گروہی عصبیت اور جنگل کی ذہنیت


گروہ کی عصبیت ایک معاشرے کے لیے کس طرح زہر قاتل بن جاتی ہے اس کے بد ترین اور مہلک نقوش سے اس ملک کی تاریخ بد بودار ہے۔ گزشتہ دنوں لاہور میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گروہ کی عصبیت نے جو ستم ڈھایا اس نے فقط چار انسانی جانوں کو ہی نہیں تلف کیا بلکہ پورے معاشرے کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ وکلاء اور ڈاکٹروں کے درمیان ایک تنازعے نے ایک خونیں صورت اختیار کرنے کے ساتھ اس ملک کے سماجی تاروپود کو بھی بکھیر کر رکھ دیا۔

وکیلوں کا ہسپتال پر حملہ جس قدر کربناک تھا اس سے بڑھ کر اذیت رساں وہ رویہ ٹھہرا جس میں اس قبیح فعل پر پردہ ڈالنے کے لیے لایعنی دلائل اور بے معنی تاویلیں تراشی گئیں۔ ایک گروہ کی عصبیت نے فقط ان کو برہنہ نہیں کیا جو ہسپتال پر حملہ آور ہوئے بلکہ بہت سے چہروں سے قانون پسندی اور انصاف کی سر بلندی کے دعوؤں کے نقاب بھی نوچ ڈالا جو اپنے تئیں اس ملک میں جمہوریت اور آئین کی بالادستی کے لیے ہراول دستے میں کھڑے ہوئے۔

پاکستان کے وکلاء کے قائدین کی تاویلیں گروہی عصبیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہیں جن میں حق، سچ اور انصاف کا شائبہ تک نہیں۔ گروہ کی عصبیت میں سب پہلے انصاف کا خون ہوتا ہے اور وکلاء کی عصبیت میں انصاف کا قتل اس لیے بھی زیادہ بدنما اور کریہہ نظر آتا ہے کہ کالے کوٹ پہنی یہ مخلوق عدل کے ایوانوں میں انصاف کے حصول کے مقدس مشن پر معمور ہوتی ہے۔ گروہ کی عصبیت میں سچ اور جھوٹ، حق و ناحق اور عدل و نا انصافی کی کوئی تمیز نہیں ہوتی۔

گروہ کی عصبیت غلبے کی خواہش کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوتی ہے جو اپنے سموں کے تلے مخالف فریقین کو روندنے کے جذبات سے مغلوب ہوتی ہے۔ یہ ازمنہ قدیم اور قبائلی معاشروں کے تاروپود میں ایک اہم عنصر کی حامل ہوتی تھی جس میں مخالف قوت کو زیر کرنے کے لیے اپنے گروہ کے ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے کو روا سمجھا جاتا تھا۔ اکیسویں صدی کے پاکستان میں یہ گروہی عصبیت اپنی تمام تر بد صورتی اور کریہہ پن کے ساتھ کارفرما ہے۔

گروہ کی اس عصبیت کا شکار فقط وکلاء کا طبقہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ پورا معاشرہ اور اس میں موجود تمام گروہ اس عصبیت کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ معاشرہ بظاہر تو ایک آئینی بندوبست اور جمہوری نظام کا حامل ہونے کا دعویدار ہے لیکن یہاں غلبے کی خواہش کی جڑیں بہت گہرائی میں پیوست ہیں۔ گروہ کے غلبے اور مخالف کو زیر کرنے کی یہ منہ زور خواہش در حقیقت معاشرے میں قانون کی بے ثباتی اور آئین کی بے توقیری سے پھوٹتی ہے۔ جب معاشرے میں قوت و طاقت ہی برتری کا اول و آخر اصول ٹھہرے تو پھر ہر گروہ اپنی طاقت سے دوسرے کو زیر کرنے کی جدو جہد کرتا ہے۔

