بنگلہ دیش کا یوم آزادی – ہمارے دل میں مگر تیرے غم کے داغ جلے


پیغام تھا یا نیزے کی انی جو جگر سے آرپار ہو گئی، آنکھ سے آنسو ٹپک پڑے!

ہمارے ہسپتال میں بہت سے ممالک کے ڈاکٹر کام کرتے ہیں اور جب سے سوشل میڈیا کا چلن عام ہوا ہے، سب وایٹس ایپ پہ خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

عید ہو یا دیوالی، رمضان ہو یا کرسمس، شب برات ہو یا ہولی، یوم آزادی ہو یا کچھ اور، سب مذہب اور قومیت سے بالاتر ہو کے ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیں۔

سولہ دسمبر بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب ہم نے گروپ میں جھنڈوں اور رنگ برنگے قمقموں سے سجے  پیغام دیکھے۔ ہمارے بنگالی ساتھی یوم آزادی اور یوم فتح منا رہے تھے۔ باقی لوگ مبارک باد بھیج رہے تھے اور ہم خاموش تھے!

آزادی مگر کس سے ؟ فتح مگر کس پہ ؟

کیا اب کی بار غاصب اور دشمن ہم تھے؟

ہم مغربی پاکستانی!

کچھ برس پہلے کی یاد ہے ڈیپارٹمنٹ میں آنے والی نئی ڈاکٹر سے تعارف ہو رہا تھا،

“میرا تعلق بنگلہ دیش سے ہے”

“یعنی مشرقی پاکستان”

بے اختیار زبان پھسلی، اور ہم اپنی بےساختہ جملہ بازی سے شرمندہ ہوئے جب ہم نے ان سحر انگیز آنکھوں میں احتجاج دیکھا، خاموش احتجاج!

مشرقی پاکستان کہاں تھا؟ کیا تھا؟ کیسے بچھڑ گیا؟ کیوں جدا ہو گیا؟

یہ المیہ ہمارے ہوش سنبھالنے سے پہلے گزر گیا، لیکن مشرقی پاکستان کو ہم آج بھی دل پہ نقش مٹی مٹی سی یادوں سے پہچانتے ہیں۔

جنوری انیس سو بہتر کی شام تھی، جب ابا کسی کی تیمارداری کے لئے ہسپتال جا رہے تھے۔  چونکہ ہم ابا کے گرد ہی گھوما کرتے تھے سو ہمارا جانا لازم ٹھہرا۔ گو کہ ابا نے کوشش کی کہ ہم رک جائیں  کہ مریض کی حالت کچھ اچھی نہیں تھی لیکن ہمیں منع کرنا آسان نہیں تھا۔ ابا نے ہتھیار ڈال دیے اور ہم کمبائنڈ ملٹری ہسپتال کی طرف چل دیے۔

 وہ ہمارے رشتے کے ماموں تھے اور مشرقی پاکستان میں تعینات تھے۔ لڑائی کے دوران انہیں پیٹ میں پورا برسٹ لگا تھا اور انہوں نے اپنی باہر کو لٹکتی انتڑیوں کو اپنے ہاتھ سے سمیٹ کے پیٹ پہ کپڑا لپیٹا تھا۔ وہ بہت عرصہ زیر علاج رہے اور میں ان کی کہانی سن کے ہمیشہ سوچتی تھی کیا مارنے والا بھی انسان تھا؟ مسلمان اور پاکستانی ہونے کی بات تک پہنچنا تو بعد کی بات تھی۔ بچپنا تھا تو سمجھنا مشکل تھا کہ کیسے دو ایک جیسے لوگ ایک دوسرے پہ گولیاں کی بوچھاڑ کیا کرتے ہیں۔ اور بعد میں سمجھ آئی  کہ انسان ہی ایسا کیا کرتے ہیں۔

دوسری یاد مانا کی ہے! مانا کی نانی ہماری گلی میں رہا کرتی تھیں اور مانا سے ہمارا کھیل کا رشتہ تھا۔ پہلے وہ ہفتوں مہینوں بعد آتی لیکن ایک شام اس نے بتایا کہ اب وہ نانی کےگھر ہی رہے گی۔ اس کے ابا مشرقی پاکستان میں تھے اور اب وہ وہاں پہ قید کر لئے گئے تھے۔ مانا ابا کو یاد کر کے روتی تھی اور اس کے آنسوؤں کا ساتھ ہمارے آنسو دیتے تھے۔

ہمیں یاد ہے ایک ایسی ہی شام ہم بہت دل گرفتہ ہو کے گھر واپس آئے تھے اور سیدھے ابا کے کمرے میں پہنچے تھے۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ ہم کس پاکستان میں رہتے ہیں اور مانا کے ابا اور ہمارے ماموں کس پاکستان میں رہتے تھے۔ وہاں گولیاں کیوں چلتی تھیں اور پھر بچوں کے ابا کیوں پکڑ لئیے جاتے تھے۔ ابا نے ہر بات سنی اور بھیگی آنکھوں سے بتانے کی کوشش کی کہ وہ پاکستان بھی ہمارا پاکستان ہی تھا لیکن اب وہ ہم سے ناراض ہو چکے ہیں ۔

“تو ہم انہیں منا کیوں نہیں لیتے؟ آپ کہتے ہیں نا کہ روٹھے ہوئے کو چھوڑنا نہیں کبھی، منا لینا چاہیے ہر قیمت پہ”

ابا خاموش گردن جھکائے بیٹھے تھے!

اگلی یاد سکول میں مطالعہ پاکستان پڑھنے کی ہے۔ جہاں ہمیں یاد کروایا جاتا تھا کہ ہمارا مشرقی حصہ کانوں کا کچا تھا سو بہکاوے میں آکے ہم سے چھوٹ گیا۔ سبق بہت مبہم تھا، سب باتیں اشاروں کنایوں میں تھیں۔

ہمیں تب سے ہی یہ کہانی بہت ادھوری اور ان کہی لگتی۔ بہت سے سوا ل تھے جو پوچھنے کی اجازت نہیں تھی، بہت سے جواب دفن کر دیئے گئے اور یوں ہماری دل چسپی بڑھتی گئی۔

آج زخم پھر ہرے ہو گئے ہیں تو چلیے معمے کو دوبارہ حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  ہمارے خطے پہ انگریز کی حکومت تھی اور یہاں کے رہنے والے محکومی کی زندگی گزار رہے تھے۔ آزادی سب کا پیدائشی حق ہوا کرتی ہے سو غلامی نے یہاں کے رہنے والوں کی آنکھوں میں کچھ دیپ جلائے۔ آغاز میں خیال انگریز سے آزادی تھی سو سب کا سفر اکھٹے شروع ہوا لیکن پھر دو قومی نظریے نے اس سرزمین کو دو لخت کر دیا۔

مسلمانوں نے اپنا سفر مغربی اور مشرقی پاکستان کی صورت میں شروع کیا۔ فاصلہ بہت تھا لیکن اسلام نے سب کو ایک ڈوری میں پرو رکھا تھا۔  پھر شروع ہوا ایک ایسا اندھا دور جس میں انگریزوں کی تربیت یافتہ اشرافیہ نے اپنے ہی ہم وطنوں پہ وہی انداز جہاں بانی اپنائے جن سے رہائی چاہی تھی۔ وہی سلوک روا رکھا جس نے احساس محرومی کو ہوا دی تھی۔ انگریز سے آزادی تو مل چکی تھی لیکن استحصال یافتہ کے احساس محرومی کا علاج ہونے کی بجائے مرض میں اضافہ ہوا۔ گو اب مالک گورے نہیں کالے تھے،لیکن منہ کو غریبوں کا خون لگ چکا تھا۔

مغربی حصے نے اپنے آپ کو مشرقی حصےسے برتر جانا، حق تلفی پہ شرمندگی کہیں نہیں تھی۔ ان کی سادگی کو بے وقوفی گردانا گیا، ان کی صلح جو طبعیت کو ان کی بزدلی سمجھا گیا، ان کی زبان کی اہمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ ان کے رہن سہن پہ جملے بازی کی گئی۔ ان کی معیشت میں حصے داری کو نظر انداز کیا گیا۔ سیاست میں ان کی جیت سے منہ پھیر لیا گیا۔ اجنبیت کی فصیلیں اونچی کر دی گئیں احتجاج کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی اور بات کرنے اور حق دینے کی بجائے ہاتھ میں بندوقیں تھام لیں۔ مذہب کہیں پیچھے رہ گیا، رنگ، نسل اور قومیت کا جادو سر پہ چڑھ کے بولا۔

نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا!

حیرانی کیسی؟

ڈومینو ایفکٹ (Domino effect) کے مطابق کائنات میں کچھ بھی یک دم نہیں ہوا کرتا۔ بہت سی لغزشوں، رنجشوں، کوتاہیوں اور بے حسی کا نتیجہ وہ ہوتا ہے جس پہ پچھتاوے زندگی کا حصہ بنتے ہیں اور پچھتاوا ایک آہ کی صورت میں لبوں پہ ٹھہر جاتا ہے۔

ہماری زبان پہ بھی ایک کاش اکثر آتا ہے جب ہم ڈاکٹر حسن آرا، ڈاکڑ چمن، ڈاکٹر شہلا کے ساتھ زندگی بتاتے ہوئے ڈھاکہ کی کہانیاں سنتے ہیں۔ ہم ہسپتال کے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں کام کرتے ہوئے خاموش طبع، محنتی، پر امن اور اپنے آپ میں گم بنگالی کارکنوں کو غور سے دیکھتے ہیں۔ آنکھوں میں ویسے ہی کچھ چبھنے لگتا ہے اور کچھ اشعار یاد آجاتے ہیں!

مجھ سے ہیں کتنی الگ ان سب کی آزادیاں،

پھر بھی ہے کیسی خوشی، ساتھی بن کر میں بھی ہوں،

ایسے روشن وقت کی گردش میں کچھ دیر کو،

اپنی نادانی سمیت، حیراں، ان کے درمیاں۔

(سلیم الرحمن)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).