ہماری سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری رویے


گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ یہ درخواست مرتضی جاوید عباسی اور دو دیگر پارلیمنٹرینز کی طرف سے دائر کی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس یہ کہہ کر نمٹا دیا کہ جائیں اور اگلے دس دن کے اندر یہ معاملہ جا کر پارلیمنٹ میں حل کریں۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ منتخب نمائندے ہیں۔ ایسے معاملات عدالت کیوں لے کر آتے ہیں؟ یہ معاملات حل کرنا پارلیمنٹ میں موجود نمائندگان کا کام ہے۔

پارلیمنٹرینز کو چاہیے کہ وہ ایسے معاملات عدالت میں لانے کے بجائے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر حل کریں۔ عدالت نے مزید کہا کہ وہ پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا عوامی نمائندوں کا کام ہے جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ قانون میں اگر کوئی سقم ہو تو اسے دور کرنا عدالت کا کام ہے۔

چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد گزشتہ روز ریٹائرڈ ہو چکے ہیں۔ آئندہ چیف الیکشن کمشنر کے ناموں پر بھی ڈیڈلاک تاحال برقرار ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ بہتر تو یہ تھا کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے قبل اس عہدے کے لئے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں کے مابین کسی ایک نام پر اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہوتا۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا کام ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کا تقرر حکومت وقت اور پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن جماعتیں باہمی مشاورت سے کرتی ہیں۔

بدقسمتی سے ممبران الیکشن کمیشن کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے مابین ناموں پر اتفاق رائے پیدا نہ ہو سکا جس کی وجہ سے یہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چلا گیا جو کہ انتہائی افسوسناک بات ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے نام نہ دیے جائیں کہ فریقین میں سے کسی کو یہ لگے کہ وہ شخصیات مخصوص افراد کے زیادہ قریب ہیں۔ اس معاملے میں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ کوئی غیرجانبدار اور شک و شبہ سے بالاتر نام تجویز کریں اور مل بیٹھ کر ان ناموں پر اتفاق کریں۔

جب جمہوری اقدار کو پامال کیا جاتا ہے تو بدقسمتی سے یہ کوئی بھی نہیں کہتا کہ اب جمہوریت کو خطرہ لاحق ہے۔ دراصل جمہوریت کو خطرہ اسی وقت لاحق ہوتا ہے جب آپ جمہوری روایات کو پامال کرتے ہیں۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ جب جمہوری روایات کو مضبوط کرنے اور جلا بخشنے کی بات آتی ہے تو سیاسی جماعتوں نے مایوس کیا ہے۔ آئین و قانون نے جب ایک معاملہ کا اختیار پارلیمنٹ کو دے رکھا ہے تو اس معاملے کو حکومتی جماعت سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے۔

جمہوریت دراصل مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانے کا نام ہے۔ ملک کو کوئی بھی چیلنج درپیش ہو، کوئی اہم عہدوں پر تقرری ہو یا کوئی بیرونی چیلنج ہو، سیاسی جماعتوں کا مل بیٹھ کر اسے حل کرنا ہی اصل جمہوریت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت میں دوسری جماعت کی بات سننے کے حوصلہ کا فقدان ہے۔ جب ہماری سیاسی جماعتیں کوئی معاملہ باہمی رضا مندی سی حل نہیں کر پاتیں تو معاملے کو عدالت میں لے جایا جاتا ہے۔

گویا عدالت کو اپنے سیاسی معاملات میں خواہ مخواہ گھسیٹا جاتا ہے۔ اب عدالت اگر ایسے معاملہ میں کوئی فیصلہ دے تو بعض لوگ اپنے گریبان میں جھانکے بغیر خواہ مخواہ عدالت پر تنقید کے نشتر برسانے لگتے ہیں۔ اگر آپ اتنے ہی جمہوریت پسند ہیں تو اس معاملہ کو عدالت میں ہی کیونکر لے کر گئے ہیں جس کے حل کرنے کا اختیار آپ کا ہے۔ اب اگر عدالت میں ایک معاملہ کو لے کر گئے ہیں تو پھر عدالت نے جو فیصلہ دیا اس پر بلا چوں چرا عملدرآمد بھی آپ کا فرض ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ماضی میں عدلیہ کے کچھ سابق ججز پر بعض لوگ محض اسی وجہ سے تنقید کرتے تھے کہ وہ پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ انتظامی معاملات جن کو حل کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے ایسے معاملات کو قطعاً عدالت میں جانا ہی نہیں چاہیے۔ یہ رویہ سسٹم کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔ اگر جمہوریت کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں تو تمام سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کی بات سننے کا حوصلہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

کسی بھی قسم کی قانون سازی کے لئے ڈائیلاگ یعنی مل بیٹھ کر بات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت سولو فلائیٹ کا نام نہیں ہے بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا نام ہے۔ جمہوریت تو نام ہی عوامی حکومت کا ہے جس میں ملکی اور عوامی مسائل کے حل کے لئے سب لوگوں کو ساتھ لے کر چلا جائے اور قانون سازی کی جائے۔ قانون سازی میں ناکامی دراصل جمہوریت کی ناکامی تصور کی جاتی ہے۔ اب یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے تمام معاملات کو باہمی تعاون و رضامندی سے لے کر آگے بڑھے۔

گورننس کے مسائل کا حل بھی اتفاق رائے سے ہی ممکن ہے۔ کسی بھی معاملے میں عدم برداشت عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ الحمد و للہ تمام ملکی ادارے اب اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کر رہے ہیں۔ ہمارا ملک ایک مستحکم اور مضبوط سیاسی نظام کی جانب رواں دواں ہے۔ قوی امید ہے کہ آنے والے چند سال بعد پاکستان ایک مضبوط اور مستحکم سیاسی نظام کا حامل ملک بن چکا ہو گا۔ لیکن ہمارا یہ خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی سوچ میں مثبت تبدیلی نہیں لائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).