مبارک ہو، اٹک میں اسلام محفوظ ہے


پچھلے دنوں جب اٹک کی اسسٹ کمشنر جنت حسین کو ایک گلی بوائے نے اس بنیاد پر آڑے ہاتھوں لیا کہ خاتون بیوروکریٹ کے منہ سے ادا کیے گئے الفاظ، اس لڑکے کی سوچ کے مطابق اسلام کو شدید خطرے سے دوچار کر گئے ہیں تو اس نے یہ امر ضروری جانا کہ گمراہ خاتون افسر کے عقیدے کی جانچ پڑتال کی جائے، تاکہ مملکتِ خداداد میں اسلام کی عظمت کا بول بالا ہو سکے اور دین کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھنے کے حفاظتی اقدامات مزید مضبوط کیے جائیں۔

لہٰذا باقاعدہ طور پرعدالت قائم کی گئی اور الزام یافتہ اکیلی عورت کو کٹہڑے میں لاکر معترضین کے سامنے پیش کیا گیا، تاکہ وہ خاتون سے باز پرس کرکے اس کے درست عقیدے پر ہونے کا اطمینان حاصل کرلیں یا پھر ہجوم کو بروقت ثواب حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوجائے۔

الزام عائد کرنے والے سپوت نے اپنے ایمانو میٹر سے خاتون افسر کے عقیدے کی تفتیش شروع کردی، اس کا انداز انتہائی جارحانہ تھا۔ سہمی ہوئی لڑکی اپنے مسلمان ہونے کے ثبوت اور ایمان کی سلامتی کی وضاحتیں پیش کرنی لگی، لیکن لڑکے کی تسلی نہیں ہو رہی تھی، اس کی نظروں میں اسلام اور پاکستان تاحال خطرے سے دوچار تھے۔ جب کوئی تدبیر نہ بن پائی تو بے بس لڑکی نے آقائے دو جہاں ﷺ کے نام کی نسبت سے اپنے تعلق کی گہرائی ثابت کرنا چاہی اور بولی کہ ”میرے تو بیٹے کا نام ہی محمدؐ ہے“ جس پر لڑکے نے جھٹ سے جواب دیا کہ ”بیٹے کا نام محمدؐ رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا“

یہاں سب سے قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس شہرِ جنوں میں ہر ایک کو توہین کے مورد الزام ٹھہرائے گئے شخص سے ہی وضاحت مطلوب ہے، البتہ تہمت لگانے والا اس سے بری الذمہ ہوجاتا ہے کہ اس کے پاس سرخروئی کے بعد جملہ حقوق میسر ہوجاتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی مشال خان کے معاملے میں نظر آیا، جب اس کی موت کے بعد جھوٹی آئی ڈی بنا کر اس کی وال پر توہین آمیز مواد ڈال دیا گیا تھا، لیکن کسی نے بھی اس توہین کی تفتیش ضروری نہیں جانی۔

بہرحال صد شکر کہ مردوں کے نرغے میں گھری اکیلی جنت حسین، قبل از مرگ ہی منکر نکیر کے سوالوں کے جواب دے کر اور فرشتہ صفت انسانوں کے من چاہے الفاظ دہرا کر اپنے ایمان کی سلامتی ثابت کرنے میں کامیاب رہی اور اس کو دوبارہ مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ شاید جنت حسین اس حوالے سے بھی خوش نصیب ٹھہری کہ خاتون ہونے کی ناتے اس کو صفائی دینے کی مہلت نصیب ہوئی، ورنہ سچے مجاہدین ثواب کمانے کے ایسے مواقع، آسانی سے تھوڑی جانے دیتے ہیں۔

ذرا ایک لمحے کو اس ملک میں پیدا ہوئی گھٹن اور حبس کا اندازہ کریں کہ ہم اس جگہ پر آن پہنچے ہیں جہاں پر، جب بھی کسی لونڈے لفنگے کا دل چاہے، بغیر سوچے، بغیر سمجھے، کسی کی کہی ہوئی بات کا کوئی بھی مطلب یا مفہوم نکال کر خود سے کئی گنا قابل، عزت دار اور طاقتور شخص کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ اس کے خلاف روڈ راستوں پر عدالتیں قائم کرکے ہراساں کرسکتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت کے پروانے بھی جاری کرسکتا ہے اور اس کو یہ سب کرنے کی طاقت یہ معاشرہ فراہم کرتا ہے۔

مبارک ہو کہ پچھلی دہائیوں سے ڈالر جہاد کی بدولت اس ملک میں جو فصل کاشت کی گئی تھی، آج وہ مکمل پک کر تیار ہے اور پاکستان اس سے خوب مستفید ہو رہا ہے اور مبارک ہو کہ اب اٹک میں اسلام محفوظ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).