ایک ناخواندہ بچے کو خواندہ بنانے کا عہد!


یہ کراچی کا ایک کالج ہے۔ آفس کے سامنے بیٹھ کر طلباء فارم پُر کررہے تھے، دراصل یہ فارم انٹرمیڈیٹ بورڈ کے امتحانی فارم تھے۔ کوئی فارم کو پہلے پینسل سے پھر پین سے فیئر کررہا تھا تو کوئی جلد باز ڈائیریکٹ پین سے پُر کررہے تھے۔ کوئی جلد بازی کی بنا پر غلط لکھ جانے پر اب اس لکھائی پر وائٹو یا ریموور پھیر رہا تھا۔ ’ارے فارم میں گندگی نہیں کرو، اوور رائیٹنگ اور وائٹو پھرا ہوا فارم ریجیکٹ کردیا جاتاہے۔ ‘ ساتھ بیٹھا دوسرا طالب علم اس کے کان میں کھسر پھسر کرکے اس کی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتا۔ مگر دستخط کرنے کے معاملے میں سب ہی ایک رو پر تھے یعنی جہاں کہیں کشیدہ خط کے نیچے دستخط ِ امیدوار پڑھا وہی اوپر کی عبارت پڑھے بغیر نیچے دستخط کرنے لگیں۔

”میں اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ میں کم از کم ایک ناخواندہ بچے کو خواندہ بنانے کی کوشش کرونگا۔ “ فارم کے دوسرا صفحے میں سب سے اوپر یہ عبارت لکھی تھی اور اس کے نیچے امیدوار کے دستخط کے لئے جگہ مختص کی ہوئی تھی۔

”ارے یہ کیا لکھا ہے؟ “ ایک طالبِ علم نے اپنے دوسرے ساتھی کو اسی عبارت کی طرف توجہ دلائی۔

”کیا لکھا ہے بھئی؟ “ دوسرا نے لاپرواہی سے عبارت کی طرف توجہ دی اور پڑھ کر سوالیہ انداز میں بولا؛ ”پھر؟ “

”ارے بھئی۔ یہ عہد کرنے کو کہہ رہے ہیں کسی بچے کو پڑھانے کا۔ “ پہلا طالب علم وضاحت کرتے ہوئے بولا۔

”ارے چھوڑو بھئی۔ دستخط کردواور جمع کرواؤں فارم۔ ہم کیا اتنے فارغ نظر آرہے ہیں کہ اب بچوں کو پڑھانے لگ جائیں؟ پھر ہم کب پڑھیں گے؟ “ دوسرے نے مدبر بننے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے ساتھی کو سمجھانے کی کوشش کی۔

مگر کیا یہ اتنی ہی عام بات ہے کہ ہم عہد کریں کہ ہم کسی ایک بچے کو خواندہ بنانے کا عہد کریں اور پھر اپنی پڑھائی کی مصروفیات کا بہانہ بنا کر اس عہد کو فراموش کردیں؟ یہاں ایک چند لمحوں کے لئے ذرا ٹھہریے۔ فرض کرتے ہیں کہ اس کالج میں کم از کم پانچ سو ( 500 ) طلباء پڑھتے ہیں۔ اور کالج کے طلباء یہ امتحانی فارم دوسالوں میں دو مرتبہ پُر کرتے ہیں اس عہد نامے کے ساتھ۔ اب حساب کیجئے یہ طلباء اپنے کالج کے ان دو سالوں میں کم از کم ایک بچے کو خواندہ بناتے ہیں۔ تو محض دوسالوں میں بغیر سرکاری یا غیر سرکاری فلاحی اداروں کے سرپرستی کے کوئی ہزار ( 1000 ) بچے پڑھنے لکھنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اور محض چند سالوں میں ان اعداد و شمار میں کتنا مثبت اضافہ ہوسکتا ہے؟

اب ذرا یہ سوچئے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں اسکولوں میں پرائمری اور پرائمری سے پھر سیکنڈی کلاسز کی تعلیم، پھر اسکول سے کالج تک کی پڑھائی اور پھر کالج سے جامعات تک اعلیٰ تعلیم کے لئے رسائی کی شرح مسلسل کم ہوتی جاتی ہے۔ جہاں بچے پرائمری یا سیکنڈری کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر گھریلو حالت کی بناء پر کام کاج کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے معاشرے کے معروضی حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ معلوم ہوگا سینکڑوں بچوں بخوشی اپنی پڑھائی نہیں چھوڑتے اور نہ ہی ان کے والدین خوشی سے ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں بلکہ حالات کا دھارا انہیں اپنی سمت میں بہالے جاتا ہے۔

اب ہم یہاں رٹی رٹائی مثالی باتیں تو دہرا نہیں سکتے کہ چائلڈ لیبر سے بچوں کے حقوق متاثر ہورہے ہیں بلکہ اس مسئلے کا حقیقی حل یہ ہے کہ ان کے مسئلے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کی مدد کی جائے۔ وہ بچے اور نوجوان جو کسی بھی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ گئے ہوں اورملازمت کررہے ہوں، ان کو تعلیم سے روشناس کروانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کی فراغت اور اپنے فراغت کے اوقات کو ترتیب دے کر ان کی تعلیمی امداد کریں۔ خواندہ بنانے کے لئے یہی ضروری نہیں کہ آپ خود پڑھائیں بلکہ کسی بچے کو پڑھنے میں مالی مدد کریں۔ اگر آپ کے علم میں ہوں کہ آپ کے علاقے میں کوئی قابلِ اعتماد بندہ ایسے تعلیم کو عام کرنے کی کوششوں میں لگا ہے تو اسے کاندھا فراہم کیجئے۔ والدین اس کی حوصلہ افزائی کریں کہ ان کے بچے علاقے یا معاشرے کی بہتری کے لئے فلاحی کاموں میں حصہ لیں۔

اس عہد کی پاسداری سے ہمارے وہ طالب علم ساتھی جو کالجز میں زیرِ تعلیم ہیں یا فارغ ہوچکے ہیں یا اعلیٰ تعلیم کے تحصیل کررہے ہیں بلکہ کسی بھی عمر کے افراد اپنے اس عمل سے ایک خاموش انقلاب میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں، ایک ایسا انقلاب جو معاشرے کو تدریجی طور پر ہی سہی مگر خواندگی اور شعور بخش سکتا ہے۔ پھر ہمارے دانشور طبقے کو یہ فکر نہیں ہوگی ہمارے معاشرے کے افراد سیاست دانوں اور دوسرے عیار ومکار افراد کی شعبدہ بازی سے متاثر ہوکران کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اپنے لئے خندق کھود رہے ہیں۔ غرض یہ کہ یہ انقلاب یقیناً ان نام نہاد انقلاب اور ان سے متعلق انقلابی نعروں سے ہزار درجہا بہتر ہوگا جن کا نتیجہ چار دن کی چاندنی سے بڑھ کر نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).