ہجو اچانک ہماری شاعری میں شجر ممنوعہ کیوں ٹھہری؟


برصغیر میں جعلی اخلاقیات کی ابتداء مولانا حالیؔ صاحب وغیرہ نے کی۔ آپ کی نظم نثر اور تنقیدی مضامین سے بڑی حد تک وہ نظم نثر اور صحافتی اسلوب پیدا ہوا جو آج رائج ہے، بڑی حد تک سرسید اور حالی نے ہند اسلامی تہذیب کے ساتھ وہی کیا جو انگریز کی تلنگی فوج نے 1857 ء میں ہند کے ساتھ عموماً اور دہلی کے ساتھ خصوصاً کیا تھا۔

سرسید اور حالی سے پہلے کے زمانے میں ہماری غزل، داستان اور دیگر نظم و نثر کی اقسام انسان کا انسان سے کلام تھیں۔ پھر یہ سب ہی اصناف یا تو پند و نصائح بن گئیں یا پھر انقلابی توپ خانہ۔ اس حالی و سرسید تحریک نے نظم میں قصیدے، مرثیے وغیرہ کو تو کمزور کیا ہی مگر ہجو کی تو جڑ ہی کھود دی۔ اب حالی و سرسید کی نئی ”شریعت“ میں ہجو تو حرام ہی قرار پائی۔ اب اپنے دشمن، اپنے مخالف یا کسی بلاوجہ برے لگنے والے کے خلاف اشعار لکھنا اور وہ بھی گالیوں کی اشرفیوں کے ساتھ! یہ تو بڑی غضبناک حرکت ہے اور جب کہ نظم و نثر کی ہر صورت کو بقول حالیؔ صرف قوم میں شعور جگانے کے لئے ہونا چاہیے۔

مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہجو ہماری شاعری میں ہمیشہ سے رائج تھی۔ میرؔ نے جو خوبصورت ہجویات تحریر کی ہیں وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی تھیں۔ تو پھر ہجو اچانک ہماری شاعری میں شجر ممنوعہ آخر کیوں ٹھہری اور اس نے ہمارے معاشرے کے ساتھ کیا کیا؟

حالیؔ اور سرسید احمد خان کا سایہ ہمارے ادب پر تب پڑا جب مغرب میں ایک ایسا شخص جوان ہو رہا تھا اور نظریہ سازی کر رہا تھا جس کے نظریات سے ہجویات کے حق میں سب سے بڑی دلیل ہمیں ملتی ہے۔ یہ شخصیت ہے سگمنڈ فرائیڈ اور فرائیڈ ہم کو اس حوالے سے بڑی ہی اہم بات بتاتا ہے۔ فرائیڈ کہتا ہے کہ انسان کی جبلت مرگ بھی جبلت حیات کی ہی طرح ایک قوی جبلت ہے اور انسان کے افعال و کردار میں بالکل اتنا ہی کردار ادا کرتی ہے جتنا کہ جبلت حیات۔

فرائیڈ کہتا ہے کہ کوئی بھی جبلت اگر اپنی خام صورت میں ظاہر ہو تو یہ انسان سے زیادہ جانوروں کے لئے موزوں ہے۔ انسان اپنی جبلتوں کو ارتفاع دیتا ہے۔ ان کے دفاعی نظام کے ذیل میں فرائیڈ نے بہت سی تفصیل سے sublimation کا تذکرہ کیا ہے۔ شاعری، ادب، مصوری اور فنون لطیفہ کی دیگر اقسام سب اسی sublimation کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان تمام ہی فن پاروں میں جبلتِ حیات یعنی جنسی جبلت کے علاوہ جبلت مرگ بھی ظاہر ہوتی ہے۔

فرائیڈ کہتا کہ تہذیب کی ابتداء اس دن ہوئی جب انسان نے غصے میں پتھر مارنے کے بجائے گالی بکی۔ گالی بکنا بھی دراصل ایک تہذیبی عمل ہے۔ اگر گالی کو سرے سے زمانے سے مٹا دیجئے تو پھر صرف گولی، بارود اور تلوار ہی رہ جائیں گے۔ گالی تو دراصل غصے کے آگے لگا ایسا سائلنسر ہے جو اس جبلت کو ارتقاء دے کر نسبتاً قابل برداشت بھی بنا دیتا ہے اور اس کا دباؤ فرد سے اسی طرح کم کر دیتا ہے جیسے ایک چمنی کمرے میں دھواں کم بھرنے دیتی ہے۔

ہجو کی مستحکم روایت کو ترک کر کے ہمارے سماج نے اپنے تئیں بہت اعلیٰ اخلاقیات کا چولہ تو پہن لیا مگر حقیقت میں غصے کی ادبی چمنی توڑ دی۔ ظاہر ہے کہ جب جعلی اور غیر فطری اخلاقیات کو اختیار کیا جاتا ہے تو نتیجہ بھیانک ہی ہوتا ہے اور بھیانک ہی ہو رہا ہے۔ ایک جانب آپ کے معاشرے میں گالی بکنا اور ہجو کہنا تقریباً الحاد کے درجے پر ہے اور دوسری طرف جب بھی آپ کا معاشرہ غصے میں کبھی محبوباؤں کے چہروں پر تیزاب پھینکتا نظر آتا ہے، کبھی لاشوں پر پیر رکھ کر تصویر کھنچواتا ہے اور کبھی ٹارچر سیل بنا کر۔

یہ وہ سماج ہے کہ جہاں مخالفین کو مار دینے کے بعد ان کے گھروں کی عورتوں کے ننگے جلوس نکالے جاتے ہیں مگر اسی سماج میں اگر آپ کسی تحریر میں ایک گالی لکھ دیں تو کوئی پبلشر، کوئی علمی و ادبی رسالہ یا ویبسائٹ اسے شایع کرنے پر تیار نہ ہو۔ اس سماج میں جب کلیات ِ میر ؔ شایع ہوتی ہے تو ہجویات یا تو اس سے کاٹ دی جاتی ہیں یا پھر ان کی ہر سطر میں بار بار تین نقطے ڈلے ملتے ہیں۔

کاش ہمارے سماج میں کوئی با اہمت شاعر، کوئی افسانہ نگار شاعری یا نثر میں دوبارہ ہجو کی روایت کو زندہ کر دے۔ کاش ہمارے یہ جذبات بھی ارتفاع پا سکیں تا کہ اس کی خام صورتیں کمزور پڑیں۔ کاش ہم پتھر مارنے کے بجائے گالی بکنا سیکھ لیں اور جب گالی بک چکیں تو ٹھنڈا سانس لیں۔ نہ جانے کب ہم حالی اور سرسید کی مردہ اخلاقیات کو ترک کر کے میرؔ اور مومنؔ کی سچی اخلاقیات کا اختیار کر سکیں۔ ہماری تہذیب وہی توازن حاصل کر سکے جو ہمیں 1857 ء سے قبل حاصل تھا۔ کاش!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).