جب لال لال لہرایا تھا تب غریب نے کیا پایا تھا؟


ہم اکثر سنتے ہیں کہ غریب مزید غریب ہو رہا ہے اور امیر پہلے سے بھی زیادہ امیر ہو رہا ہے۔ دولت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کیا یہ حقیقت ہے کہ یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے؟ یا صرف ایک سیاسی نعرہ ہے؟ کیا صرف پاکستان میں ایسا ہو رہا ہے؟ یا پھر یہ ایک عالمی مسئلہ ہے؟ کیا اس مسئلہ کو معلوم کرنے کا کوئی سائنسی طریق ہے؟ اگر پوری دنیا کی آبادی کو دو برابر کے حصوں میں تقسیم کر لیں یعنی ایک پچاس فیصد آبادی جس کی نسبتاً زیادہ آمدنی ہے اور دوسرا پچاس فیصد جس کی نسبتاً کم آمدنی ہے۔

اور دنیا کے امیر ترین لوگوں سے اس کا موازنہ کریں تو اب دنیا کے امیر ترین 26 لوگوں کے پاس دنیا کی غریب نصف آبادی جتنی دولت ہے۔ یعنی 26 افراد کے پاس ساڑھے تین ارب غریب افراد کے برابر دولت موجود ہے۔ اور 2010 میں دنیا کے امیر ترین 388 افراد کے پاس دنیا کی نصف غریب آبادی کے برابر دولت تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان نو سالوں میں دنیا کی زیادہ تر دولت اور بھی تھوڑے افراد تک محدود ہو گئی ہے۔ یہ تو دنیا کی غریب نصف آبادی سے موازنہ تھا۔

ایک اور طرح جائزہ لیتے ہیں۔ 2008 میں پوری دنیا کی اُس دولت کا جو کہ نجی ہاتھوں میں ہے 42 فیصد دنیا کے امیر ترین ایک فیصد لوگوں کے پاس تھا۔ اور اب یہ امیر ترین ایک فیصد لوگ اس عالمی دولت کے 47 فیصد کے مالک ہیں۔ پھر وہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ دنیا کی دولت اب مزید قلیل تعداد کے امراء کی ملکیت میں جا رہی ہے اور غریب طبقے کا حصہ کم ہو رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں امریکہ میں امیر اور غریب طبقے کی دولت کا فرق بہت زیادہ ہے۔ لیکن اب دنیا کے کئی اور ممالک جن میں چین، برازیل اور بھارت شامل ہیں دولت کی اسی غیر متوازن تقسیم کا شکار ہو رہے ہیں۔

ایک بھارتی سائنسدان چکر بورتی صاحب نے ایک فرضی ماڈل بنایا ہے جو ہمیں دولت کے غیر مساویانہ تقسیم کے عمل کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ کہ اگر شروع میں ایک ہزار اشخاص ایک جتنی دولت کے مالک ہیں اور ان کے آپس میں ایسے لین دین مسلسل ہوتے رہتے ہیں جن میں دونوں فریقوں کے لئے نفع اور نقصان کے امکانات ایک جیسے ہوں تو بھی آخر میں زیادہ تر دولت تھوڑے ہاتھوں تک محدود ہو جائے گی۔ اور اگر ان تھوڑے لوگوں میں یہ لین دین لاکھوں مرتبہ اس طرح چلتا رہے کہ ہر لین دین میں دونوں فریقوں کے لئے نفع نقصان کا امکان ایک جیسا ہو تو آخر میں ساری دولت ایک ہی شخص کے ہاتھوں میں چلی جائے گی اور باقی کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔

اصل دنیا اس کھیل سے مختلف ہوتی ہے۔ مگر ریاست کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دولت پر ٹیکس لگا کر اور اس ٹیکس سے غریبوں کو سہولیات مہیا کر کے یا اس طرح کے اور اقدامات کر کے غریب کو غریب تر ہونے سے اور استحصال سے بچائے۔ ورنہ آخر میں وہی ہوتا ہے جو پہلے 1790 میں انقلاب ِ فرانس میں ہوا اور 1917 میں زار ِ روس کے خلاف برپا ہونے والے کمیونسٹ انقلاب کے موقع پر ہوا۔

کسی بھی آبادی یا ملک میں دولت کی غیر مساوی تقسیم کو ناپنے کچھ سائنسی طریق رائج ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ Gini Coefficient کا ہے۔ فرض کریں کہ ایک ایسی آبادی ہے جس میں ہر ایک کے پاس بالکل مساوی دولت ہے تو اس Gini Coefficient صفر ہو گا۔ اس کے برعکس اگر ایسی فرضی آبادی ہے جس میں ساری دولت ایک شخص کے پاس ہے اور باقیوں کے پلے کچھ بھی نہیں تو اس کا سکور سو فیصد ہوگا۔ گذشتہ چند دہائیوں سے ورلڈ بینک دنیا کے ممالک میں دولت کی غیر مساوی تقسیم کی صورت ِ حال اس سکور کی صورت میں شائع کرتا ہے۔

