19 دسمبر: نام کے مسلمان سے لاش کی پھانسی تک


میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میں کبھی بھی پرویز مشرف صاحب یا عمران خان صاحب کا حامی نہیں رہا اور میرے نزدیک پاکستان کی تاریخ میں کسی مارشل لاء کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اور آئین میں کسی مارشل لاء کی کوئی گنجائش نہیں موجود۔ گذشتہ چند روز پاکستان کی عدالتی تاریخ میں بہت ہیجان خیز ثابت ہوئے۔ پہلے پرویز مشرف صاحب کے خلاف خصوصی عدالت کا مختصر فیصلہ آیا ۔ میں اس فیصلے کی قانونی حیثیث پر بھی کوئی رائے نہیں دوں گا۔ لیکن آج جو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا اس سے ایک نئی بحث شروع ہو گئی ہے۔ اس فیصلہ کے پیرا نمبر 6 میں لکھا ہے کہ اگر پرویز مشرف صاحب کی موت ہو جاتی ہے تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر تین روز تک ڈی چوک میں لٹکا دیا جائے۔ اس لاش کو اتنی اجازت بھی نہیں عطا ہوئی کہ وہ ایمبولینس میں بیٹھنے کا اعزاز حاصل کر لے۔ اور پیراگراف 6 کی رو سے لاش کو ڈی چوک میں لے جانے والے اہلکار اگر لاش کو اٹھا کر لے جائیں گے تو یہ بھی عدالتی فیصلے کے خلاف ہوگا کیونکہ حکم یہ ہے کہ لاش کو گھسیٹ کر لے جایا جائے۔ خدا جانے یہ تین دن کی پخ کیوں لگائی گئی ہے ۔ ویسے سنا ہے کہ رومیوں کا طریق تھا کہ سزا یافتہ کو صلیب پر کیلوں سے ٹھوک سے تین دن کے لئے چھوڑ دیتے تھے وہ بھوک پیاس اور نقاہت سے ہی مر جاتا تھا۔ اس طرح یہ آہستہ آہستہ تکلیف سے مرنا دیکھنے والوں کے لئے عبرت کا باعث ہوتا تھا کہ چپ کر کے روم کی تابعداری کرتے رہو ۔ ڈی چوک اسلام آباد میں لاش لٹکانے کی حکمت تو شاید یہ ہو کہ راولپنڈی میں تو پہلے ہی دو وزیر ِ اعظم قتل ہو چکے ہیں اور ایک اور وزیر ِ اعظم کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر پھانسی بھی دی گئی تھی۔ اسلام آباد کا بھی تو حق ہے اور دارالحکومت ہونے کی حیثیث سے اہل اسلام آباد کا حق زیادہ ہے۔ کہیں انہیں احساس ِ کمتری نہ ہو جائے۔ بہت سے وکیل صاحبان کمال شفقت سے قوم کو یہ تسلی دے رہے ہیں کہ یہ تو صرف ایک جج کا فیصلہ ہے ۔ باقی دو نے اس سے اختلاف کیا ہے ، اس لئے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا ۔

جناب سوال یہ نہیں ہے کہ یہ ایک جج کا فیصلہ ہے یا دس ججوں کا فیصلہ ہے یا پارلیمنٹ کا فیصلہ ہے۔ سوال اس ذہنیت کا ہے جو اس فیصلے کی پیچھے کارفرما ہے۔ اور یہ کسی شدت پسند کی تحریر کا اقتباس نہیں ہے بلکہ ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا لکھا ہوا فیصلہ ہے۔ اور ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اس قسم کی ذہنیت ایک ہلکی سی چنگاری کی طرح شروع ہوتی ہے اور جلد ہی پورا ملک اس کی آگ میں جلتا نظر آتا ہے۔ اسے روکنا ہے تو ابھی روکو۔ آج جیو نیوز پر حامد میر صاحب کے پروگرام میں کچھ وکیل صاحبان گو کہ فیصلے کے اس حصے سے تو اختلاف کر رہے تھے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ فیصلے کے اس حصے کو زیادہ زیر ِ بحث لانے کی ضرورت نہیں ۔ سپریم کورٹ فیصلے کے اس حصے کا جائزہ لینے کے لئے کافی ہے۔ واہ کیوں صاحب !ہم کوئی گونگوں اور بہروں اور ذہنی مفلوج لوگوں کی قوم ہیں جن پر ہر کوئی قدغن لگاتا ہے کہ نہ کچھ سوچو اور نہ کچھ بولو۔ مشرف صاحب کے خلاف فیصلہ اس لئے آیا کہ انہوں نے آئین کے خلاف قدم اُٹھایا تھا۔ تو لاش کو لٹکانے کی سزا آئین یا تعزیرات پاکستان کی کس شق میں لکھی ہوئی ہے؟ کیا یہ سزا ماورائے آئین نہیں ہے؟ پاکستان کے قانون میں صرف زندہ لوگوں کے لئے سزائیں تجویز کی گئی ہیں ۔ لاشوں کو سزا دینے کا کوئی ذکر نہیں۔

