غدار کیسے بنتے ہیں؟


غدار کا لفظ آج کل ہر جگہ کہا سنا جارہا ہے۔ غداری عام طور پہ اپنے حلف سے پھرنے کو کہا جاتا ہے۔ ملک کے راز دشمن کو دینے اور ان پہ مختلف فوائد حاصل کرنے۔ اس کے علاوہ ایسے عمل کرنا جس سے ملک یا ملکی آئین کو نقصان پہنچے، کو غداری کہتے ہیں۔ غداری کے کچھ خطابات سیاسی طور پہ دیے گے جن سے مختلف شخصیات فائدہ اٹھاتی رہی۔ فاطمہ جناح، باچا خان، بھٹو، بے نظیر، نواز شریف یہ سب اس نام کے ساتھ جڑے ہیں۔ تازہ اضافہ مشرف صاحب کا ہوا ہے۔

خیر جہاں خاص لوگ غدار ٹھہرائے گے وہاں بہت سے عام لوگ بھی ان کی زد میں آ گے۔ جیسے پچھلے دنوں اخبار میں خبر پڑھی۔ نقیب اللہ محسود کے والد صاحب انتقال کر گے ایک تصویر سوشل میڈیا پہ زیرِ گردش ہے۔ جس میں نقیب اپنے بیٹے کے ساتھ کھیل رہا ہے، دوسری تصویر میں وہی بچہ اپنے دادا کی میت کے سرہانے اداس کھڑا ہے۔ دادا ناکام لوٹ گیا بچے کے والد نقیب کے پاس۔ ذرا سوچیں نقیب اپنے والد سے مل کے کیا سوال کرے گا۔ اور باپ کیا جواب دے گا۔

یہی کہے گا بیٹا ملک میں ظلم کا نظام ہے۔ انصاف نہیں مل سکا۔ ایسی بہت سی ظلم کی مثالیں زندہ ہیں، ہوتی رہیں گی اور انجام بھی ایسے ہی ملیں گے۔ کراچی کا معصوم بچہ ہاتھ جوڑ کے رینجرز کے سپاہی کے سامنے فریاد کررہا تھا۔ خدا کے لیے مجھے معاف کردو، میری بات سُن لو۔ وہ معصوم سید زادہ ’سرفراز شاہ‘ جسے رینجرز کے دوسرے اہلکار نے سر کے بالوں سے پکڑ رکھا تھا۔ اچانک شارٹ مشین گن کی لبلبی دبی۔ تو ایک بے گناہ جسم چند لمحے تڑپنے کے بعد ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

سانحہ ساہیوال معصوم بچے جن کے والدین کو بھٹے کے دانوں کی طرح بھون ڈالا۔ کراچی میں ٹرک ڈرائیوروں پہ فائرنگ، کبھی ان واقعات کے متاثرین کے پاس ایک دن گزار کے دیکھیں۔ ائر پورٹ پہ مسافروں کے ساتھ بدترین تشدد کی ویڈیوز۔ ان متاثرین کے جذبات سنیں، آپ حیرت زدہ ہو جائیں گے، ان کی نسل یہ سانحات بھول نہیں سکتی۔ طیش میں آتے یہ ذہنی مریض سرکاری قاتل جو ادارے اور ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انڈین موویز سے متاثر ہو کے، عام شہریوں پہ اپنا احساس کمتری ختم کرتے ہیں۔

یہ تمام ویڈیو آج بھی یو ٹیوب سمیت مختلف ویب سائٹس پہ موجود ہے۔ کیا ہم نے انگریز فوجیوں کی قتل و غارت گری بھول گے ہیں؟ ہم جنرل ڈائر کو آج برصغیر کا یزید کہتے ہیں۔ آج بھی ہر سال جلیانوالہ باغ میں معصوموں کے لاشے سسکتے ہیں۔ انگریزوں نے پشاور بازار میں خون کے بازار گرم کیے تھے۔ ایسے ظلم و ستم کے بعد پھر بھگت سنگھ پیدا ہوتے ہیں۔ ہماری فیصلہ ساز قوتوں کو سوچنا چاہیے، کہ ہماری قبیل میں جو ایسی کالی ذہنی مریض بھیڑیں ہیں۔ ان کا مکمل علاج کروائیں۔ ورنہ ایسے لیگل قاتل کو آپ بندوق پکڑا کے کھڑا کررہے ہیں۔ ان کی مثال بھیڑوں کی رکھوالی کے لیے بھیڑیوں کا انتخاب ہے۔

میں خود سرحدی علاقے کا رہنے والا ہوں۔ ہمارے ہاں کسان اپنے کھیت جل جانے پہ چپ رہتا ہے۔ جتنا گولہ بارود دفن کر دو۔ مال مویشی مار دو مگر غریب زمیندار اف تک نہیں کرتا۔ ملک اور فوج کی عزت اگر کوئی سب سے زیادہ کرتا ہے تو وہ شکرگڑھ کا سرحدی کسان ہے۔ جو ہر وقت تیار ہوتا ہے کسی بھی وقت حکم ہو گا۔ کہ ملک حالتِ جنگ میں ہے، علاقہ خالی کریں۔ بہت سے احباب فوج کو برا بھلا کہتے ہیں۔ بخدا میں ڈرائنگ روم میں سفیدی زدہ زرد چہروں والے صحافیوں کی باتیں سن کے نہیں، باقاعدہ پریکٹیکل مثال دے رہا ہوں۔

میں نے اپنے محترم فوجی بھائیوں کو دیکھا ہے۔ جو انتہائی مشکل ترین حالات میں، کمترین ریسورسسز کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کے بارڈر پہ کھڑے ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا، گھر کب گئے تھے تقریبا جو سب سے کم عرصہ بتایا وہ چھے ماہ تھے۔ ایسے شاندار کھلے دل کے لوگ ہماری حفاظت پہ چوبیس گھنٹوں چوکس کھڑے ہیں مگر بعض اوقات کچھ ذہنی مریض جن کی حرکتوں کی وجہ سے ادارہ، عام آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی وجہ سے پھر کچھ خاص عناصر اپنا کام نکال لیتے ہیں۔

جیسے فرشتہ قتل کیس اسلام آباد واقعہ میں اگر آپ ایک مخصوص خاتون کا مکمل انٹرویو سن لیں، تو سمجھ آئے گی، جو کمیونٹی سوشل کرائم ہے۔ جس کے لیے آپ پولیس کو قصور وار ٹھہراتے ہیں۔ اس میں بھی وہ فوج کو گالی دے رہی ہے۔ جس سے اس کے پوشیدہ عزائم صاف ظاہر ہوتے ہیں، کہ محترمہ کسی مخصوص اسائنمنٹ کے لیے مقرر تھیں۔ بعد میں اس پہ نواز بھی دی گئی۔ ایسے واقعات میں پھر دشمن پیار بھرے لہجے میں متاثرین کی مدد کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ معصوم دماغوں میں خناس بھر کے اپنے مقاصد حل کرتے جاتے ہیں۔ یہ مخصوص لوگ تو مقاصد حل کرکے پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں، عام آدمی مارا جاتا ہے۔ خدارا! اس ملک پہ رحم کھائیں۔ عام آدمی کو غداری سے بچائیں.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).