا کے لئے لکھی جاتی ہیں۔ آپ ان کو ان کا مضمون سمجھائیں۔ پھر بھی ان میں سے بہت سے امتحان میں برے نمبر لیں گے یا فیل ہی ہو جائیں گے۔ تو پھر ایسی کتاب کیسے ہو سکتی ہے جو تین سال سے لے کر سترہ سال تک کے بچے کی سمجھ میں آ جائے۔ ایک بات ہر ایک عمر اور مختلف ذہانت رکھنے والے افراد کے گروہ کو بیک وقت سمجھانا کیسے ممکن ہے؟ آپ کے پاس یہ بیس طلبا ہیں، ان کی کتاب ان کے لیول کے مطابق لکھی گئی ہے، پھر بھی آپ کو ان میں سے بعض کو بار بار سمجھانا پڑ جاتا ہے۔ اسی طرح ایف اے کی کتب کو آپ پانچویں کے بچوں کو نہیں سمجھا سکتے۔

پروفیسر واجب اصلاحی صاحب دھیرے سے مسکرائے، کہنے لگے کہ ایگزیکٹلی۔ یہی بات تو میں بتا رہا ہوں۔ کتاب ایسی آسان ہونی چاہیے کہ ہر ایک کی سمجھ میں آسانی سے آنے لگے۔ آپ کہیں تو آپ کو یہ ثابت کر کے دکھا سکتا ہوں کہ یہ ممکن ہے۔ پرنسپل نے اجازت دی۔ اگلے دن اسمبلی میں پروفیسر واجب اصلاحی صاحب نے پلے گروپ سے لے کر ایف اے تک کے بچوں کو جب صوفی غلام مصطفی تبسم کی شہر آفاق کتاب جھولنے پڑھ کر سنائی تو سب بچے خوب خوش ہوئے اور تالیاں پیٹنے لگے۔ پرنسپل خفیف ہو کر رہ گیا اور پروفیسر صاحب کی کامیابی سے اس حد تک جھلایا کہ ان کو اسی وقت ملازمت سے فارغ کر دیا۔ کئی لوگوں میں ہار کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا ہے۔

پروفیسر واجب اصلاحی صاحب کو شاعری پسند تھِی اور صوفی غلام مصطفی تبسم کو اردو زبان کا سب سے بڑا شاعر قرار دیتے تھے۔ ایک مرتبہ فیض مرحوم سے ملاقات ہوئی تو برملا کہہ دیا کہ ”فیض صاحب، یہ آپ کیا شاعری کرتے ہیں جو کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آتی۔ چند مخصوص لوگوں کے لئے شاعری کرنے کا کیا فائدہ؟ ہر طبقے اور تعلیم کے لوگ آپ کو پڑھتے ہیں۔ آپ کو ایسی شاعری کرنی چاہیے جو ان پڑھ ٹیکسی والے سے لے کر پی ایچ ڈی شخص تک سب کی سمجھ میں آئے۔ اب بھلا یہ کیا مضمون باندھا ہے آپ نے کہ چلے تو کوہ گراں تھے ہم، رکے تو جاں سے گزر گئے؟ آپ نے رکنے اور چلنے پر ایسی لاجواب شاعری دیکھنی ہو جو کہ سب کی سمجھ میں آئے تو پھر ٹوٹ بٹوٹ کی موٹر کار کے پائے کی شاعری کیا کریں جسے کوئی بھی ٹیکسی ڈرائیور اور کوئی بھی پی ایچ ڈی سمجھ سکتا ہے“۔ فیض صاحب اپنے مخصوص انداز میں ہنکارا بھر کر رہ گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن پایا۔

فیض صاحب ایک مشہور اخباری ایڈیٹر بھی تھے۔ جب وہ شاعری کے مسئلے پر لاجواب ہو گئے تو پروفیسر واجب اصلاحی صاحب نے ان کی توجہ اخبار کی طرف دلائی۔ کہنے لگے کہ اخبار کو ملک کا ہر طبقہ پڑھتا ہے۔ اس لئے اس کے تمام مضامین ایسے ہونے چاہئیں جو کہ ہر شخص کی سمجھ میں آ جائیں۔ اب آپ کے ناقص اخبار میں ایک طرف ایک معیشت دان ادق معاشی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے ایک معاشی نظریہ بیان کر رہا ہے۔ دوسری طرف اسلامی صفحے پر ایک عالم دین ایک پیچیدہ مذہبی مسئلہ بیان کر رہا ہے۔ تیسری جانب ایک صاحب اقبال کی شاعری پر مضمون لکھ رہے ہیں۔ اخبار تو بس ایسا ہونا چاہیے کہ ننھا منا بچہ اور ٹیکسی ڈرائیور تک اس کے تمام مضامین کو دلچسپی سے سمجھ کر پڑھ سکے۔ اخبار تو خاص و عام کے لئے ہے تو اس میں بعض ایسے مضامین کیوں شائع کیے جاتے ہیں جو کہ صرف خواص ہی پڑھتے ہیں؟ خواص کے لئے لکھنا ہے تو کتاب لکھی جائے۔ مگر اس میں بھی خیال رکھا جانا چاہیے کہ ایسی کتاب ایسے کتب فروشوں کو فروخت کے لئے رکھنے کی اجازت نہ دی جائے جو کہ عام افراد کو بھی کتب فروخت کرتے ہیں۔ فیض صاحب نے مزید ایک ہنکارا بھرا مگر اس منطقی بات کا جواب ان کے پاس نہیں تھا۔

