کشمیر : کہانی ناکام قیادت کی


\"muhammad ہم کشمیر کے ماہر ہرگز نہیں۔ اسے ہم کامن سینس کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہماری کامن سینس اٹوٹ انگ، شہ رگ یا یو این قرارداد جیسی اصطلاحات سے ہر گز مطمئن نہیں ہوتی۔ کچھ سوال ذہن میں آتے ہیں مگرتسلی بخش جواب نہیں ملتا ۔ مثلاً کون ہے جو شہ رگ کے بغیر زندہ رہ سکے! بھارت کے پاس جو کشمیر ہے اسکی وجہ سے یہ بہت حسین لگتا ہے۔ اگر بھارت ٹنڈا ہوتا تو اتنا خوبصورت کیسے دِکھے!

بھارت اور پاکستان 1947سے پڑوسی ہیں ۔ اس سے قبل بھارت میں کئی قومیں رہتی تھیں۔ اب بھی ہیں۔ ان کے مذہب، رہن سہن اور رسم ورواج مختلف تھے مگر سب اپنے دکھ درد اور خوشیاں آپس میں بانٹتے تھے۔ ایک دوسرے کے مذہبی رسومات، کلچر اور جذبات کا خیال رکھتے تھے اور مل جل کر رہتے تھے امن و آتشی سے۔ اس طرح کی مثالیں ہندوستان کے کچھ حصوں میں آج بھی ملتی ہیں۔ ہماری آرٹسٹ (پینٹر)دوست روحی خان فون پر بتلا رہی تھیں کہ انکے شہر کلکتہ میں عاشورہ کے دن درگا پوجا کا ایک حصہ ہونا تھا جو ہندو بھائیوں نے عاشورہ کے احترام میں آگے کر لیا تا کہ مسلمان بھائی آرام سے عاشورہ منا سکیں۔ کیساعجیب سیاسی نظریہ تھا کہ ایک ہی قوم کو جوڑ کر نہ رکھ سکا۔ اصل میں کامن سینس کے خلاف تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد پاکستان کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ بنگلہ دیش بن گیا بنگالیوں کیلئے جو کہ ایک ہی قوم کا حصہ تھے جو ہندو کو اپنے آپ سے الگ قوم مانتی تھی۔ بچے کچے پاکستان میں بہت سے لوگ دو قومی نظریے سے متفق نظر نہیں آتے۔ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے نصف سے تھوڑا کم ہے ۔ یہ نہ صرف ہمارے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بھی ایک ’نو گو ایریا‘ بن چکا ہے۔ بلوچوں کی اکثریت مسلمان ہیں مگر ’ایک قوم‘ والی منظق انکے دماغ میں نہیں بیٹھتی۔

ہمارے ملک میں دو قومی نظریے کے ٹھیکیدار تعلیمی اداروں کی نصابی کتابیں، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، اور ریٹائرڈ فوجی اور بیوروکریٹس ہیں جو کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کوخود ہی دو قومی نظریے کی حفاظت پر مامور کر لیا ہے۔ انکے کام کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ریٹائرڈ کے علاوہ کسی قدر سٹھیا بھی ہو چکے ہیں۔ بھارت کے پاس بھی ایسے بابے موجودہیں مگر یہ لوگ دو قومی نظریے کو نہیں بلکہ ہندوتوا اور اٹوٹ انگ جیسے نظریات کے خودساختہ چوکیدار ہیں۔

اٹوٹ انگ ہو یا دو قومی نظریہ دونوں کامن سینس سے ٹکراتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوںہی کشمیریوں کیلئے کوئی حقیقی قدرنہیں رکھتے۔ کشمیر کے معاملے میں اصل فریق تو کشمیری ہیں۔ کچھ دیر کیلئے اٹوٹ انگ یا شہ رگ والی منطق کو سائیڈ پر رکھیں اور یو این کی قرارداد کو دیکھیے ۔ اس وقت مشرقی اور مغربی پاکستان ملکر پورا پاکستان بناتے تھے۔ اب مشرقی پاکستان تو بنگلہ دیش ہے۔ کل کلاں اگر حسینہ واجد نے کشمیر پر بنگلہ دیش کا حق مانگ لیا تو کیا ہو گا؟ کیا ایسا ممکن ہے؟ ہمیں نہیں معلوم۔ اس کا جواب تو کوئی انٹرنیشنل لاءکا ماہر ہی دے سکتا ہے۔

