اندرا گاندھی کے گھر میں


دہلی کے تاریخی مقامات کی سیاحت کرتے کرتے میں نے نظام الدین اولیاؒ اور خواجہ بختیار کاکیؒ کے مزار، غالب کی قبر، مہاتما گاندھی کی سمادھی، امام ضامن کا مقبرہ، جمالی اور کمالی کا مزار، قطب مینار، تغلق قلعہ، بلبن، ہمایوں، رضیہ سلطان، شمس الدین التمش، حضرت سرمد شہید سمیت لاتعداد حکمرانوں کے مقبروں، قلعوں، حصاری فصیلوں، اجڑی بستیوں، تاریخی محلوں اور محلات کو دیکھ لیا۔ اسی کے ساتھ ہمعصر تاریخ کے دل دکھا دینے والے نوادرات بھی دیکھے۔

میں جب پاسپورٹ بننے کی عمر میں داخل ہوا تو اسی کے ساتھ بھارت اور دہلی کی جہاں گردی کا آغاز کردیا۔ اور یہ عمل تواتر سے ہرسال 1985 ء تک برقرار رہا۔ اس کے بعد ایک طویل وقفہ آیا۔ اور 1985 ء کے بعد نوّے کی دہائی میں دوبارہ بھارت کے متعدد سفر ہوئے جو تمام تر مختلف کانفرنسوں کے سلسلے میں تھے۔ مگر جو بھارت میں نے اسّی کی دہائی میں دیکھا، اس کا واحد مقصد جہاں گردی تھا۔ کیا کیا دیکھا اور کن کن لوگوں سے ملا، وہ دو چار کتابوں میں ہی سما سکتا ہے۔ اس سے کم نہیں۔

جنوری 1985 ء میں دہلی میں جب سارا بھارت یومِ جمہوریہ کی تیاریاں کررہا تھا اور دہلی، بھارت کے اس قومی دن کا مرکز تھا، میں نے انہی دنوں دہلی کی تلاش میں کئی ایسے مقامات دیکھے جن میں صرف ایک حقیقی سیاح ہی دلچسپی رکھ سکتا ہے۔

اس روز سخت سردی اور دھند میں مجھے دہلی میں موجود اس گھر کو دیکھنا تھا، جہاں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی وزیراعظم اندرا گاندھی رہتی تھیں۔ اندرا گاندھی جس کی حکمرانی میں بھارت کی افواج مشرقی پاکستان میں داخل ہوئیں اور وہاں پاکستان کو اسلامی تاریخ کی ایک دردناک شکست کا سامنا ہوا۔

16 دسمبر 1971 ء سانحہ مشرقی پاکستان۔ پاکستان کی اکثریتی آبادی (بنگالیوں ) نے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ ہمعصر تاریخ کا یہ واحد واقعہ ہے کہ اکثریت نے اپنے سے کم اکثریت سے علیحدگی اختیار کی۔ دل دْکھا دینے والی داستان۔ ہمارے نوّے ہزار جنگی قیدی اسی سانحے کے بعد بھارت میں قید ہوئے۔ اسی اندرا گاندھی کا گھر، جس کے ساتھ، بعد میں جولائی 1972 میں صدرِ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ کیا، جنگی قیدی بھی واپس آئے اور مغربی پاکستان کا پانچ ہزار مربع میل رقبہ بھی واپس ملا۔

اور اہم بات یہ کہ بھارت کا مطالبہ اور فیصلہ تھا کہ پاکستان کے اعلیٰ فوجی افسران پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جائے جن میں تحریک انصاف کے لیڈر اسد عمر کے والد جنرل عمر بھی شامل تھے۔ لیکن پاکستان شملہ معاہدہ میں ذوالفقار علی بھٹو کی باکمال ڈپلومیسی کے تحت کامیاب ہوا اور ان اعلیٰ ترین فوجی افسران کو بھارت کے اس مطالبے اور فیصلے کو بدلنے پر مجبور کیا جس کے تحت وہ ان پر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلانا چاہتا تھا۔