می لارڈ ! تاریخ صرف امتحان پاس کرنے کے لئے نہیں پڑھی جاتی۔ تاریخ سبق حاصل کرنے کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ کیا یہ پہلی مرتبہ ہے پاکستان کی کسی عدالت نے اپنے فیصلے میں اس قسم کا تبصرہ درج کیا ہے جو کہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر تھا۔ میں 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سنائے جانے والے ایک فیصلے کی مثال پیش کرتا ہوں۔ اُس وقت سابق وزیر ِ اعظم ذولفقار علی بھٹو صاحب پر نواب محمد احمد قصوری کے قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا تھا۔ مولوی مشتاق صاحب اس بینچ کی سربراہی کر رہے تھے اور فیصلہ جسٹس آفتاب صاحب نے لکھا تھا۔ اس مقدمہ کا جو فیصلہ سنایا گیا وہ تو سب جانتے ہیں۔ لیکن اس فیصلہ کے پیراگراف 611 میں یہ بھٹو صاحب کے بارے میں یہ بھی لکھا گیا کہ وزیر ِ اعظم کے لئے ضروری ہے کہ وہ مسلمان ہو قرآن و سنت پر مکمل ایمان رکھتا ہو ۔ اسے صرف نام کا مسلمان نہیں ہونا چاہیے۔ جب بھٹو صاحب سپریم کورٹ کے سامنے اپنی زندگی کی آخری تقریر کر رہے تھے تو انہوں نے خاص طور پر عدالتی فیصلے اس حصے پر احتجاج کیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ جب مشرف صاحب کے خلاف خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا تو 19 دسمبر کی تاریخ تھی اور جب بھٹو صاحب نے سپریم کورٹ کے سامنے ‘ صرف نام کا مسلمان ‘ قرار دیئے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا اس روز بھی 19 دسمبر کی تاریخ تھی۔ بھٹو صاحب نے عدالت میں کہا کہ کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مجھے نام کا مسلمان قرار دے ۔ ایک اسلامی ریاست میں اور پھر ایک کلمہ گو کے لئے یہ بڑی غیر معمولی بات ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ وہ مسلمان ہے ۔ میرے خیال میں اسلامی تہذیب میں یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مسلم لیڈر، ایک مسلم صدر، ایک مسلم وزیر اعظم جس کو مسلمانوں نے منتخب کیا تھا یہ ثابت کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ میں آج بھی اسلامی سربراہی کانفرنس کا صدر ہوں ۔ بھٹو صاحب نے چیف جسٹس صاحب کو مخاطب کر کے کہا مائی لارڈ آپ میری جگہ نہیں ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ عدالت کے ریمارکس نے مجھے کتنا دکھ پہنچایا ہے۔ ایسی توہین سے تو بہتر ہوتا کہ مجھے پھانسی دے دی جاتی یا کسی فوجی ٹریبونل کے ذریعہ ختم کردیا جاتا۔

[تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں ‘بھٹو کا عدالتی قتل از مجاہد لاہوری ، عدالت ِ عظمیٰ سے چیئر مین ذوالفقار علی بھٹو کا تاریخی خطاب مترجم ارشاد رائو]

بہر حال سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے یہ حصے تو ختم کر دیئے لیکن سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا۔ 4 اپریل 1979 کو بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی۔ لیکن مرنے کے بعد بھی ان کی مذہبی حیثیث کا فیصلہ کرنے کا سلسلہ ختم نہ ہوا۔ کرنل رفیع صاحب جو وہاں ڈیوٹی پر تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی تو یہ دیکھنے کے لئے ان کی لاش کی تصویریں لی گئیں کہ ان کے ختنے ہوئے ہیں کہ نہیں اور لکھتے ہیں کہ اس سے حکام کا یہ شک دور ہو گیا کہ ان کے ختنے نہیں ہوئے تھے۔ اس فعل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ لیکن جب ہر کوئی اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر رہا ہو تو اس کا انجام اس قسم کی بیہودگیوں پر ہی ہوتا ہے۔

ہر فرد اور ہر ادارے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار تک محدود رہے۔ 1978 میں عدالت کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون ‘نام کا مسلمان ‘ ہے اور کون حقیقی مسلمان۔ اور 2019 میں کسی جج کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ لاش کو پھانسی دینے کے احکامات جاری کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).