اور ان کی رپورٹ کے مطابق اب پاکستان میں دولت کی تقسیم مزید غیر مساوی ہو رہی ہے یعنی غریب مزید غریب ہو رہا ہے اور امیر اور بھی زیادہ امیر ہو رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2015 کے آخر میں پاکستان کا Gini Coefficient 33.5 فیصد تھا۔ حیران کن طور پر گذشتہ تیس سال کے دوران سب سے بہتر صورت ِ حال 1996 میں تھی۔ یہ سال محترمہ بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور کے آخری سال تھا۔ عموی طور پر یہ سال اقتصادی ابتری کا سال سمجھا جاتا تھا۔

یہ تو ظاہر ہے کہ پاکستان میں یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے لیکن اس سلسلہ ہم ماضی کے تجربات سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں؟ ہم یہ تو اکثر سنتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کے دور کے دوران بڑے صنعت کار زیادہ دولت مند ہوتے گئے اور غریب اور امیر کی آمدنی میں فرق بڑھتا گیا۔ پاکستان میں کمیونزم تو کبھی نہیں آیا مگر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دور میں کچھ سوشلسٹ اقدامات اُٹھائے گئے مثال کے طور پر صنعتیں قومی ملکیت میں لے لی گئیں، بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا، اور زرعی اصطلاحات کے ذریعہ زرعی زمین کی ملکیت کی حد نیچے لائی گئی۔

اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان دو ادوار میں غریب امیر کے فرق کی صورت ِ حال پر کیا فرق پڑا؟ ڈاکٹر طلعت انور صاحب نے تحقیق کر کے 1963 سے 2002 تک کے اعداد و شمار مرتب کیے ہیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق 1963 سے لے کر 1971 تک پاکستان میں امیر اور غریب کا فرق تدریجی طور پر لیکن مسلسل کم ہو رہا تھا۔ یہ دور زیادہ تر ایوب خان صاحب کا دور تھا۔ اس تحقیق کے نتیجہ میں ایک اور دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ ان سالوں میں پاکستان کے لوگوں کی کُل آمدنی میں غریب ترین 20 فیصد آبادی کی آمدنی کا حصہ آہستہ آہستہ اوپر کی طرف سرک رہا تھا اور پاکستان کے تمام لوگوں کی کُل آمدنی میں امیر ترین بیس فیصد طبقے کی آمدنی کا حصہ آہستہ آہستہ نیچے کی طرف آ رہا تھا۔

ذوالفقار علی بھٹو صاحب کا دور 1972 سے 1977 تک رہا تھا۔ اس تحقیق میں 1977 کے اعداد و شمار تو میسر نہیں ہیں لیکن 1979 کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ اور تعجب کی بات یہ ہے 1979 میں امیر اور غریب کی دولت کا فرق 1963 سے بھی بڑھ چکا تھا۔ اور پورے پاکستان کی آمدنی میں غریب ترین بیس فیصد کا حصہ اور بھی کم ہو گیا تھا اور امیر ترین بیس فیصد کا حصہ مزید بڑھ گیا تھا۔

اگر یہ اعداد و شمار صحیح ہیں تو پھر صنعتوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لینے سے امیر اور غریب کا فرق کم ہونا مشکل ہے۔ ایشیا سرخ ہو یا سبز ہو یا زرد ہو غریب طبقے کی حالت بہتر ہونی چاہیے۔ بہر حال یہ مسئلہ موجود ہے اور اس کا حل بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے سب سے ضروری قدم ملک میں ابتدائی تعلیم کو عام کرنا اور اس کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ جب تک جہالت رہے گی اپنے حقوق کی بھی خبر نہیں ہو سکتی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کو سستا بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت نجی اداروں کی فیسیں بہر حال عام آدمی کی دسترس سے باہر نکل چکی ہیں۔ دولت مندوں پر ٹیکس کے نظام کو فعال بنا کر دولت کو چند ہاتھوں سے نکال کر عام آدمی تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ٹیکس کی چوری کو روکنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے پراجیکٹ چلانے کے سلسلہ میں راہنمائی، مدد اور حوصلہ افزائی سے چھوٹے سرمایہ کاروں کو آگے بڑھنے کا راستہ مل سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).