اسی اندرا گاندھی کا گھر جس کی اسّی کی دہائی میں سکھ علیحدگی پسندوں نے نیندیں حرام کررکھی تھیں۔ پاکستان اور دنیا بھر کے میڈیا میں اْن دنوں خالصتان کی خبریں شہ سرخیوں میں شائع ہوتی تھیں۔

اور پھر یکم جولائی 1984 ء سے 8 جون 1984 ء تک سات روز اندرا گاندھی کے حکم پر بھارتی افواج نے سکھ مت کے سب سے بڑے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل امرتسر پر دھاوا بول دیا جو بھارت کے سفر کے دوران میری جہاں گردی کا اہم مقام تھا۔ دسمبر 1984 ء کے موسم سرما میں مَیں بھی گولڈن ٹیمپل گیا۔ اندرا گاندھی کے گولڈن ٹیمپل پر فوجی آپریشنOperation Blue Star سے تقریباً پانچ ماہ بعد۔

پانچ ماہ بعد دسمبر 1984 ء میں، جہاں ابھی تک بھارتی افواج کی توپوں اور قتل عام کے نشانات دیکھے جاسکتے تھے۔ اور وہ کیمپ بھی دیکھا جہاں اس آپریشن میں ہلاک ہونے والے سکھوں کے اہل خانہ گولڈن ٹیمپل کے ایک حصہ میں قیام پذیر تھے۔ آپریشن بلیو سٹار۔ گولڈن ٹیمپل میں خالصتان تحریک کے رہبر جرنیل سنگھ بھینڈراں والا اور اس کے علیحدگی پسند ساتھیوں کے خلاف تھا۔

بھارت کے دس ہزار عسکری دستوں نے اس آپریشن میں شرکت کی۔ بھارت کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق، اس آپریشن میں صرف 493 لوگ ہلاک ہوئے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق، اس کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔ اس بات سے شاید چند ہی لوگ آگاہ ہوں کہ سکھ علیحدگی پسندوں کے علاوہ، گولڈن ٹیمپل میں بھارت کے ماؤ نواز کمیونسٹ نکسل باڑی (سرخے ) بھی گولڈن ٹیمپل میں سکھ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہی موجود تھے۔ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل کی زخمی دیواروں کو گولڈن ٹیمپل کے اندر، متصل گوردوارو ں کو دیکھنے کے بعد جب دسمبر 1984 ء کو میں دہلی پہنچا تو اس دہلی کو پچھلے سال سے مختلف پایا۔

خوف زدہ دہلی۔ خاموش سکھ، آنکھوں ہی آنکھوں میں اندر درد بانٹتے ہوئے۔ صرف دو ماہ قبل 31 اکتوبر 1984 ء کو اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی اور بھارت کے مختلف شہروں میں سکھوں کے ساتھ جو ہوا، اس کی کئی دردناک کہانیاں سننے کو ملیں۔

دہلی پولیس کی اکثریت ریاست ہریانہ کے ہندو جاٹوں پر مشتمل ہے، کیسے یہی دہلی پولیس، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد سکھوں کے گھروں پر بلوہ کرنے والوں کی سہولت کار بنی۔ قتل عام کی لاتعداد داستانیں تھیں۔ ہزاروں سکھ، عورتیں، بچے اور جوان، اندرا گاندھی کے قتل کے بعد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس لیے کہ ان کی بستیاں مسلمانوں کی طرح نہیں تھیں۔ مسلمان، بھارت کے اندر اپنے مخصوص محلوں میں رہتے ہیں، کیوں کہ وہ دہائیوں سے ہندو مسلم فسادات کے تجربوں سے گزر چکے ہیں۔ بھارت میں ان مسلم بستیوں کو میں Muslim Gattos کہتا ہوں۔ کیوں کہ اس طرح وہ ہندو بلوائیوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ جبکہ سکھوں کے گھر ہر شہر میں بکھرے پڑے ہیں۔ اس طرح انہیں چْن چْن کر نشانہ بنانا آسان تھا۔

اندرا گاندھی کے قتل کے بعد، چار روز جس طرح دہلی اور بھارت کے مختلف شہروں میں سکھوں کو تلاش کرکے مارا گیا، یہ بلوے بھارت کے جمہوری اور سیکولر چہرے پر ایک بدنما داغ ہے۔ محتاط اعداد و شمار کے مطابق، ان بلووں میں بیس ہزار سے زائد سکھ مارے گئے۔ سڑکوں پر Lynch کرنے سے لے کر، تیزاب پھینکنے، آگ لگانے اور گھروں کے اندر ہی بھسم کر دینے کے واقعات کے ساتھ ساتھ دہلی اور دیگر بھارتی بستیوں میں عصمت دری کے واقعات بھی ہوئے۔ بعد کی اطلاعات کے مطابق، قتل کی گئی لاشوں کی قبروں کی خبریں آچکی ہیں۔ ان بلووں میں پچاس ہزار سے زائد سکھ Displaced ہوئے۔

آج تک بھارت میں جب بھی اس حوالے سے آواز اٹھی، اسے نہایت ہوشیاری سے دبا دیا گیا۔ مگر میرے لیے دلچسپ خبر یہ تھی کہ ممبئی میں سکھوں کے خلاف ہندو بلوائیوں کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا۔ مگر کیوں؟

میرے لیے یہ سوال بے حد اہم تھا، جس کا جواب اسی سفر میں ایک ذمہ دار سکھ دوست نے دیا کہ ”ممبئی میں ہم لوگوں کا قتل عام اس لیے ممکن نہ ہوسکا کہ ممبئی کے مال دار سکھوں نے شیوسینا کے لیڈر بال ٹھاکرے کو مشترکہ طور پر بڑا نذرانہ پیش کیا کہ مہاراج ہم جان کی امان چاہتے ہیں۔ بال ٹھاکرے، ممبئی اور مہاراشٹر میں ہندوتوا اور انتہاپسند سیاست کے ساتھ ساتھ گینگسٹر بھی تھا۔ ممبئی میں اس کا حکم چلتا تھا اور یوں ممبئی کے سکھ قتل عام اور لوٹ مار سے محفوظ ہوگئے۔

جنوری 1985 ء کے پہلے ہفتے اْس سرد صبح مجھے اسی اندرا گاندھی کا گھر دیکھنا تھا۔ 1صفدرجنگ، دہلی، سابق بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا گھر۔

ایک چھوٹا سا گھر، بالکل اسی سائز کا اور اسی جیسا طرزِتعمیر جیسا عارف جان روڈ لاہور کینٹ میں ہمارا گھر تھا۔ دو تین بیڈ روم، سنگل سٹوری۔ چھے کرسیوں پر مشتمل ڈائننگ ٹیبل۔ چھوٹی سی لائبریری اور روشندان تک معمولی سی الماریاں اور اْن میں بھری کتابیں۔ معمولی سا کچن اور سادہ سا باتھ روم۔ چھوٹا سا لان اور عام سا برآمدہ۔ نہایت سادہ اور مختصر سا گھر۔ اور اس گھر سے منسلک بھارتی وزیراعظم کا دفتر۔ 1 اکبر روڈ، دہلی۔

31 اکتوبر 1984 ء کو صبح نو بجے وہ گھر سے متصل دوسرے گھر، جو اْن کا دفتر تھا، تیار ہو کر نکلیں۔ دفتر میں آئرلینڈ کا ایک صحافی پیٹر استینوف ان کا انتظار کررہا تھا جسے انہوں نے انٹرویو دینا تھا۔ وہ گھر سے نکل کر متصل دفتر کی کوٹھی کی جانب روانہ ہوئیں۔ انہی کے دو سکھ گارڈز ستونت سنگھ اور بیانت سنگھ نے 1 صفدر جنگ سے 1 اکبر روڈ کے مابین چھوٹی سی راہداری سے گزرتے ہوئے فائر کرکے انہیں ہلاک کردیا۔ دونوں سکھ گارڈز نے قتل کے بعد اپنے ہتھیار پھینک دیے۔

بیانت سنگھ نے کہا، ”توں جو کرسکدی سیں کیتا، جو مینوں کرنا سی کر دتا۔ “ (جو تم نے کرنا تھا کیا اور جو مجھے کرنا تھا، میں نے کردیا) ۔

اور یوں آپریشن بلیوسٹار کے ردِعمل نے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی جان لے لی۔ میں بھارتی وزیراعظم کے اس گھر کو جو اس وقت میوزیم قرار دے دیا گیا تھا، دیکھتا چلا جارہا تھا۔ مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش، شملہ معاہدہ، آپریشن بلیو سٹار۔ میرے دماغ میں گھوم رہے تھے۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے اس عام سے بنگلے کے اندر گھومتے گھومتے جب میں ایک تنگ کوریڈور میں پہنچا تو دیکھتا ہوں کہ دیوار پر لٹکی ایک تصویر۔

جنرل اے کے نیازی، بھارتی فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے ساتھ بیٹھے، مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کی دستاویز (Instrument of Surrender) پر دستخط کررہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک اور تصویر، 38 بور ریوالور کی تصویر، جو جنرل نیازی نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت ہتھیار ڈالتے ہوئے جنرل اروڑا کے حوالے کیا۔ یہ اس جرنیل کے ریوالورکی تصویر تھی جس نے 16 دسمبر 1971 ء کو ہتھیار ڈالنے سے چند روز قبل یہ آتش لبریز بیان جاری کیا تھا کہ

”Decca will fall only over my dead body۔ “

میرے قدم وہیں رک گئے اور سر شرم سے جھک گیا۔ میری اب یہ کوشش تھی کہ وہاں پر موجود دوسرے بھارتی سیاحوں کو میری کسی حرکت سے یہ شک نہ ہو کہ میں پاکستان سے آیا ہوں۔ بوجھل قدم وہیں جم گئے۔ اسی کوریڈور سے سینکڑوں مرتبہ اندرا گاندھی گزری ہوں گی، جہاں میں کھڑا تھا اور اس کی دیوار پر جنرل نیازی کے ہتھیار ڈالنے کی تصویر اور بھارت کے حوالے کی جانے والی میرے وطن کی اس ریوالور کی تصویر آویزاں تھی، جو ہماری شکست کا عملی استعارہ ہے۔

یک دم میں نے اپنے آپ کو سکتے سے نکالا، سر کو جھٹکا دیا اور تیز قدم اٹھاتے ہوئے، 1 صفدر جنگ روڈ سے 1 اکبر روڈ کی طرف بڑھا۔ وزیراعظم اندرا گاندھی کے گھر سے وزیراعظم اندرا گاندھی کے دفتر کی طرف۔ میرے سامنے وہ راہداری تھی، جہاں سے چل کر اندرا گاندھی اپنے دفتر جاتے ہوئے، اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئیں۔ صحافی پیٹر استینوف کی نامکمل ڈاکیومینٹری اس قتل پر مکمل ہوئی۔ راہداری۔ قتل گاہ کی راہداری۔ سیکیورٹی اہلکار اس راہداری کے تحفظ کے لیے بندوقیں تانے کھڑے تھے۔ اور میں دیگر سیاحوں کے ساتھ اس راہداری کو تکنے اور تصویریں بنانے لگا۔ وہ راہداری، جسے اندرا گاندھی عبور نہ کرسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).