ہم بنگالیوں کو عزت اور برابر کے حقوق نہ دے سکے باوجودیکہ کہ وہ ایک قوم کا حصہ تھے۔ ہم ان کی زبان کی عزت نہ کر سکے۔ہم نے اردو کو ملک کی قومی زبان قرار دے کر قومی تنوع کا مذاق اڑایا۔ اب بلوچ دوستوں کے بقول ہم ان کے ساتھ بھی ےہی سلوک کر رہے ہیں۔ انہیں بھی ہم سے تقریباً وہی شکایات ہیں جو ایک زمانے میں بنگالیوں کو تھیں۔ لیکن یہ امر مودی جی کو اٹوٹ انگ جیسی تھیوری آگے بڑھانے میں کوئی مدد مہیا نہیں کرتا۔ البتہ کشمیریوں کو اس بات پر سوچنے پر ضرور مجبور کرتا ہے کہ اگر وہ کبھی پاکستان کا حصہ بن گئے تو ہم لوگ ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ سندھیوں والا، بنگالیوں والا یا بلوچیوں والا۔ کیا انہیں وہ تمام حقوق ملیں گے جو بھارت نہیں دے رہا؟ کیا انہیں وہ عزت ملے گی جو انڈیا میں نہیں دی جاتی؟

ہمارے جہادی ایک طرف تو کہتے ہیں کہ یو این امریکہ کا گماشتہ ہے اور دوسری طرف اسی گماشتے سے یہ بھی عرض کر رہے ہوتے ہیں کہ کشمیر پر اپنی قرارداد پر عمل کرواﺅ۔ سب جانتے ہیں کہ یو این او اس ضمن میں مو ¿ثر کردار ادا نہیں کر سکتی ۔ عراق والے معاملے پر اسکی بے بسی دیکھ لی ہم سب نے۔ کامن سینس گماشتہ والی بات تو مانتی ہے مگر یہ نہیں کہ یو این اپنی قرارداد پر عمل کروائے۔ کشمیر کا بڑا حصہ تو پہلے ہی بھارت کے قبضے میں ہے اور اس کے ظلم سہہ رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ وہ یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کس قسم کی عزت افزائی یہاں ہو گی۔ ہمارا اقلیتوں کے ساتھ ’حسنِ سلوک ‘، اور جس طرح جہادی پھل پھول رہے ہیں ۔ کیا کشمیری صرف آقاﺅں کے چہرے تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟

حماقتوں میں بھارت سے بھی آگے ہے۔ انڈیا اگر چاہتا تو چند سادہ سے اقدامات کی مدد سے کشمیر کا مسئلہ حل کر لیتا۔ اول، یہ سمجھ لیتا کہ اٹوٹ انگ ایک فضول تھیوری ہے۔ دوئم، یو این اپنی قرارداد پر کبھی بھی عمل نہیں کرا سکتا۔ سوئم، پاکستان بھارت سے اور بھارت پاکستان سے کشمیر زبردستی نہیں چھین سکتے۔ چہارم، کشمیریوں کو مساوی عزت اور حقوق دے کر ۔ بھارت کا یہ جنیاتی مسئلہ ہے کہ وہ اقلیتوں کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے ۔ کہنے کو تو یہ سیکولر ملک ہے مگر سیکولرازم سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ نظر نہیں آتا۔ البتہ ہندوتوا بال کھولے ناچتی نظر آتی ہے۔ اگر کشمیریوں کو بھارت میں عزت ملتی تو آج کوئی آزادی کی تحریک کشمیر میں نظرنہ آتی۔ گذشتہ چودہ ہفتوں سے سری نگر کی جامع مسجد اور دیگر بڑی خانقاہوں میں نمازِ جمعہ نہیں ہونے دی گئی۔ 12 اکتوبر کو عاشورہ کے جلوس پر پابندی لگائی گئی۔ سو کے لگ بھگ معصوم کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ 1500 افراد چھرے والی بندوق کا نشانہ بن کر مکمل یا جزوی طور پر بینائی کھو چکے ہیں۔ یہ سب کچھ پچھلے سو دن میں ہو ا ہے۔ کیا ایسی ہوتی ہے سیکولر جمہوریت؟ بھارتی قیادت نے ہر وہ موقع گنوایا جس سے وہ کشمیریوں کا دل جیت سکتے تھے۔ اور ہم کشمیریوں کے نادان دوست ثابت ہوئے۔ ایسا جہاد لانچ کیا کہ ساری دنیا کو کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم نہیں مگر سرحد پار دہشت گردی نظر آتی ہے۔

 

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments