پاکستان، مینڈھا اور کھونٹا


میرے ایک دوست ایرانی نژاد ہیں مگر بڑی پیاری اردو اور سندھی بولتے ہیں۔ سندھی اس لیے کہ آپ کی پرورش حیدرآباد میں ہوئی اور پھر آپ پولیس میں بھرتی ہوکر کراچی آگئے تو اردو بھی اچھی ہوگئی۔ ایک مرتبہ دفتر میں ان سے ایک ان کے نیچے کے اہلکار نے بدتمیزی کی اور وہ بڑی خاموشی سے برداشت کرگئے۔ میں اور وہ ایک ہی ونگ میں بیٹھتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور ان کی اس غیر متوقع خاموشی کی وجہ جانی تو آپ مسکرائے اور بولے، ”آپ جانتے نہیں کہ یہ مینڈھا کس کھونٹے پر اتنا اُچھل رہا ہے؟ “ میں نے تجسس کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ ”اس کے سر پر کمانڈنٹ صاحب کا ہاتھ ہے۔ “

ان کی اس مثال سے میں سمجھ گیا کہ ”کھونٹے کے زور پر اُچھلنا“ کیا ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مینڈھا اپنے کھونٹے کے زور پر ہی اچھلتا ہے۔ جتنا مضبوط کھونٹا اتنی اونچی چھلانگ۔

ہمارے ملک میں الحمدللہ کچھ بھی اچانک تو ہوتا نہیں۔ یہاں پر تیسرے درجے کے بھارتی ڈراموں کا سا بھونڈا اسکرپٹ بڑے بے ڈھنگے انداز میں قومی اسٹیج پر کھیلا جاتا ہے اور پھر اس پر مزاحیہ تجزیے ہوتے ہیں۔ آج کل ایک لفظ ”ادارے“ کا ہمارے قومی ذرائع ابلاغ میں چلن ہے۔ ایک اور لفظ ہے ”تصادم“ اور ایک اور لفظ ہے ”قومی مفاد“۔ مگر پچھلے چند ماہ میں ہوا کچھ بہت دلچسپ ہے۔ ذرا واقعات کا خلاصہ کرلیتے ہیں،

۔ نواز شریف صاحب جیل سے باہر، ملک سے باہر

۔ مریم صاحبہ جیل سے باہر

۔ زرداری صاحب جیل سے باہر

۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف عدلیہ کا فیصلہ

۔ اور پھر مشرف کے لئے سزائے موت اور لاش ڈی چوک پر تین دن لٹکانے کا حکم

یہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ یہ عدلیہ کر کیا رہی ہیں؟

اسٹیبلشمنٹ کا مطلب تو اب تک ہمارے ملک میں صرف و محض فوج ہوا کرتا تھا۔ ارے میں بھول گیا، مشرف دور میں اسٹیبلشمنٹ میں فوج اور عدالت کی تقسیم سامنے آئی تو تھی تو کیا وہ کوئی تقسیم تھی؟ کیا ویسی ہی تقسیم پھر اس ملک میں ہوگئی ہے؟ کیا ہم سن دوہزار سات میں لوٹ گئے ہیں؟ مگر اس مقام پر ہم دوبارہ اپنے پولیس کے دوست کی کھونٹے والی مثال کی طرف لوٹتے ہیں۔ آخر کھونٹا کہاں ہے؟ اتنا مضبوط کھونٹا؟

یہاں پر بات تھوڑی عالمی و تاریخی تناظر میں ہو تو بہتر تفہیم پیدا ہوگی۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ ایک دور میں امریکا بہادر سے سچا پریم کیا کرتی تھی۔ تب ہمارے ملک سے U 2 جہاز اڑ کر سوویت یونین کی خبر لایا کرتے تھے۔ پھر یہ پریم صدر ضیاء کے دور میں خوب پروان چڑھا۔ مگر ہر پریم کے دور میں کچھ تلخیاں بھی آتی تھیں۔ ایوب خان صاحب نے Friend not masterتحریر کی تھی، اور جناب ضیاء الحق صاحب نے امریکیوں کو تڑی لگانے کی کوشش کی تھی۔

ان تلخیوں کی سزا ہمیشہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو ہی ملی۔ بعد میں جب بینظیر، نواز شریف والا جمہوری کرکٹ میچ شروع ہوا تو پھر امریکی مفادات جمہوری حکمرانوں نے سمبھالے اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مفادات کے لئے امریکا سے بارگینگ کرنی سیکھی۔ اسٹیبلشمنٹ کو امریکا سے بارگینگ تو برداشت تھی مگر ان کے پسندیدہ جمہوری حکمرانوں سے بغض تھا۔ یہ بغض بار بار ان حکمرانوں کی برخاستگی اور بعد ازاں بینظیر کی موت اور نواز شریف کی جلا وطنی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ ویسے ہمارے جمہوری حکمران بھی ہمیشہ اس خیال میں رہے کہ وہ امریکا اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک وقت خوش رکھ سکتے ہیں یا بیوقوف بنا سکتے ہیں۔ مگر یہ دونوں ہی کھونٹے ان کے کام نہ آسکے۔

مشرف کا زوال افتخار چودھری سے ان کے تناؤ سے پیدا ہوا تھا۔ اس سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے اندر کی کوئی دراڑ اتنی وضاحت سے سامنے نہیں آئی تھی۔ اب یہاں پر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا سارے ہی جرنیل اپنے چیف کے وفادار ہی ہوتے ہیں یا کچھ امریکا بہادر سے ڈائیریکٹ بھی ہوجاتے ہیں؟ قیاس کہتا ہے ہوتا تو ایسا ہی کچھ ہے۔ خود جنرل ضیاء کی موت سے پہلے دوسرے جہاز مین سفر کرنے والے جنرل صاحب کو خبر تو ہوگی ہی چاہے ان کا اس میں ہاتھ نہ بھی ہو۔

کہا جاتا ہے کہ افتخار چودھری کے پیچھے بھی فوج کا ایک طبقہ بھی امریکا بہادر کے ساتھ کھڑا تھا۔ یہی معاملہ ابھی بھی نظر آتا ہے۔ فوج کے ساتھ عدلیہ نے کھل کر، بہت کھل کا ٹکر لی ہے۔ اب جمہوری حکومت بھی فوج کے لوگوں کی ہے جو بڑی دشوار انجینئرنگ سے بنائی گئی ہے۔ اس صورتحال کا مطلب تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ بس اسٹیبلشمنٹ کی فتح ہوئی اب سول حکومت اس کی ہے، اور عدلیہ تو اس کی ہی ہے۔ مگر ہوا وہ جو ہورہا ہے۔

امریکا بہادر کو اسٹیبلشمنٹ کی چین سے بڑھتی پینگیں بالکل نہیں بھا رہی تھیں۔ اس نے ممکنہ طور پر ہماری عدلیہ اور ”اداروں“ کے ہی کچھ حصے پر سرمایہ کاری کردی ہے۔ اب یہ مینڈھا اپنے مضبوط کھونٹے پر بڑا اونچا اچھل رہا ہے۔ یہ جست اب یا تو اسٹیبلشمنٹ کو امریکا بہادر کا مطلق وفادر و فرمانبردار بنا دے گی یا پھر کھونٹا اُکھڑ جائے گا۔ مگر ظاہر ہے کہ اگر امریکا کے مفاد کو کھلی فوجی آمریت سے کچلا گیا تو ایف اے ٹی ایف اور دیگر تلواریں بھی امریکا کے پاس ہیں۔

وہ اچانک کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سارے کشمیر میں اقوام متحدہ کی افواج بھجوا کر استصواب رائے کرا سکتا ہے۔ اس صورت میں بھارت سے تو کشمیر جائے گا ہی (جو کہ شاید اب بھارت چاہتا بھی ہے ) اور چین سے ”اسکائے چن“ اور پاکستان سے گلگت بلتستان و آزاد کشمیر جائے گا۔ اس صورت میں CPEC کا ٹنٹا ہی ختم ہوگا اور اسٹیبلشمنٹ کو بڑا بھاری گھاؤ لگے گا جس کی وہ ابھی متحمل نہیں ہے۔ یہ صورتحال بڑی عجیب ہے۔ مینڈھا بڑے زور سے جست لگارہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ کیا کرے۔ مینڈھے میں جتنا زور ہے اُس سے لگتا تو یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا جن اب بوتل میں بالاخر بند ہونے کو ہے۔ مگر اس کے بعد کیا ہوگا یہ کہنا بڑا مشکل کام ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).