پاکستان کا المیہ قانون و آئین کی بے توقیری رہا ہے اس لیے ہر ایک وہ گروہ جسے طاقت و اختیار ملے وہ سرکشی کے اڑیل سانڈ پر سوار ہو کر سارے اصولوں اور اقدار کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ اس ملک میں اگر فوجی آمریتوں کے طویل ادوار رہے تو اس کے پس پردہ اس نفسیات کو دخل تھا کہ ہمارے پاس چونکہ قوت و طاقت ہے اس لیے ہمیں تمام گروہوں اور طبقوں پر بالا دستی حاصل ہے۔ اس کے لیے چاہے آئین کو پامال کیا جائے یا قانون کو موم کی ناک کی طرح مروڑا جاتا رہا یہ سب جائز اور روا قرار دیے جاتے رہے۔

اس ملک میں جب پرتشدد گروہوں نے مذہب، مسلک، لسانیت اور صوبائیت کے نام پر تشدد کا راستہ اختیار کیا تو انہیں یہ راہ غلبے کی نفسیات نے دکھائی۔ ان گروہوں نے معصوم جانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور ملک کے سماجی ڈھانچے کو تباہ کیا لیکن ان کے حامیوں کی جانب سے ان کے ان جرائم کی پردہ پوشی کی گئی اور انہیں تاویلات کے دبیز پردوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی۔ آج سے کچھ برس قبل طالبان کی پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کو رد عمل کے زمرے میں ڈال کر ان کے بھیانک جرائم کی پردہ پوشی کرنے کی کوششیں کی گئیں۔

اس ملک میں جب اقلیتوں کے خلاف جب کوئی معاندانہ کارروائی کی گئی تو اسے بھی گروہی عصبیت کی نظر سے دیکھ کر اس کی شدت کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسے انسانیت پر ظلم کی بجائے ایک مخصوص مذہبی گروہ پر ہونے والا ظلم سمجھ کر ریاست اور سماج نے اس طرح رد عمل نہیں دکھایا جس طرح اسے دکھانا چاہیے تھا۔ آج ڈاکٹر، وکیل، صحافی یا کوئی بھی طبقہ جب ایک گروہ کی صورت میں توڑ پھوڑ کرتا ہے تو یہ اسی فکر کا پر تو ہے جو عشروں سے اس معاشرے میں پروان چڑھائی گئی ہے کہ یہاں قانون ایک جنس بے مایہ ہے اور اس کی پاسداری سے آپ کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔

اگر آپ کو اپنا حق لینا ہے یا کسی مخالف فریق کو زیر کرنا ہے تو اس کے لیے واحد راستہ اپنی قوت کا اظہار اور اس کا بزور بازو اطلاق ہے۔ اس میں تشدد، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور اس نوعیت کے سارے حربے شامل ہیں۔ لاہور میں وکیلوں کا ہسپتال پر حملہ اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ جب سماج میں تشدد کی راہ پر گامزن ہونے والوں کو پھولوں کے ہار پیش کیے جائیں، انہیں ریاست کی جانب سے رعایتیں حاصل ہوں اور ریاستی ادارے انہیں اپنا مہمان بنا کر رکھیں اور بعض اوقات ریاستی ادارے خود متشدد گروہوں اور جماعتوں کی نگہداشت و پرداخت کریں تو پھر معاشرے میں وہی کچھ ظہور پذیر ہوگا جو ہم آج اپنے گردو پیش میں دیکھ رہے ہیں۔

آج سماج کا تشدد کی راہ پر گامزن ہونا اور سماجی رویوں میں تشدد در آنا کچھ ایسے اچنبھے کا کام تو نہیں ہوا کہ جیسے ہم پر اچانک سے یہ افتاد ٹوٹ پڑی ہو۔ یہ عشروں قبل بوئی گئی وہ فصل ہے جو آج اپنے پورے قد و کاٹھ سے سر اٹھائے قانون، آئین، تہذیب، تمدن اور اخلاقیات کو اپنے منحوس سایے کے نیچے لے چکی ہے۔ اس لیے

ایک انتشار زدہ معاشرے میں جینے والوں کی نظریں لاہور کے ہسپتال جیسے واقعات دیکھنے کی عادی ہو چکی ہوتی ہیں۔ لاہور میں برپا ہونے والا واقعہ پہلا ہے اور نا ہی یہ آخری ثابت ہو سکتا ہے تاوقتیکہ ہم آئین و قانون کی بے توقیری، گروہی عصبیت اور غلبے کی نفسیات سے چھٹکارا پا لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).