بنگال کی علیحدگی اور قوم کی ساخت کے بارے میں کچھ خیالات


بنگلہ دیش ایک قوم تھی اور ہے۔ بنگال کی ایک زبان، ایک جیسی شاعری، ایک طرح کی ثقافت رہی ہے۔ اگر ان کا موازنہ پنجاب اور جنوبی پنجاب یا سندھ کی نئی نہری، زرعی زمین کی ثفافت کے ساتھ کیا جائے تو وہ ثقافتی طور پر بہت آگے تھے اور کہیں زیادہ سیکیولر تھے، وہ نوبل انعام یافتہ ٹیگور اور نذرالاسلام کی سرزمین تھی۔

ہماری ریاست کی طرح وہ مذہب کی نازک ڈور کے ساتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں۔ ان میں شناخت کا بحران نہیں ہے۔ ان کا اسلام کا ورژن مون سون اسلام ہے جس کا امتزاج سندھ کی طرح تصوف کے ساتھ ہے۔ شمالی علاقوں کے بالکل برعکس جہاں صحرائی اسلام کی سلفی شکل نے تاریخی پشتون ولی کوڈ کے ساتھ اپنا قریبی تعاون پایا۔ نجدی نظریہ نے پشاور کے سخت گیر قوانین کے ساتھ زیادہ ہم آہنگی پائی جو ڈھاکہ کے نرم اسلامی مون سون ورژن کے ساتھ کبھی نہیں ہو سکتی تھی۔ اس قدرتی ضابطہ کی وجہ سے پشتون ایک پیدائشی سلفی مسلمان ہے۔

بنگلہ دیش کو یہ خوش گمانی ہر گز نہیں ہے کہ ”وہ مسلم حکمرانی کے وارث ہیں اور نہ ہی وہ غزہ ہند جیسی اجناس کے سوداگر ہیں۔ ’

بنگلہ دیش کا دفاعی بجٹ ہمارے بارہ ملین ڈالرز کے ڈیفنس بجٹ کے مقابلے میں محض 3 بلین ڈالرز ہے۔ یہ بہت حد تک کم خرچہ ہے۔ صرف اتنے بڑے خرچ میں کمی نے ہی ان کی معیشت کو زبردست سہارا دیا ہے۔ یقینا اس میں ایک ہاتھ ان کے جغرافیہ کا بھی ہے۔ بنگلہ دیش کے شمال میں درہ خیبر نہیں ہے اور نہ ہی جنوب میں پانی پت ہے۔ تاریخ اور پرانے زخم پاکستان سے کہیں زیادہ محصول وصول کرتے ہیں۔ یہ زخم ابھی بھی ہرے ہیں اور جنوبی ایشیاء کے شمال میں ابھی بھی ان زخموں سے خون بہہ رہا ہے۔

اگرچہ ہزاروں سالوں سے یہ رومن، ترکمانی، افغان ازبک اور ایرانی جنگجو تھے جنہوں نے بھارت کے تقدس کو پامال کیا لیکن خیبر کے راستے ان جغرافیائی سرحدوں کی پامالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفرت کی لہر کا بوجھ 1947 میں وجود میں آئی نوزائیدہ ریاست کو اٹھانا پڑا ہے۔ یہ کسی اور چیز کی وجہ سے نہیں ہوا سوائے اس کے کہ اس نوزائیدہ ریاست نے خود کو غزنوی، غوری، تغلق، دہلی سلطنت، مغل اور ابدالی کا وارث قرار دیتے ہوئے ان حملہ آوروں کی کارستانیوں کا پورا بوجھ اپنے آپ پر ڈال لیا۔ کیا اس کی ضرورت تھی؟ کیا یہ سمجھداری ہے؟ پاکستان نے یہ کمر توڑ بوجھ اٹھا رکھا ہے جبکہ بنگلہ دیش نے اس بوجھ سے 1971 سے چھٹکارا حاصل کر لیا ہے۔ چنانچہ دونوں کے مابین ان تاریخی داغوں اور غیر متناسب دفاعی اخراجات کا یہی فرق ہے۔

دنیا کی کوئی بھی قوم اپنی آمدنی کا 33 فیصد دفاع پر خرچ نہیں کر سکتی! لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہم کرتے ہیں اور پھر ہم اصل وجہ کی بجائے ہر چیز اور ہر کسی کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہمیں امن کی ضرورت ہے۔ اتنا دفاعی خرچ معیشت کے لئے انتہائی مضر ہے۔

ہمارے جغرافیہ اور اسلام کے ٹھیکے دار بننے کی ہٹ دھرمی کی وجہ ہمارے خود ساختہ تزویراتی فرائض ہیں۔ غزوہ ہند کے لئے غیرمعمولی معاشی اور معاشرتی قربانیوں کی ضرورت ہے اور یہی ہماری ابدی کمزوری کا سبب ہے۔

بنگال کے برعکس مغرب میں ہم ایک قوم نہیں ہیں ہم نو مختلف اقوام ہیں جن کو ایک ساتھ مذہب کے دھاگے میں پرو دیا گیا ہے۔ اسرائیل کے علاوہ دنیا میں کوئی دوسری قوم نہیں پائی جاتی جو مذہب کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو۔ حتی کہ اسرائیل بھی اب کافی سیکولر ہوگیا ہے۔ لیکن یہودی 2600 سال سے زیادہ عرصہ تک ہالوکاسٹ اور انخلا کے بعد معدومیت کے راستے پر تھے۔ ایک الگ نظریاتی وطن رکھنے کی ان کی شناخت ہماری نسبت بروقت اور موزوں تھی۔

او آئی سی کے زیر انتظام 56 اسلامی ممالک ہیں۔ لیکن او آئی سی بغیر کسی اختیار کے بالکل بیکار اتحاد ہے۔ آپ نے دیکھا کہ آج کیا ہوا؟ اردگان، مہاتیر، روحانی، اور خان کی سعودی عرب کے مقابل کاؤنٹر ویٹ قائم کرنے کی کوشش کو محمد بن سلمان نے ناکام بنا دیا۔ یہ اس لئے کہ ہمارا سیاسی وزن کافی کمپرومائزڈ ہے۔

قومیتی شناخت کی حامل قوموں کو بنتے ہزاروں سال لگتے ہیں جیسے، ایرانی، ترکی، مصری اور بنگالی حقیقی قومیں ہیں، وہ کبھی نہیں ٹوٹیں گی۔ ان کے برعکس اگر ریاستوں کے درمیان عدم مساوات ہے تو ریاستیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ جیسا کہ یوگوسلاویہ اپنے اصل قومیتی حلقوں میں بٹ گیا اور اسی طرح سوویت روس کے ساتھ بھی ہوا۔

یاد رکھئیے مذہبی شناخت لوگوں کو متحد نہیں رکھ سکتی ورنہ او آئی سی کے 56 ممالک ایک ہوتے۔ ۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو اس کے برعکس خطے میں تباہ کن جنگیں اور لڑائیاں مسلمانوں کے مابین جاری ہیں۔

دنیا کی دوسری چالیس اقوام کی طرح ایرانی اور جزیرائی عرب اصل قومیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ قومیت کے حصول کی کردوں کی شدید خواہش بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ایران اور صحرا میں مقیم جزیرائی عرب پانچ ہزار سال پرانے تاریخی ورثہ کے مالک ہیں اور ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو بیرونی حملہ آوروں کی تباہ کن اور پیچیدہ رسم و رواج کی ملاوٹ سے پاک ہے۔

اس کے برعکس ہم اس سرزمین کے باسی ہیں جہاں حملہ آور فاتحین نے باقاعدگی سے ہماری زمین، ہمارے لوگوں اور ہمارے جینیاتی اسٹرکچر تک کو پامال کیا، ہم ہزاروں کی تعداد میں ہوئی اس لوٹ مار اور عصمت دری کی پیداوار ہیں!

یہاں تک کہ ہماری زبان اردو بھی ان حملہ آور فوجوں سے پیدا ہوئی ہے! ایک بات سمجھ لیجیے یہ ابلتی ہوئی شدت پسندی، یہ جارحیت، دوسروں کے لئے عدم برداشت ہمارے ان جنگجو آباواجداد کی باقیات ہیں جو ہماری عادات پر اپنے یہ نقوش چھوڑ گئے۔

حقیقی قومیں کیا ہیں؟

کوئی بھی مذہب اپنی مذہبی چھتری تلے مختلف اقوام کو اکٹھا نہیں رکھ سکا ہے، مذہب کے نام پر بنی کوئی بھی ریاست تب ہی قائم رہ پائے گی جب اس کا بنیادی ڈھانچہ سیکولر افکار اور دیگر ضروری اجزاء پر مشتمل ہو۔

بس یہی حقیقت ہے، خالص اقوام اپنی مشترکہ ثقافت، مشترکہ زبان، مشترکہ خوراک، اور سب سے اہم جغرافیائی سرحدوں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ جیسے سمندر، پہاڑ اور صحرا گاؤل اور جرمینک قبائل جیسی قوموں کی پہچان ہیں، جیسے زرگوس کے پہاڑ عرب اور ایران کی پہچان ہیں۔ رب الخلی / نجد کو صحرا نے جدا کئیے رکھا اور اس وقت تک یہ دنیا سے کٹا رہا جب بنو ہاشم اور بنو امیہ کی شکل میں قریش ابھر آئے۔

ستر یا سو سال قوم بننے کے لئے کافی نہیں ہوتے، 2500 سال بہرحال کافی ہوتے ہیں۔ کوئی تو وجہ ہے کہ ایران کے ٹوٹے جانے سے متعلق کوئی فکر نہیں کرتا۔ یاد رہے میں یہاں ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جانے کی بات کر رہا ہوں۔ گاول، روسی جرمینک، اینگلو سیکسن، ترک، ایرانی اور نجدی حقیقی اقوام میں سے چند اقوام ہیں۔

پاکستان، یوگوسلاویہ، سوویت رشیا حتی کہ، سلطنت عثمانیہ اور بہت سی دوسری ریاستوں اور سلطنتوں کو نظریاتی جبر کے تحت یکجا کیا گیا تھا، اس لئے ان کا اپنی حقیقی قومی اکائیوں میں اتحاد نازک ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے، سرب، بوسنیا، کروشیا اور کوسوو ٹوٹ کر الگ ہو گئے۔ سندھی، بلوچی، پنجابی اور پشتون اس خطے کی کچھ دوسری حقیقی اقوام ہیں۔ اسی طرح بنگالی، تامل اور ہندوستان کی دوسری سیکڑوں حقیقی اقوام ہیں جو ہزاروں سالوں میں ایک ساتھ یکجا ہوئی ہیں اس لئے انڈیا اپنے سیکولر آئین کی وجہ سے اب تک کہیں زیادہ مستحکم ہے۔ اس سیکولر آئین کو نکال دیں تو یہ اتحاد بکھر کر پارہ پارہ ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments