ایک شام جب دانائی کی سہیلیوں سے ملاقات ہوئی


درویش کو اپنے نئے صوفی دوست نے دعوت دی کہ وہ اس کے ساتھ اس خانقاہ میں چلے جہاں اس نے سلوک کی بہت سی منازل طے کی تھیں اور دانائی کے بہت سے راز جانے تھے۔ درویش کو اپنے دوست کی دوستی بہت عزیز تھی اس لیے وہ اس کے ہمراہ خانقاہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ درویش نے سوچا کہ وہ تو نجانے کب سے سچ کی تلاش میں نکلا ہوا مسافر ہے اور وہ جانتا ہے کہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی سچ سے زندگی کے کس موڑ پر ملاقات ہو جائے۔ درویش اس حقیقت سے بھی باخبر ہے کہ زندگی ایک راز ہے اور اس راز کی کوکھ میں اور بھی بہت سے راز پوشیدہ ہیں جن سے ابھی اس کا تعارف نہیں ہوا۔

درویش کئی برسوں بلکہ دہائیوں سے اس شہر کی ایک کٹیا میں رہ رہا تھا لیکن صوفی دوست کی ملاقات سے پیشتر اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ اس کے شہر میں صوفیوں کی ایک خانقاہ بھی ہے۔

درویش جب خانقاہ میں داخل ہوا تو اس کی ملاقات خاموشی سے ہوئی۔ خانقاہ میں بہت سے صوفی دنیا و مافیہا سے بے خبر زمین پر بیٹھے اپنے مراقبے میں محو تھے۔ درویش کو خاموشی نے سرگوشی کے انداز میں بتایا کہ زیادہ گفتگو انسان کو حیران و پریشان کر دیتی ہے۔ الفاظ اسے باہر کی دنیا سے جوڑے رکھتے ہیں جبکہ خاموشی انسان کو اندر کی دنیا سے جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔

خاموشی نے درویش کا تعارف تاریکی سے کروایا۔ خانقاہ کی سب شمعیں بجھا دی گئیں تا کہ لوگ اپنے اندر کی تاریکی اور روشنی سے جڑ سکیں ۔

پھر تاریکی نے درویش کو تنہائی سے ملوایا۔ خانقاہ میں سب موجود تھے لیکن تاریکی میں سب تنہا ہو گئے۔ محفل میں ہوتے ہوئے تنہا۔ وہ تنہا تھے لیکن احساسِ تنہائی کا شکار نہ تھے۔

درویش نے اپنی ظاہر کی آنکھیں بند کیں اور باطن کی آنکھیں کھولیں تو اس نے چشمِ تصور سے دیکھا کہ وہ رحم مادر میں ہے جہاں اس نے پر سکون خاموشی تاریکی اور تنہائی میں زندگی کے پہلے نو ماہ گزارے تھے۔

درویش نے اپنے باطنی مراقبے کے بعد ظاہر کی آنکھیں کھولیں تو تنہائی نے اس کا تعارف موسیقی سے کروایا۔ خانقاہ کے ایک صوفی نے دف بجانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ دف کی آواز میں تیزی آنے لگی اور صوفی دھیرے دھیرے جھومنے لگے۔ وہ بیٹھے بیٹھے رقص کرنے لگے۔ دھیرے دھیرے موسیقی اور رقص میں حدت اور شدت پیدا ہونے لگی۔ اس رقصِ بسمل سے اتنی حدت پیدا کی کہ ایک صوفی نے اٹھ کر خانقاہ کی کھڑکی کھول دی تا کہ باہر کی تازہ ہوا اندر آ سکے اور اندر کی حدت باہر جا سکے۔ درویش کو صوفی کا رقصِ بسمل دیکھ کر ایک ایسا مور یاد آ گیا جو اپنے محبوب کا دل لبھانے کے لیے رقص کر رہا ہو۔

موسیقی کی حدت اور شدت سے صوفیوں کو حال آنے لگا اور وہ اٹھ اٹھ کر جھومنے لگے۔ درویش کو بچپن کا وہ منظر یاد آ گیا جب ایک قوالی کی محفل میں ایک صوفی کھڑا ہو کر رقص کرنے لگا تھا اور پھر جھومتے جھومتے اسے حال آ گیا تھا اور اس کے گرد اس کے دوستوں نے حلقہ بنا لیا تھا کیونکہ وہ صوفی ایک دفعہ گر کر زخمی ہو چکا تھا۔

درویش اس رقصِ بسمل کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ اس کیفیت کو حال اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس کیفیت میں صوفی ماضی اور مستقبل سے بے نیاز لمحہِ موجود میں موجود ہوتا ہے اور اپنے محبوب میں گم ہو جاتا ہے۔ اپنی ذات سے بے خبر ہو جاتا ہے اور اس روحانی معراج پر پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں شاعر نے لکھا ہے

من تو شدم تو من شدی تا کس نہ گوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری

صوفی حال میں اس مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں من و تو کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ قطرہ سمندر سے اور سمندر قطرے سے بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ یہ محبت کی آخری سرگوشی کا مقام ہے۔ انتہا ہے۔ معراج ہے۔

جیسے دھیرے دھیرے رقصِ بسمل میں حدت ’شدت اور تیزی پیدا ہوئی وہیں آہستہ آہستہ اس میں کمی آتی گئی اور ماحول دوبارہ خاموش ہو گیا۔ پرسکون ہو گیا۔

پھر موسیقی نے درویش کا تعارف شاعری سے کروایا۔ رومی ’ حافظ اور فردوسی کے اشعار پڑھے گئے اور موسیقی کے ساتھ گائے گئے۔ فارسی شاعری سن کر درویش کو وہ شب و روز یاد آئے جب وہ ایران میں رہتا تھا اور ایرانی موسیقار داریوش کا نغمہ

برادر جان نمی دانی چہ دل تنگم

برادر جان نمی دانی چہ غمگینم

سنتا تھا۔ ان دنوں درویش بہت دکھی تھا اور وہ نغمہ اس کے دکھوں پر مرہم رکھتا تھا اور اس کے دکھ کا سکھ سے تعارف کرواتا تھا۔

جب درویش خانقاہ میں اس شام رومی حافظ اور فردوسی کی شاعر سن رہا تھا تو اس پر یہ عقدہ وا ہوا کہ خاموشی اور تاریکی’ تنہائی اور موسیقی دانائی کی سہیلیاں ہیں۔ پکی سہیلیاں جو مل کر رقص بھی کرتی ہیں اور سرگوشیاں بھی۔

شام کے آخر میں درویش نے اپنے صوفی دوست کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے درویش کا دانائی کی سہیلیوں سے تعارف کروایا۔ درویش جب اپنی کٹیا کی طرف جا رہا تھا اور اپنے صوفی دوست کی دوستی کے بارے میں سوچ رہا تھا تو اسے اپنے دو اشعار یاد آ رہے تھے۔

یہ جو ٹھہرا ہوا سا پانی ہے

اس کی تہہ میں عجب روانی ہے

ایک چاہت جو عارضی سی لگے

اس کی تاثیر جاودانی ہے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail