فرخ سہیل گوئندی: فکر فردا کا روشن استعارہ


اگر آپ پاکستان کے ایک بڑے سماج کو بنانے میں اس کو نکھارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔

تو آپ کو صرف تعلیم علم فکر تحقیق اور انصاف کے لیے مکالمہ کرنا چاہیے۔ انہی کے لیے لکھنا اور بولنا چاہیے۔ انہی چیزوں پر اگر سماج کھڑا نہیں ہوگا تو بہت نقصان اور جدید دنیا اور اس کی تہذیب و تمدن سے ہم دور ہوتے چلے جائیں گے۔ آپ گھوم پھر کے دنیا دیکھیں، کوشش کریں کہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی سکیں، اگر آپ میں سفر کی طاقت نہیں تو پھر کوشش کریں کہ تمام دستیاب قدیم و جدید سفر نامے پڑھنے کی، پھر دنیا کی ترقی کی اساس کا بغور جائزہ لیں۔

کیونکہ ہم نے اسی سماج میں رہنا ہے۔ اس کے لیے ہر شخص کو اپنا حصہ ڈالنا ہے، اور سوچنا ہے کہ کیسے ہم اس سماج کو جدید خطوط پر استوار کر سکتے ہیں؟ وہ کلیہ اور وہ فلسفہ آپ اس تحریر میں موضوع سخن شخصیت کے قول و عمل میں محسوس کر سکتے ہیں۔

فرخ سہیل گوئندی پاکستان کے جدید مورخ سیاحت نگار اور سیاسی و ادبی دانشور ہیں۔ آپ کی لکھی بہت سی کتابیں پاکستان کی سیاسی ادبی اور سماجی عہد کی بھرپور عکاسی اور اصل حقیقی تصویر کو ہمارے سامنے لاتی ہیں۔

دنیا بھر کی سیاحت اور جہاں گردی نے آپ کے قلم کو ایک نئی جہت نئے زاویے اور تازہ عالمی بیانیہ عطا کیا۔ آپ پاکستان کے واحد رائیٹر اور واحد سیاح ہیں۔ جو ہر سال دنیا گھوم پھر کے اس کی لمحہ بہ لمحہ بد لتی سماجی تمدنی اور تہذیبی صورتحال اور ترقی کو کتابوں میں، ویڈیوز اور لائیو لیکچرز کے ذریعے عوام اور دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ بات سیاحت اور سفر نامہ کی چل نکلی ہے۔

کہتے ہیں کہ اردو کا پہلا سفر نامہ یوسف کمبل پوش نے عجائبات فرہنگ کے نام سے لکھا۔ میں نے 1925 میں لکھا ہوا مولوی محبوب عالم کا سفرنامہ بھی پڑھا ہوا ہے، پھر قدرت اللہ شہاب، مولانا تقی عثمانی قاضی محمود نظامی، بیگم اختر ریاض الدین، مرزا ادیب، ابن انشاء، حکیم محمد سعید، محمد اسد، ممتاز مفتی، ڈاکٹر نذیر فتح پوری، مجتبیٰ حسین، قمر علی عباسی، مستنصر حسین تارڑ، عطا ء الحق قاسمی، انتظار حسین، محمد خالد اختر، محمد اختر ممونکا، علی سفیان آفاقی، عزیز ذوالفقار، سلمیٰ اعوان، کر نل اشفاق، محمد حمزہ فاروقی، جسٹس خواجہ محمد شریف، جبار مرزا، ڈاکٹر اے بی اشرف، رانا محبوب اختر، پروفیسر ناصر بشیر، محمد مبشر نذیر او ر ڈاکٹر عباس برمانی سے لے کر آج کا ترکی ہی ترکی یعنی فرخ سہیل گوئندی تک جتنے بھی سفرنامے میرے ہاتھ لگے، وہ پڑھ ڈالے۔

جو بات میں نے محسوس کی وہ عرض ہے کہ جیسا آپ جانتے ہیں تب نہ جدید وسائل تھے، نہ جدید ٹیکنالوجی، اور ان سفر ناموں کے فارمیٹ بھی لگے بندھے تھے۔ البتہ ان میں گوری چٹی میموں اور کالی جپسی لڑکیوں کی مقدار آج کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہوتی تھیں۔ آج راہ تکتی حسین دوشیزہ کے مقابلے میں گوگل انفارمیشن زیادہ ملتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید مغربی حسینوں کو اب ہمارا کچھ اعتبار بھی نہ رہا ہے۔ شاید مادیت پرستی نے ان کو اب ہوشیار کر دیا ہے۔ اب وہ محبت میں سود و زیاں کا حساب پہلے نکالتی ہیں اور کلام بعد میں کرتی ہیں۔

پہلے ٹورازم اور آج کے ٹورازم میں بہت فرق آ چکا ہے۔ ماضی کے سفر ناموں پر تاریخ اور جغرافیہ کا غلبہ تھا۔ ابتدائی سفر نامہ نگاروں نے غیر جانب دار ہو کر مختلف ملکوں اور قوموں سے متعلق ہر قسم کی تہذیبی، ثقا فتی، معا شی، سیاسی اور سماجی معلومات فرا ہم کر نے کی حتی الامکان کوشش کی ہے، اور معلومات فراہم کرتے ہوئے غیر ضرور ی تخلیق کاری اور ذہنی عیاش اختراع سے گریز کیا ہے۔ گویا اس دور کے سفر نامہ نگاروں نے اپنی ذات کو سفرنامے سے بالکل علیحدہ نہیں رکھا۔ وہ اپنی را ئے اور پسند و نا پسند کا بھی برملا اور بے تکلف اظہار کرتے ہیں اور اپنے تجربات و مشاہدات کو نسبتاً زیادہ ادبی انداز میں پیش کرتے ہیں۔

دنیا گویا گلوبل ویلیج بن چکی ہے۔ لیکن اب اس عالمی گاؤں تک رسائی ایک عام سیاح کے لیے بہت مشکل کر دی گئی ہے۔ سرحدوں اور دیواروں نے امیر غریب اور نیک و بد کا واضح فرق پیدا کر دیا ہے۔ پہلے ایک عام سے اخبار کا ایڈیٹر یا رپورٹر اُٹھتا اور انگلستان جا دھمکتا تھا۔ وہاں کے اعلیٰ سیاسی اکابر سے ملاقات بھی کر لیتا تھا۔ اور واپسی پر ایک عدد معرکتہ آلارا سفرنامہ بھی چھاپ دیتا تھا۔ اب ایسی خوش گمانی کی گنجائش نہیں نکلتی۔

اب دور اور اس کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود آج بھی وہ دیوانے اور فرزانے سیاح ہم میں موجود ہیں۔ جو برسوں سفر کرتے ہیں اور کھلی آنکھوں اور گہرائی سے کائنات کا مطالعہ کرتے ہیں۔ بات ہو رہی ہے۔ گوئندی صاحب کے قلمی سفر اور سفرنامے پر کہ وہ کیسے ایک کامیاب سفرنامہ نگار کہلاتے ہیں؟

پھر میں نے تحقیق کی۔ یہ تحقیق آپ کو گوگل پر ہرگز نہیں ملے گی۔ اس کے لیے آُپ کو فاضل مصنف کو پڑھنا ہوگا۔ اس کو سمجھنا ہوگا۔ تب آپ پر یہ عقدہ کھلے گا کہ انہوں نے پرانے سیاحتی اصول اور سکہ بند روایات کو اپنے پاؤں سے روندتے ہوئے نئی جدید اصول واع کیے ہیں۔ وہ سادہ اصول یہ ہیں۔ انہوں نے سفرناموں میں خامخواہ کا رومانس پروٹوکول اور تعلقات سے قاری کو متاثر نہیں کیا۔ بلکہ وہ قارئین کو اپنے وجدان اور عقل و شعور سے دنیا کا جدید سیاحتی منظر نامہ، سیاسی اور تہذیبی بیانیہ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پھر ان کی پرتیں اور جہتیں کھول کھول کے مکالمہ کرتے ہیں۔

وہ اس فرسودہ سماج کو نکھارنے بنانے اور سنوارنے میں اپنی زندگی کا ایک قیمتی وقت صرف کر چکے ہیں۔ اور ”جنگ ابھی جاری ہے“ نصف صدی کا قصہ ہے کوئی دو چار برس کی بات نہیں، ان تجربات اور مشاہدات، قلم و کتاب سے مضبوط رشتہ، شعلہ بیاں اندازِ اظہار اور سفر در سفر سے ان کی شخصیت میں اک ایسی شان ِ زیبائی ملتی ہے کہ ”اک سمندر نے آواز دی مجھ کو پانی پلا دیجیے۔ “

آج کے وہ نئے سیاح، تاریخ دان اور سفر نامہ نگار یاد رکھیں کہ اگر ان کا مقصد محض کتاب شائع کرانا ہے۔ بے شک وہ کتابیں لکھیں شائع کروایں۔ لیکن وہ اپنے قاری پیدا نہ کر سکیں گے۔ اور نہ ان کی حقیقی پہچان ہو گی۔ اگر وہ فرخ سہیل گوئندی کے متعین کردہ راہیں، اصول اور بیانیہ کو اپنا لیں تو فائدہ میں رہیں گے۔ ورنہ۔ کتابیں تو دھڑ ا دھڑ چھپ ہی رہی ہیں۔ یاد رہے کہ بغیر کسی دکھوں کی چادر اُوڑھے اور سماج سے لاتعلق ان کتابوں کو اتنے قاری بھی نہیں ملتے، جتنے آج مسجد میں کسی فرض نماز کے نمازی ملتے ہیں۔ ( آخری لائن ایک لمحہِ فکر ہے، اس پر قارئین خود غور کریں )

فرخ سہیل گوئندی ملکی سیاست اور سیاسی تاریخ کے علاوہ عالمی سیاست کے بارے بھی گہرا ادرک رکھتے ہیں۔ ترکی ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے۔ آپ انہیں پاکستان میں ترکی کا انسائیکلوپیڈیا بھی کہہ سکتے ہیں۔ گوئندی صاحب ترکی بارے گھنٹوں بات کر سکتے ہیں۔ قدیم ترکی سے جدید ترکی تک کا سفر، عالمی سماج بیتی، اور پاکستانی سیاست کا خار زار سے مرغزار تک کا سفر وہ یوں باآسانی بیان کرتے ہیں۔ جیسے ہمارے قریش پور صاحب اور عبیداللہ بیگ صاحب پاکستان اور دنیا بارے گفتگو کرتے تھے۔

گوئندی صاحب لکھتے ہیں کہ ”میں جتنے عرصے سے کتابوں سے علم کے حصول کے لیے منسلک ہوں، اتنے ہی عرصے سے مشاہداتی تجربات و معلومات کے لیے سیاحت کر رہا ہوں۔ روزِ اوّل سے میرے ان سفروں کی وجہ لوگوں کو جاننا، سیاحت کیے گئے خطے کی تاریخ، سیاست، تہذیب و تمدن، سماج اور اس کے آج کا مشاہد ہ ہے۔

سیاسی جہاں گردی کے اس عمل میں چالیس سے زائد ممالک کی سیاحت کر چکا ہوں۔ جن میں کچھ ممالک کا سفر بار ہا کیا۔ ایسے ممالک میں ترکی سر فہرست ہے جہاں میں تقریبا ٰ چالیس پچاس مرتبہ اپنے مشاہدے کو جلا بخشنے کی خاطر گیا۔ اسی طرح بھارت کے دس سے زائد، فرانس کے آٹھ سفر اور امریکہ کے آٹھ سفر شامل ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ، افریقہ، امریکہ، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا اور کسی حد تک لاطینی امریکہ تک، میرے قدموں نے ان خطوں کو چھوا۔

کتابوں کے بعد میرے علم و معلومات کا ایک بڑا ذریعہ یہ سفر ہی رہے ہیں۔ یہ بات ہمارے ملک میں معیوب یا ناقابل یقین سمجھی جاتی ہے کہ آپ سیاحت سے علم کی تلاش میں نکلے ہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ کسی بھی شعبے میں تحقیق کا فقدان تو کیا، اس کا وجود تک مٹتا جا رہا ہے۔ جب آپ کسی عالمی کانفرنس میں جاتے ہیں تو آپ اپنے ہم خیال لوگوں میں موجو د ہوتے ہیں اور آپ اس خطے یا ملک کے بارے میں رائے بنانے سے قاصر ہوتے ہیں، اس لیے کانفرنسوں سے آپ ریاست، سماج اور خطے کے بارے میں رائے آسانی سے نہیں بنا سکتے۔ ”

کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں کہ ہم اپنے مشاہیر کرام اور ہر بڑی علمی ادبی اور عبقری شخصیت سے خائف رہتے ہیں۔ اس کی قدر و توقیر سے ڈرتے ہیں۔ ہمیں اب بڑے پن اور اعلیٰ ظرف کا مظاہرہ کرنا ہوگا، یہ رویہ اب عام آدمی سے لے کر ریاست کے اعلیٰ اشرافیہ کو اپنانا ہوگا۔ بہرحال آگے بڑھتے ہیں اور آج کم از کم ایک علم و دانش شخصیت کو تو خراج تحسین پیش کر ہی ڈالیں۔ فرخ سہیل گوئندی ایک نظریاتی کارکن، دانشور، مصنف، کالم نگار، شا عر، سیاح، پبلشر اور ایک نظریاتی شخصیت ہیں۔ آپ کے موضوعات سماج، سیاسیات، مشرقِ وسطیٰ، ترکی، عالمی سیاست اور تاریخ ہیں۔ وہ پاکستان کے ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے تحریر و تقریر کے ذریعے اپنا ایک خاص مقام بنایا۔ آپ نے پی ٹی وی پر بھی اپنے تجزیوں سے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

جمہوری پبلی کیشن کے پلیٹ فارم سے آپ اپنی اور دوسرے مصنفوں کی ہر اصناف کی کتاب شائع کرتے ہیں۔ آپ نے مختلف ممالک کے لکھاریوں کی تحریروں کے قومی زبان اردو میں تراجم کروا کر اپنے ہاں کے عام لوگوں کو جدید دنیا کے علوم تک رسائی دینے کا بیڑا بھی اٹھایا۔ پبلشنگ ہاؤس میں کام کرنے والے تمام لوگ، اس کے منافع اور نقصان میں شریک ہیں۔ کاروبار کرنے کا یہ ماڈل پورے پاکستان میں صرف گوئندی صاحب کے پاس ہے۔ تمام ملازمین بھی مالک ہیں۔

راؤ منظر حیات ایک نفیس اور دیانتدار بیور کریٹ رہے ہیں۔ آج کل کالم لکھتے ہیں۔ اور عالمی سماج ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”گوئندی بھی حد درجہ اکیلا انسان ہے۔ جس مضبوطی سے ریما بھابھی نے گوئندی کا ساتھ د یا ہے، وہ بھی حد درجہ قابل تعریف ہے۔ بھابھی، لبنان کے ایک بہت آسودہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ بلا کی ذہین ہیں۔ گوئندی پر ریما بھابھی کا بے حد مثبت اثر ہے۔ “

خیال تھا کہ کچھ تازہ اقوالِ گوئندی، عالمی لیڈروں سے ملاقات کا احوال، لاہو ر سے محبت، بھٹو سے عشق، ترک مصنفہ یشار سیمان کی اسلام آباد میں کامیاب تقریب رونمائی، برطانیہ کے حالیہ ا نتخابات میں ممکنہ وزیراعظم بورس جانسن کی اہلیہ مرینا وہیلر کی گوئندی صاحب کے لاہور گھر آمد اور اکٹھے سرگودھا کا سفر جیسے موضوعات بھی ہو جائیں تو تحریر دو آتشہ ہو جائے۔ لیکن یہ سب پھر کبھی۔

نوٹ : کچھ لوگ پوچھتے ہیں گوئندی صاحب اتنا سب کچھ کرتے ہیں۔ یہ انرجی کہاں سے آتی ہے؟ میں اٹھارہ گھنٹے کام کرتا ہوں۔ یہ ہے میری انسپائریشن اور انرجی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).