مشال خان ہو یا سید طفیل الرحمن، اصل خرابی تشدد کو جائز سمجھنا ہے


”آج بروز جمعرات بتاریخ 12 دسمبر 2019 کو لادینیت کے پرچارک طلبہ کے غنڈوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام میں اسلامی جمعیت طلبہ کے“ کتاب میلہ ”پروگرام کے اختتامی نشست کے موقعے پر اچانک مسلح حملہ کر کے میرے سب سے چھوٹے، والدین اور بہن بھائیوں کے“ دلارے ”پیارے سید طفیل الرحمن ہاشمی کو“ شھید ”اور دوسرے متعدد طلبہ کو شدید زخمی کردیا۔ میں اسلام آباد سے دور“ گلگت ”میں اپنے پیارے کی شھادت کی خبر تقریباً ساڑھے نو بجے فیسبک میں دیکھ لیا اور اپنے اوسان پر مکمّل قابو رکھتے ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون کہ کر گھر والوں کو یہ خبر جانکاہ سنائی۔

میں اپنے لاڈلے بیٹے کی شھادت کا اپنے مرشد سید مودودی رح کے اتباع میں اللہ تعالی کے ہاں ایف۔ آئی آر درج کرتے ہوئے اللہ تعالی ہی کے حضور درج کر رہا ہوں۔ اللہ تعالی خود ان سفاک، ظالم قاتلوں سے نمٹے ”انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ۔

میں جماعت اور جمعیت کے دوستوں اور سر براھان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ جنھوں نے ٹیلیفونک رابطہ کرکے مجھے تسلیوں اور دعاؤں سے نوازا۔ ان میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے جماعتی اور جمعیتی اعلیٰ قیادتیں شامل ہیں۔ جزاھم اللہ خیرا

کل صبح، دس بجے محترم سراج الحق صاحب کی امامت میں نماز جنازہ ادا ہونے کے بعد ”شھید“ کی جسدِ خاکی پہلے گلگت اور پھر میرے گاؤں پکورہ تحصیل اشکومن بھیجا جائے گا۔ ۔ اللہ تعالی ہم سب کو ”صبر کی“ تو فیق عطا فرمائے آمین؟ (احباب تعزیت کے لئے میرے گلگت والے گھر آنے کی زحمت نہ کریں۔ کیوں کہ ہم لوگ صبح سات بجے گاؤں روانہ ہوں گے ”

عبد الجلال سید صاحب اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد میں چند دن قبل قتل ہونے والے بدقسمت طالب علم سید طفیل الرحمن مرحوم کے والد ہیں۔ اوپر دی گئی تحریر ان کا فیس بک سٹیٹس ہے جو انہوں نے اپنے نوجوان بیٹے کے قتل کی خبر سن کر لکھا۔ اس کو ہم نے زبان درست کیے بغیر مضمون میں شامل کر دیا ہے۔

یونیورسٹی کے اندر تشدد کے اس واقعے، ایک نوجوان کے قتل اور کچھ نوجوانوں کے زخمی ہونے پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔ ایک نوجوان آدمی کی جان چلی گئی اور اس نقصان کو پورا کرنا ناممکن ہے۔ میں عبد الجلال سید صاحب کے دکھ کو سمجھ سکتا ہوں اور ان سے تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔ انہوں نے بے پناہ حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کو اور زیادہ طاقت دے اور ان کے دکھ میں کمی لائے۔

ہم کب تک اپنے بچوں کے قتل کی خبریں سن کر بڑے حوصلے کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔ اس ناقابل برداشت دکھ سے ہمارا چھٹکارا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

تو سب سے پہلے تو یہ بات ماننے کی ضرورت ہے کہ ہمارے بچے تشدد کا شکار ہو رہے ہیں۔ اگر تشدد نہ ہو تو تعلیمی اداروں میں ہمارے نوجوانوں کی جانیں یوں سستے میں نہ جائیں۔ اگر تشدد ختم ہو جائے تو کسی والد یا والدہ کو اپنے پیارے کے متعلق یہ جان لیوا خبر نہ سننی پڑے۔

سید طفیل الرحمن پر گولیاں چلانے والے اور مشال خان پر پتھر برسانے والے پر تشدد لوگ ہی صرف مجرم نہیں ہیں بلکہ ان جرائم میں وہ تمام لوگ، وہ تنظیمیں اور وہ آئیڈیولوجیز بھی شریک ہیں جو تشدد کو کسی نہ کسی صورت میں جائز قرار دیتی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پیارے نوجوان ہمارے لخت جگر اس طرح کے پر تشدد واقعات کا شکار نہ ہوں تو اس کے لیے لازم ہے کہ ہمیں تشدد کو ناجائز قرار دینا ہو گا۔

ہمیں یہ ماننا ہو گا اور اعلان کرنا ہو گا کہ تشدد کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔ اگر ہم نے تشدد کے لیے کسی ایک وجہ کو بھی جائز قرار دیا تو پھر یہ بدقسمتی ہمارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گی۔

طلبہ تنظیموں کو اگر تشدد سے پاک کرنا ہے تو ہمیں اپنی آئیڈیولوجی پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنی ہو گی اور دیکھنا ہو گا کہ ہماری آئیڈیولوجی میں تشدد کی گنجائش تو نہیں نکل رہی۔ ہمارا تجربہ یہ کہتا ہے کہ بدقسمتی سے ساری طلبہ تنظیمیں تشدد میں شامل رہی ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کچھ طلبہ تنظیموں کی تشدد میں شمولیت دوسری تنظیموں سے زیادہ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آئیڈیولوجی ہی انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے۔

تشدد کا سب سے زیادہ مظاہرہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں نظر آتا ہے۔ جہاں ایک تنظیم اپنا یہ حق سمجھتی ہے کہ وہ اس تنظیم کے ”کوڈ“ پر عمل نہ کرنے والوں کو ”راہ راست“ پر لائے اور کچھ لوگ اگر صرف ”دعوت حق“ سے ”راہ راست“ پر نہ آئیں تو پھر ان کے خلاف تشدد جائز ہے۔ اسی نظریے کے تحت ہر سال بہت سے طلبہ کے ساتھ جسمانی تشدد کے واقعات سامنے آتے ہیں۔

تشدد سے دور رہنا اور تشدد کو ناجائز قرار دینا ہر طلبہ تنظیم کی ذمہ داری ہے۔ ان تنظیموں کی ذمہ داری زیادہ ہے جو دوسروں سے زیادہ منظم ہیں اور جنہوں نے اب تک تشدد کی کچھ وجوہات کو جائز قرار دے رکھا ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ تشدد کی کوئی جائز وجہ نہیں چاہے اس کا تعلق سیاست سے ہو یا مذہب سے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik