ڈی چوک میں لاش اور جمہوریت کی بساط


سابقہ آمر پرویز مشرف کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے عدالت کے کندھے پر بندوق رکھ کر لبلبی ججوں سے دبوائی جا رہی ہے۔ یہ ممکن اس لیے ہو رہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف ثبوت بہت ہیں اور عدالتیں ثبوت دیکھتی اور میرٹ پر فیصلے کرتی ہیں وہ فیصلوں کے فوائد یا نقصانات پر غور کر کے انصاف سے پیچھے نہیں ہٹتیں۔

ایک ماہ قبل آرمی چیف کی ایکسٹینشن بارے آئے فیصلے کے بعد اب پرویز مشرف کے خلاف آئے اِس نئے فیصلے کو لے کر ملک کا ایک طبقہ خوشیاں منا رہا ہے، جبکہ دوسرا طبقہ اِس کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔

جہاں تک جناب مشرف کی سزا کا تعلق ہے تو میں بحثیتِ ایک عام ووٹر اور جمہوریت پسند انسان عدالت کے فیصلے پر مکمل اعتماد کرتا ہوں، مگر آج آئے تفصیلی فیصلے میں ایک مغزز جج کی جانب سے لاش کی بے حرمتی جیسی رائے دینے پر حیران ہوں۔ گو کہ اِس رائے سے دیگر دو مغزز ججوں نے اختلاف کیا کیونکہ یہ رائے ہماری روایات اور مذہبی اقدار کے خلاف ہے۔

مگر میڈیا اور سوشل میڈیا پر جس طرح اِس رائے کو نمایاں کیا جا رہا ہے اِس سے کہانی کے کچھ پوشیدہ کرداربھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ کیونکہ سارا پاکستان جانتا ہے کہ میڈیا کس کی زبان بولتا اور کس ایشو پر کیوں اور کب خاموش رہتا ہے۔

لاش کی بے حرمتی کو لے کر عوام کو ایسا پیغام دینا جیسے یہ فیصلے کا حصہ ہے، سراسر غلط اور خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اِس اقدام سے عوام اور اداروں میں نفرت اور کشیدگی بڑھے گی۔ جب یہ سادہ سی بات مجھ نا سمجھ کے پلے پڑ گئی تو پھر وہ کون لوگ ہیں جو جانتے بوجھتے یہ سب کروا رہے ہیں؟ اُن کا کھرا نکالنے کو اب یہ سوچناہو گا کہ اِس جملے کو میڈیا میں اچھال کر کون لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟

ہم بلوچستان کے لوگ اپنے جوانوں کی مسخ شدہ لاشیں اٹھا چکے ہیں۔ اِس کرب، اِس تکلیف اور اِس سے معاشرے میں پھیلتی نفرت کو بخوبی جانتے ہیں۔ اگر ایسی ایک لاش دیکھ کر ہمارے سینے آج تک سلگ رہے ہیں تو یقینا اہم ترین ادارے کے جوان بھی ایسا ہی سوچتے ہوں گے۔

خون پر خون ڈال کر چھپایا نہیں جا سکتا۔ ایسے ہی آگ میں مزید انگارے ڈال کر اسے بجھایا بھی نہیں جا سکتا۔ میں عوام کے جذبات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اہم ترین ادارے میں پھیلتی بے چینی اور بے عزتی کو بھی محسوس کر رہا ہوں۔

جہاں اس فیصلے کے ملکی جمہوریت پر اچھے اثرات پڑیں گے وہیں ”لاش ڈی چوک میں تین دن لٹکانے“ جیسے کمنٹس سے نفرتیں پھیلیے گی۔

میں نے جنم دنیا کے اُس علاقے میں لیا ہے جو صدیوں سے جنگوں کی فرنٹ لاین رہا ہے ہم بلوچستانیوں کی جبلت ایسی ہو چکی ہے کہ ہم افغانستان یا ایران میں اڑتے دھویں کو سونگھ کر یا دیکھ کر آنے والی تباہی بھانپ جاتے ہیں۔ مجھ نا چیز کو کل سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جان بوجھ کر ملکی حالات ایسے بنائے جا رہے ہیں کہ اگر ملک میں پھر سے مارشل لا لگ جائے تو عوام کی ہمدردیاں مارشل لا لگوانے والے سیاسی بازی گروں کے ساتھ ہوں۔

سابقہ چیف کی لاش کو یوں لٹکانے کا کہہ کر سولجر اور سویلین کے مابین ایک بار پھر نفرت کا بیج بویا جارہا ہے اور اِس کے بدلے میں ہوئے کسی غیر آئینی اقدام کی حمایت کرکے چند چوہدری، ملک، نواب اور سردار آنے والے کئی برسوں تک اقتدار کے مزے لوٹیں گے۔ جس کی تیاریاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ پارٹیان بدلنے والے پرندوں کی آنکھیں گھوم رہی ہیں اور وہ نئی منزلوں، نئے ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں۔ کارکردگی ان کی نہ کبھی ایسی تھی اورنہ اب ہے کہ وہ اپنے کیے کار نمایاں جتلا کر عوام سے ووٹ یا حمایت لے سکیں تو وہ ایک نئی لاش چاہتے ہیں جس کا ماس، یہ سیاسی گدھ نوچ نوچ کر اگلے دس بیس سال اپنی نسلیں پروان چڑھائیں۔

کچھ لوگ اپنے ذاتی فائدے کے لیے ایک سابقہ چیف کو عبرت کا نشان بنتا دیکھنا چاہتے ہیں تو دوسرے اِس طرح کے جملوں کو میڈیا میں اچھال کر ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں عوام کی ایک بڑی تعداد اور اہم ادارے اُن کے ساتھ ہوں اور اُنھیں لوگوں کو قائل کرنے میں آسانی اور بتاتے کو یہ جملہ ہو کہ ”بات لاش کی بے حرمتی تک آ گئی تھی“ یوں چند عاقبت نااندیش لوگ ملک میں موجود لولی لنگڑی جمہوریت کی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کی وزات آمریت یا جمہوریت کی محتاج نہیں ہوتی۔ اللہ کرے میری چھٹی حس غلط ہو، مگر دلوں سے اٹھتا دھواں اور انگارے ہوتی آنکھیں کچھ اور ہی کہانی سنا رہی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).