پروفیسر صاحب نے فیض صاحب کو اس طرح مسلسل لاجواب پایا تو کہنے لگے کہ ”آپ اخبار میں اقبال کی شاعری شائع کرتے ہیں۔ پہلے روزنامہ زمیندار اور انقلاب وغیرہ بھی کرتے رہے ہیں۔ اب بھلا اقبال کو ایسی شاعری کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس کی تشریح کے لئے اقبالیات کا ایک پورا مضمون ہی بنانا پڑ گیا ہے؟ وہ عوام کے لئے شاعری کرتے تھے تو ان کو ایسی شاعری کرنی چاہیے تھی جو ہر طبقے کی سمجھ میں آ جاتی۔ وہ ٹوٹ بٹوٹ جیسی نظمیں کیوں نہیں لکھتے تھے۔ آخر آپ اقبال کو کیوں اخباروں میں شائع کرتے ہیں؟ فیض صاحب، کیا صوفی غلام مصطفی تبسم صاحب سے آپ کی جلن کی یہ وجہ ہے کہ وہ آپ سے بہتر شاعر ہیں؟“ فیض صاحب نے اس مرتبہ ہنکارا نہیں بھرا۔ شکست خوردہ انداز میں تاسف سے سر ہلاتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے۔ غالباً ان کو احساس ہو گیا تھا کہ کس بلا کے غنیم سے ان کا مقابلہ ہے اور وہ اس سے یہ علمی بحث جیت نہ پائیں گے۔

طنز کے متعلق پہلے بھی بات ہو چکی ہے۔ پروفیسر واجب اصلاحی صاحب اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔ بتاتے تھے کہ کسی علمی موضوع، مثلاً سائنس، سوشیالوجی، نفسیات، شماریات، تعلیم، سماجیات، عمرانیات، شاعری، نثر، وغیرہ وغیرہ کو طنز کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ جس موضوع پر چاہے طنز لکھ دیا جائے۔ ایک گر کی بات اور وہ بتاتے تھے کہ طنز میں تضحیک کا پہلو نہیں ہونا چاہیے۔ مقابل کی عزت نفس کا پورا پورا خیال رکھا جانا چاہیے۔

ویسے تو ان کے دل میں پورے جہاں کا درد تھا اور ہر ایک کی اصلاح کرنے کے قائل تھے، مگر راقم الحروف سے وہ خاص شفقت فرماتے تھے۔ اکثر بتاتے تھے کہ تحریر کا لازمہ یہ ہے کہ اس میں تہذیب کا دامن نہ چھوڑا جائے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ خفقان صاحب، آپ پٹھان ہو کر بھی کمال کی نثر لکھتے ہیں۔ عرض کیا کہ یہ لفظ خان ہے، خفقان نہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ان کا بچپن کا لنگوٹیا دوست بھی پٹھان ہے، وہ کیونکہ اسے خان کی بجائے خفقان کہتے ہیں تو اس لئے وہ تمام پشتونوں کو خفقان کہنا ہی مناسب جانتے ہیں اور اس میں ناراضگی والی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کا بچپن کا دوست تو خفقان کہنے پر نہایت خوش ہوتا ہے۔ ہم ان کی شخصیت پر بچپن کے اثرات کے مزید قائل ہو گئے۔ بلاشبہ جو شخص بھی بچپن کی دوستی کا ایسا خیال رکھتا ہے کہ اس سے ہٹ کر کچھ سوچ ہی نہیں سکتا، اس کی تو بہت عزت کرنی پڑتی ہے۔

وہ راقم الحروف کی تحریر کے شدید ناقد تو تھے، مگر انصاف کا دامن ہاتھ سے ہرگز بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ جہاں ان کو کچھ اچھا لگتا تھا، برملا تعریف کرنے میں نہیں ہچکچاتے تھے۔ ایک مرتبہ فیس بک پر ایک کمنٹ میں تعریف کی کہ ”زیادہ تر کو آپ کی یہ بات سمجھ ہی نہیں آئی۔ ہاں آپ کی جماتیوں پہ لکھی وہ کیک کاٹنے والی تحریر بہت اچھی تھی۔“ خاکسار نے ان کا شکریہ ادا کیا، مگر وہیں موجود ایک دوست جو کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھتے ہیں، نہ جانے کیوں چراغ پا ہو گئے۔ اگر ان حضرت کو کیک پسند نہیں ہے تو اس میں پروفیسر واجب اصلاحی صاحب کا بھلا کیا قصور ہے؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments